وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اول تھیوری) ’پروجیکٹ نجات دھندہ‘: اکتوبر 2011 میں انٹیلی جینس ایجنسیوں کی بھرپور مدد سے لانچ کیا گیا۔ ماضی میں پی این اے، آئی جے آئی اور مسلم لیگ ق جیسے تجربات نے چونکہ خاطر خواہ نتائج نہیں دیے اس لیے اس بار ’پروجیکٹ نجات دھندہ‘ میں پچھلی خامیوں اور غلطیوں سے سبق لے کے تازہ مصالحے شامل کیے گئے۔
نئے پروجیکٹ میں امیج میکرز ، سوشل میڈیا ایکسپرٹس اور الیکٹ ایبلز نے مرکزی کردار ادا کرنا تھا۔ دو ہزار چودہ میں ایک سو چھبیس روز کا دھرنا اس پروجیکٹ کی فائنل ٹیسٹنگ تھی۔
اس ٹیسٹنگ میں جو کمزوریاں سامنے آئیں انھیں اگلے چار برس میں دور کیا گیا۔ پرانی سیاسی نسل کو ہر طرح سے محاصرہ زدہ، خوفزدہ اور مقدمہ زدہ کر کے ٹھکانے لگایا گیا تاکہ خان پوری سہولت سے سکہ رائج الوقت کے طور پر چل جائے۔
ایک نئے بے داغ سویلین فلمی سیٹ پر پوری فلم شوٹ کی گئی۔ کہانی کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک مقبول، ایمان دار نجات دھندہ ریاست کو لگی دیمک کا تسلی بخش علاج کر کے اسے ایک ایسی ٹھوس قوم بنا دے گا جو باقی دنیا کی باعزت توجہ جیت سکے۔
پروجیکٹ ڈیزائنرز کو توقع تھی کہ انھیں بھانت بھانت کے مفاد پرستوں کو الگ الگ آپریٹ کرنے کے مسئلے سے کم از کم اگلے 15 سے 20 برس کے لیے نجات مل جائے۔
چنانچہ جولائی 2018 میں مکمل پولٹیکل انجینیئرنگ کے ساتھ عمران خان کو جتوایا گیا اور پھر اگلے ساڑھے تین برس نئے رہنما کی راہ میں آنے والی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ سے پروجیکٹ انجینیئرز کی ایک خصوصی ٹیم براہِ راست نمٹتی رہی۔ تاکہ نئے رہنما اور اس کی ٹیم کو امورِ مملکت چلانے کا بنیادی تجربہ حاصل ہو جائے۔
مگر ٹیم عمران انجینیئرز کی وضع کردہ ٹائم لائن کے مطابق نہ چل سکی اور عمومی مایوسی بڑھنے لگی۔ لہذا اس مہنگے پروجیکٹ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ری لانچنگ کا ہنگامی منصوبہ تیار کیا گیا۔
ناتجربہ کار خان کو مزید کڑوے ناگزیر اقتصادی فیصلوں کی تپش سے تحفظ دینے کے لیے پرانے کھلاڑیوں کو عارضی طور پر اقتدار منتقل کیا گیا اور خان کو ایک نیا بیانیہ تھما دیا گیا۔
جتنے کڑوے فیصلے تھے وہ بھی ہو گئے۔ توقع کے مطابق ہر کوئی نئی حکومت پر تھو تھو بھی کر رہا ہے اور عمران خان دوبارہ ایک نجات دھندہ کے طور پر پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ ابھارا جا رہا ہے۔
تاکہ انتخابات جب بھی ہوں خان کو دو تہائی اکثریت دلوا کے نہ صرف اٹھارویں آئینی ترمیم میں چھپی بارودی سرنگیں صاف کر دی جائیں بلکہ وزیرِ اعظم کے دستوری اختیارات ایوانِ صدر منتقل کر کے عمران خان کو ایک ریفرینڈم کے ذریعے طاقتور آئینی صدر بنا دیا جائے۔
اور ہر اختلافی آواز کو پہلے سے زیادہ دبانے کی یہ کہہ کر کوشش کی جائے کہ جو نجات دھندہ کا دشمن ہے وہ دراصل ملک و ملت کی ترقی کا دشمن ہے ۔اس کے بعد انجینیئرز اور ان کی پروڈکٹ ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔
دوسری تھیوری) ’پروجیکٹ نجات دھندہ‘ مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے ہی لانچ کیا گیا مگر عمران خان کو اقتدار تھمانے اور ان کی ہر طرح سے مدد کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل نہ کیے جا سکے۔
چنانچہ مجبوراً عمران خان سے اقتدار لے کر براہ راست سامنے آنے کے بجائے پرانے کھلاڑیوں سے رجوع کیا گیا۔ مگر عمران خان نے پروجیکٹ ڈیزائنرز کے اندازوں کے برعکس سیاسی سکریپ بننے سے انکار کر کے پروجیکٹ کو ہی براہ راست چیلنج کر دیا۔
جو محروم لوگ پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں وہ عمران حکومت کی سابق ناکامیاں بھول بھال کر ریاست کو اپنی انگلیوں پر نچانے والے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے نجات کے بیانیے کے پیچھے چل پڑے۔
اب پولٹیکل انجینیئرز کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس ناگہانی سے نپٹنے کے لیے پرانے کارتوسوں پر سو فیصد بھروسہ کریں تو عوام کی بے نقط سنتے ہیں مگر ’ان گائیڈڈ میزائیل‘ عمران خان پر بھی آگے کے لیے بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ایسا ادھ بدھ چیلنج ڈیزانئنرز کو پہلی بار درپیش ہے۔
چنانچہ ان کا موجودہ سیٹ اپ پر تکیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال کو جتنا طول دیا جا سکے دے لیا جائے تاکہ اس مہلت کے دوران ’ان گائیڈڈ میزائیل‘ کو زمین پر اتارنے یا تباہ کرنے کا کوئی موثر طریقہ ہاتھ آ سکے۔ مگر کامیابی کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں۔
تیسری تھیوری) انسان کچھ سوچتا ہے لیکن قدرت کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ بھٹو ہو کہ نواز شریف یا عمران خان۔ تینوں اسٹیبلشمنٹ کی نرسری سے نکلے۔ مگر موقع ملتے ہی تینوں نے اپنا پاپولر بیس بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
بھٹو کو ایک بار اور نواز شریف کو تین بار یہ نایاب موقع ملا کہ وہ اپنی عوامی مقبولیت کے بل پر کچھ ایسی دورس اصلاحات کر جاتے جن کا مقصد شخصی حکمرانی کو مضبوط تر کرنے کے بجائے جمہور کی حکمرانی، انصاف اور حقوق کی محرومی کا خاتمہ ہوتا۔ مگر دونوں نے اس قیمتی موقع کو ضائع کر دیا۔
عمران خان کو ایک موقع ملا مگر انھوں نے اپنی بیساکھیاں ایک طرف رکھ کے سب کو ساتھ لے کر چل کے اس ملک میں جمہوری قوت کو طاقتور بنانے کا موقع ضائع کر دیا۔
اب اگر قدرت انھیں دوسرا موقع دے دے تو کیا ضمانت ہے کہ وہ اگلی بار بھی انتقام کی باتوں، تنگ نظری، غیر آئینی مشوروں پر توجہ، ذاتی اقتدار کے بڑھاوے اور نرگسیت کے قیدی بن کر نیا چانس ضائع نہیں کریں گے۔
یوں ملک پھر گول گول اسی دائرے میں گھومتا رہے گا جب تک کوئی اور مداری پہلے سے بھی بہتر ڈگڈگی کے ساتھ نہیں اترتا یا اتارا جاتا۔
ان تینوں تھیوریوں میں سے آپ اپنی پسند اور ذائقے کے حساب سے جو بھی تھیوری اٹھا لیں آپ کو مکمل آزادی ہے۔ ویسے بھی آزادی کا نعرے پھر سے فیشن میں ہے۔ جناح نے معلوم نہیں ہمیں کیا شے تھمائی تھی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
بھائی وُسعت اللہ آپ کا خلاصہ درُست ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے رولز آف دا گیم کیا ہیں۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت قرضے مانگنے کی جگہ بیرونی سرمایہ کاری کے راستے معیشت کو ترقی دینے پر تیار کیوں نہیں ہوتی۔ یہ راستہ چین، یُو اے ای، ہندُستان، ہانگ کانگ، سنگاپور، ویتنام سب نے اختیار کیا۔ یہی تجویز اشرف غنی نے 2014 میں اور اس سالُ14 اگست کو فرید زکریا کو GPS میں افغانستان کے لئے دی تھی۔ براہ مہربانی اس موضوع پر بحث کا آ غاز کرائیں۔ جب تک رُولز آف گیم تبدیل نہ ہوں۔ جو حکوُمت بھی آئے گی پرانے کام دُہرائے گی۔