نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈوبنے والوں کی ’حقیقی آزادی‘ اور عمران خان کی بے خبری….|| وجاہت مسعود

تاہم ذرائع ابلاغ اور پیشہ ور ’محبان وطن‘ حسب معمول ’کمپنی بہادر کی جے‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سیلاب اپنا تاوان لے کر بحیرہ عرب میں جا گرے گا لیکن اس کے بعد اناج، سبزیوں اور دالوں کی مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ سیلاب کی نذر ہونے والے مال مویشی کا نقصان دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالآخر عمران خان نے 27 اگست کو جہلم جلسے میں سیلاب کی خوفناک صورت حال پر لب کشائی کی زحمت فرمائی۔ انہوں نے فرمایا کہ غیر معمولی بارشوں اور تباہ کن سیلاب کے باوجود وہ ’حقیقی آزادی‘ کے لئے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ اس سے ایک روز قبل وہ سرکاری جاہ و حشم کے مکمل تام جھام کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک بھی تشریف لے گئے تھے جہاں انہوں نے عوامی تکالیف کے حقیقی احساس کا ثبوت دیتے ہوئے تین انچ گہرے پانی سے گزر کر پریس کانفرنس بھی منعقد کی۔ اور آج رات ( 29 اگست) ٹیلی ویژن پر عوام سے امداد اکٹھی کرنے کے لئے ایک طویل ٹرانسمیشن بھی کریں گے۔ یہی کام محترم عمران نے 2010 کے سیلاب میں میر خلیل الرحمن فاﺅنڈیشن سے مل کر بھی کیا تھا اور کوئی ایک ارب روپے جمع کیے تھے۔ تب معاملات کچھ اور تھے۔ حضرت کی سیاسی رونمائی مقصود تھی اور سرکاری پرچہ نویسوں نے ابھی جنگ جیو گروپ کو ’ملک دشمن‘ قرار نہیں دیا تھا۔ پیسہ تو عمران خان اب بھی جمع کر لیں گے لیکن ان کی صداقت اور امانت کے آئینے میں ممنوعہ فنڈنگ اور توشہ خانے کے بہت سے بال آ گئے ہیں۔ سیاسی مقبولیت سے قطع نظر، غیر سیاسی پشت پناہی کی فصیل میں تزلزل آ گیا ہے۔ عمران خان پر تنقید کا مطلب دیگر سیاسی قوتوں کی مدح سرائی نہیں۔ بلوچستان کا ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ آپ چاہیں تو اسے حالیہ سیلاب کا نتیجہ قرار دے لیں، مجھ جیسے بے خبر سمجھتے ہیں کہ یہ رابطہ تو 2004 میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے واقعے اور 2006 میں اکبر بگتی کی شہادت کے بعد سے منقطع چلا آتا ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع سرائیکی وسیب کوہ سلیمان سے اترنے والے عذاب سے گزرنے کے بعد اب اوچ شریف اور بہاولپور کے مقامات پر سیلابی ریلے کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی نے کسی نامعلوم وجہ سے لاہور میں پناہ لے رکھی ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان حسب معمول دفتری دنیا کے اسیر ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ تعلیم یافتہ ہیں لیکن ان کا ایک بیان آیا ہے کہ امسال سندھ میں معمول سے 600 گنا زیادہ بارش ہوئی ہے۔ اب یا تو وزیر اعلیٰ 600 فیصد اور 600 گنا کا فرق نہیں سمجھتے یا کسی خبر نویس سے سہو ہوا ہے۔ بہرصورت سندھ کے یشتر اضلاع آفت زدہ قرار پا چکے ہیں اور ابھی سیلاب کا حقیقی ریلا سندھ نہیں پہنچا۔ اہل صحافت حسب معمول سیاست دانوں کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں۔ ایک چلتی ہوئی بحث ریاست اور سیاست میں ترجیح سے متعلق ہے۔ عوامی مسائل اور سیاست میں لاتعلقی کا ماتم جاری ہے۔ میرے استاد محترم اکثر سیاست اور ریاست میں لکیر کھینچنے پر تبصرہ فرمایا کرتے ہیں کہ ریاست کے معاملات سیاسی عمل ہی سے متعین ہوتے ہیں۔ سیاست ہی ریاست کی سلامتی اور ترقی کی ضمانت دیتی ہے۔ سیاست کا دفتر لپیٹ دیا جائے تو باقی کیا بچے گا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا پریس ریلیز، مناسب قطع و برید کے بعد محکمہ جاتی اطلاعات نیز پاک بھارت کرکٹ ’ٹاکرے‘ کی خبریں؟
آئیے کچھ زمینی حقائق دیکھیں۔ بین الاقوامی معیارات کے مطابق 15 گز سے زیادہ گہرے پانی کی گنجائش رکھنے والے ڈیم کو بڑے ڈیم کی درجہ بندی میں رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسے 73 ڈیم ہیں جن میں سے 60 گزشتہ صدی میں مکمل ہوئے تھے۔ پچھلے 22 برس میں اس شعبے میں ہونے والا بیشتر کام ابھی زبانی جمع خرچ یا تکمیل کے مرحلوں میں ہے۔ ہاﺅسنگ سوسائٹی مافیا، چائنا کٹنگ کے ماہرین اور کچھ مراعات یافتہ ریاستی محکموں نے پہلے سے موجود آبی ڈھانچے کا ستیاناس کر دیا۔ پنجاب میں 1122 کے اہلکاروں نے جان کی بازی لگا کر ہزاروں افراد کو سیلابی ریلوں سے بچایا ہے۔ تاہم ذرائع ابلاغ اور پیشہ ور ’محبان وطن‘ حسب معمول ’کمپنی بہادر کی جے‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سیلاب اپنا تاوان لے کر بحیرہ عرب میں جا گرے گا لیکن اس کے بعد اناج، سبزیوں اور دالوں کی مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ سیلاب کی نذر ہونے والے مال مویشی کا نقصان دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا۔ سیلابی پانی اترنے کے بعد وباﺅں اور بیماریوں کا سلسلہ شروع ہو گا۔ جس ملک نے روزمرہ اخراجات کے لئے آئی ایم ایف اور بیرونی ممالک کی طرف ہاتھ پھیلا رکھا تھا، وہ ملک کے ایک چوتھائی رقبے پر انفرا سٹرکچر کی تباہی سے کیسے نمٹے گا۔ مکمل افلاس کا شکار ہونے والوں کی بحالی کیسے کرے گا؟ واللہ، اس درویش کو مسیحا صفت عمران خان اور ان کی ’انقلابی سیاست‘ سے کوئی بغض نہیں، البتہ ایک رائے ہے کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد قوم سے خطاب میں 29 فیصد پاکستانی بچوں کی کمزور دماغی نشوونما کا ذکر کیا تھا۔ خود عمران خان کا سیاسی شعور ان کم نصیب بچوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ 1994 تک وہ سیاست کو ملاحیاں سنایا کرتے تھے۔ ہمیں گوری چمڑی سے خبردار کرنے والے عمران خان نے 1971 میں ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تو آصف مسعود نامی میڈیم فاسٹ باﺅلر ٹیم کا حصہ تھے۔ نو برس میں 16 ٹیسٹ اور 41 کی اوسط سے 38 وکٹیں۔ اب وہ کسی کو یاد نہیں ہیں۔ کرکٹ میں عمران خان کی فتوحات کاﺅنٹی کرکٹ اور کیری پیکر سیریز کی دین ہیں۔ قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر شہید سے عمران خان تک، ہماری سیاسی قیادت مغرب کے علمی اور تمدنی سرچشموں ہی سے فیضیاب ہوئی ہے۔ ہمارے لئے میاں چنوں کے ادھ کچے طبیب اور مغرب دشمنی کا نسخہ کیوں تجویز کرتے ہیں۔ عمران خان آزادی کا مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ ہماری پسماندگی کے حقیقی اسباب۔ غیرملکی حکمرانی سے ہم آزاد ہو چکے۔ اب آزادی کا مطلب ہے دستور کی بالادستی، جمہور کی حکمرانی، غربت سے نجات اور جہالت سے آزادی۔ اگر سیاسی مخالفین کو چور وغیرہ پکارنے کے لئے جلسے ہی کرنا ہیں تو عمران خان کو خبر ہو کہ پاکستان کے کروڑوں شہری سیلاب کے ہاتھوں ’حقیقی آزادی‘ پا چکے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author