مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب ، زلزے ہوں یا قدرتی آفات انہیں روکنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ مگر تدبر ، حکمت عملی اور بہتر پلاننگ کے ذریعے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ 2010 ء کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب تھا۔ جس سے پورا ملک براہ راست متاثر ہوا تھا۔ امید کی جارہی تھی کہ اس خوفناک تباہی کے بعد ہمارے حکمران ضرور ایسی پلاننگ کریں گے جس سے آئندہ اس طرح کی سنگین صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر ایسا نہیں ہوا ہمارے حکمرانوں کی کی سب سے بڑی حکمت عملی اور پالیسی ” ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ” ہوتی ہے۔ جس کے زریعے وہ بڑی بڑی باتیں کر کے عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔ درحقیقت ایک مصیبت سے دوسری مصیبت کے درمیانی وقفے کو ان کی کارکردگی کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی سیلاب ، طوفان یا مصیبت آتی ہے قدرت کی مرضی اور گناہوں کی سزا کہہ کر عوام کو طوفان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ ان دنوں بلوچستان ، سندھ اور خاص طور وسیب کے لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے۔
پچھلے ایک ماہ سے جاری غیر معمولی اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں کوہ سلیمان سے آنے والی رودکوہیوں نے ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر راجن پور تک تین سو کلو میٹر سے زائد ایریا میں جو تباہی مچا رکھی ہے۔ اس نے نظام زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ خاص طور پر تونسہ ، ٹبی قیصرانی ، ریتڑہ ، فاضل پور ، روجھان ، راجن پور ایسے علاقے ہیں جن کے گرد و نواح اور خاص طور پر نشیبی علاقوں میں کئی کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ جہاں کل تک رونقیں تھیں ، ہریالی تھی ، خوشحالی تھی وہاں آج بدحالی ہے ، بے بسی ہے اور نفسا نفسی ہے۔ وہ پانی جو زندگی کی علامت ہوتا ہے آج موت کا نشان بن چکا ہے ، جہاں کل تک قہقہے تھے خوشیاں تھیں وہاں آج آہ و زاریاں ہیں، غموں کے ڈیرے ہیں۔ زمیں بوس چھتوں ، ٹوٹی دیواروں اور ملبے کے ڈھیروں پر حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے لوگ حیران اور پریشان ہیں۔ اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں بھی یا نہیں ؟ ان کے مرجھائے چہرے اور نمناک آنکھیں سوال کر رہی ہیں کہ اپنا خون پسینہ ایک کر ریاست کو ٹیکس دینے والے وسیب زادوں کا اتنا حق بھی نہیں کہ ان کی ہمدردی کے لیے کوئی بیان ہی جاری ہوسکے۔ مگر انہیں کون بتائے یہ بات کون سمجھائے کہ ریاست مصروف ہے ، حکومت مصروف ہے اور تمام سیاسی جماعتیں بہت مصروف ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو شکست دینی ہے ایک دوسرے کو ہرانا ہے ایک دوسرے پر مقدمات کرنے ہیں ایک دوسرے پر کیس بنانے ہیں ایک دوسرے کو گرفتار کرانا ہے۔ ایسی صورتحال میں وسیب کے غریب اور بے بس لوگوں کی کیا اہمیت اور کیا حیثیت ہے۔ وہ تو کیڑے مکوڑے ہیں مرتے ہیں تو مر جائیں ڈوبتے ہیں تو ڈوب جائیں۔
ہاں البتہ حکومت کا ایک کارنامہ ضرور ہے کہ اس نے سیلاب کی اب تک کی تباہ کاریوں کے اعداد و شمار جاری کر دئے ہیں جس کے مطابق طوفانی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں اب تک 8 سو کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں جبکہ مختلف واقعات میں 15 سو لوگ زخمی ہیں۔ جبکہ 2 لاکھ کے قریب گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح 3 سے 4 لاکھ مویشی بہہ چکے ہیں۔ جبکہ تل ، کپاس ، چاول ، سبزیوں کی فصلیں اور چارہ مکمل تباہ ہو چکا ہے جن کی مالیت کروڑوں میں بنتی ہے۔ حلانکہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں حکومت نے وسیب کے لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کے لیے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی وہاں بحالی کے لیے ان سے کیا امید رکھی جائے۔ حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کے 25 ہزار امداد کا اعلان اس وقت تک محض اعلان ہی ہے جب تک کوئی عملی پیش رفت نہیں کی جاتی۔ کیونکہ اس وقت سیلاب متاثرین کا سب سے بڑا مسئلہ كمبل ، خیمے ، راشن اور ادویات ہے۔ جس میں مركزی اور صوبائی دونوں حکومتیں ناکام نظر آرہی ہیں۔ کچھ فلاحی تنظیمیں اور مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں مگر یہ ناكافی ہیں۔ جب تک مركزی اور پنجاب حکومت طاقت ، اقتدار ، اختیار کی رسہ کشی سے نکل کر انسانیت کے ناتے وسیب کے لوگوں کی مدد نہیں کریں گی اس وقت تک بحالی نا ممکن ہے۔
اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وسیب کے لوگ جب الگ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کے پیچھے سب سے بڑھ کر حکمرانوں کا وسیب کے ساتھ امتیازی سلوک اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والا احساس محرومی ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ وسیب کی حالیہ صورتحال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جب لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا خوفناک سیلاب سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے مد مقابل ہیں۔ کتنے شرم اور افسوس کی بات ہے کہ مسلم لیگ پیپلز پارٹی انکے اتحادی ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ قاف اور پورے میڈیا کو ایک شہباز گِل تو نظر آرہا ہے مگر وسیب کے چراغ گل ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اور ان سے بھی شرمناک کردار وسیب کے اراکین اسمبلی کا ہے۔ کسی کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ دکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں وسیب کی آواز بن سکیں۔ حالانکہ ووٹ کی بھیک مانگتے وقت تو یہ لوگ رشتہ دار بنا لیتے ہیں مگر آج دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ اب بھی وقت ہے تمام سیاسی جماعتیں ، حکومت ، اپوزیشن اور وسیب سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی ہوش کے ناخن لیں۔ سیاست ہوتی رہے گی انسانیت کا احساس کریں دکھ کی اس گھڑی میں وسیب کے لوگوں کو تنہا اور بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں ورنہ جو لوگ آج پانی میں تیرتی اپنے پیاروں کی لاشیں پکڑ رہے ہیں کل تمہارا گریبان پکڑیں گے اور چھڑوانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی