نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیلاب متاثرین کی بحالی۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنیوالے سیلاب نے پاکستان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ سیلاب سے پانچ کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ جانی و مالی نقصان کا ابھی اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کیا کر رہی ہے؟ آج پاکستان کی تباہی ہوئی ہے کل کسی دوسرے ملک کی باری ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین سے رابطہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے امداد کیلئے رابطہ کیا ہے اور بہت سی امداد حاصل بھی ہوئی ہے مگر اصل مسئلہ امداد کی درست تقسیم اور آئندہ بچائو کیلئے اقدامات ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اعلان کیا ہے کہ میں سیلاب کی صورتحال اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان کا دورہ کروں گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو امدادی کارروائیوں کی صورتحال دیکھنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کیلئے مستقل بنیادوں پر سیلاب کی روک تھام کے اقدامات پر بھی بات چیت کرنی چاہئے۔ کوئی بھی آفت آئے ہمیشہ غریب تباہ ہوتا ہے۔ حکمران، افسران، عوامی نمائندے، سردار، تمندار اور این جی اوز سب مزے میں ہوتے ہیں اور وہ خدا سے معافی کے طلبگار ہونے یا توبہ کرنے کی بجائے دعا کرتے ہیں کہ آئندہ سال پھر آفت آئے تاکہ ہمارے وارے نیارے ہو سکیں۔ پوری دنیا میں سیلاب آتے ہیں۔ سیلاب کے معاملے میں بنگلہ دیش بہت مشہور ہے۔ چین میں بھی سیلاب آتے ہیں لیکن ان ممالک نے سیلاب سے بچائو کیلئے بہت حد تک اقدامات کر لیے ہیں۔ ہمارے ہاں حکمران طبقہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور مس مینجمنٹ کو درست کرنے کی بجائے اپنے ڈھنڈورچیوں کے ذریعے یہ کہلوانا شروع کر دیتا ہے کہ غریبوں پر یہ عذاب اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، کیا اللہ تعالیٰ صرف غریبوں پر عذاب بھیجتا ہے؟ یہ شک غلط ہے۔ اللہ مہربان اور غفور ورحیم ہے اور غریب پر سب سے زیادہ راضی ہے کہ وہ اپنی محنت اور دفاع کشی سے رزق حلال کھاتے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر اپنی غلطیوں پر قابو پانا چاہئے اور ایمانداری سے قوم کی خدمت کرنی چاہئے۔ ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ سیلاب سے وسیب کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ وسیب بنیادی طور پر زرعی سماج ہے۔ کھربوں کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ادھار پر بیچ، کھاد اور زرعی ادویات حاصل کرنیوالے غریب کاشتکاروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لاکھوں ایکڑ رقبہ برباد ہوا۔ سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ پندرہ سے بیس لاکھ مویشی سیلاب کی نذر ہوئے۔ سینکڑوں شہر و قصبے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ہزاروں دیہات اور لاکھوں گھر نیست و نابود ہو گئے۔ حکومت نے 25 ہزار روپے فی خاندان امداد دینے کا اعلان کیا ہے جو شرمناک ہے۔ 25 ہزار میں ایک بکرا بھی نہیں آتا۔ مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں جا رہا ہوں، بہت برا حال ہے۔ میں ایک طرف وسیب کی ذرخیزی کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف تباہی کو تو مجھے خوب اندازہ ہو رہا ہے کہ وسیب محروم و پسماندہ کیوں ہے؟ ترقی معکوس اس کا مقدر کیوں بنا دی گئی ہے؟ لٹیرے سب کچھ لوٹ رہے ہیں۔ غریب کو صرف صبر کے بھاشن ملتے ہیں۔ وسیب کے لوگوں کو خیرات نہ دی جائے اُن کا صرف حق دے دیا جائے۔ باہر سے ملنے والی گرانٹ کی درست تقسیم کی جائے۔ وسیب کے افسران اور جاگیرداروں کی بیگمات صرف ایک دن کی شاپنگ کا خرچ سیلاب زدگان کو دے دیں تو بہت سے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں حکومت اور سیاستدانوں کی امدادی کارروائیاں فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔ کسی جماعت کے سربراہ نے ابھی تک اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ سیلاب زدہ علاقوں میں خیموں، ترپالوں، خوراک اور ادویات کے ساتھ ساتھ مچھر دانیوں اور جانوروں کیلئے چارے کی اشد ضرورت ہے۔ خشک لکڑی، سلنڈر اور گھر میں استعمال ہونیوالی اشیاء کی بھی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بستر ، تکیہ، رضائی، چادر، چار پائی، کمبل ، کپڑے وغیرہ بھی درکار ہوں گے کہ متاثرین کا کچھ نہیں بچا۔ امداد دینے والے اس بات کو ضرور کو ضرور یقینی بنائیں کہ ان کی امداد حقدار پر پہنچ رہی ہے؟ ایسا نہ ہو کہ مہنگی چیزیں بیچ کر وہی دکاندار حقداروں کی اشیاء سستے داموں دوبارہ خرید کر رہا ہو۔ ابھی تک یہ سب کچھ ہوتا آرہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کی طرح مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری، شہباز شریف، وزراء ،ارکان اسمبلی، وسیب کے سرداروں، جاگیرداروں، تمنداروں، علماء و مشائخ کو سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے کہ ان سیلاب زدہ علاقوں جہاں اب بھی پانی کھڑا ہے، مجھے ایک پرندے اور دوسرے دوسرے یہ لوگ دیکھنے کو نہیں ملے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیلاب اور بارشوں میں آہستہ آہستہ کمی آرہی ہے۔ اللہ پاک رحم کرے آنیوالا وقت خیر کا ہو۔ بد ترین تباہی کے بعد اگلا مرحلہ بحالی کا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے سوات پہنچ کر کہا سیلاب متاثرین کو گھر بنا کر دینا ہوں گے۔ اُن کا بیان درست ہے مگر بحالی کے کام میں کسی خطے سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ مکانوں کی تعمیر اور بحالی کے کام میں وسیب کو ہر صورت شریک رکھنا چاہئے۔ وسیب کو مرکز کے ساتھ صوبائی حکومتیں بھی نظر انداز کر رہی ہیں کہ وسیب کے لوگوں کا اپنا صوبہ نہیں ہے۔ ٹانک، ڈی آئی خان میں سیلاب سے تباہی ایک ماہ سے جاری ہے مگر خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے وہاں جانا تک گوارہ نہیں کیا۔ پنجاب میں شامل اضلاع کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت بحالی کے عمل میں شریک ہونے کی بجائے عمران خان کے جلسوں اور پروٹوکول میں مصروف نظر آتی ہے۔ مرکز کی حالت یہ ہے کہ مرکز نے سندھ اور بلوچستان میں سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کیلئے اربوں کی گرانٹ دی ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کو کچھ نہیں دیا۔ عمران خان سے مرکز کا اختلاف اپنی جگہ مگر سیلاب متاثرین کا کیا قصور ہے؟

 

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author