رضوان ظفر گورمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب کے پسماندہ ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان سے چار پانچ کلومیٹر دور مشرقی سمت میں پولیس کی اک پکٹ بمبلی بہار ماچھی پہ ڈاکو حملہ آور ہوئے اور گزشتہ کئی گھنٹوں سے مقابلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس مقابلے میں تین ڈاکو ہلاک ہوئے ہیں جوابی فائر نے سے اک جوان زخمی ہے جبکہ پکٹ پہ موجود باقی جوان محصور سے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کی جان پہ بنی ہوئی ہے پھر پیچھے سے کمک نہ پہنچنے کی وجہ سے یہ جوان نفسیاتی طور پہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ 2016 میں کچے کے آپریشن نے میڈیا کی خوب توجہ کھینچی۔
پولیس کا کافی جانی مالی نقصان ہوا۔ اس کے بعد سے پولیس نے اس علاقے میں پکٹس بڑھا دیں۔
چونکہ یہ پکٹس شہر نہیں بلکہ جنگل میں ہوتی ہیں اس لیے ڈیوٹی ادا کرنے والے ان نوجوانوں کا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا سب وہیں ہوتا ہے۔ زنگ آلود پرانے سے اسلحے کے ساتھ یہ بے چارے سردی گرمی پکٹس پہ پڑے رہتے ہیں
ہر سال جب سیلابی صورتحال بنتی ہے تو پکٹس کے اردگرد پانی کھڑا ہو جاتا ہے حبس حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے برساتی کیڑے مکوڑے نکل آتے ہیں جسم پہ چوبیس گھنٹے پسینے کی اک چپچپاہٹ بھری ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اوپر سے پولیس یونیفارم دیکھیں اتنی موٹی کہ سمجھ نہیں آتی کہ پولیس والوں کو انسان کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ بوٹس اور موٹے کپڑوں کی وجہ سے جسم پہ ریشز ہو جاتے ہیں اور یہ حبس انسان کی طاقت نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
71 میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی نے اپنی کتاب میں اپنے فوجیوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے حبس زدہ موسم خشکی سے دور اور جوانوں کے جن جلدی مسائل کا ذکر کیا تھا بعینہ یہاں صورتحال ہوتی ہے۔
یہاں مہینے کے آخر میں راشن پہنچایا جاتا ہے جوان اس حبس زدہ موسم میں پانی سے گھری پکٹ میں کس طرح خشک لکڑیوں کا بندوبست کرتے ہیں کس طرح آگ پہ کھانا بناتے ہیں یہ الگ اک مشقت ہے۔
2016 سے اب تک تقریباً ہر سال ڈاکو پولیس کے ان مسائل کے شکار ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور مہینے کے آخری دنوں کا انتظار کرتے ہیں تا کہ جوانوں کے پاس راشن ختم ہونے والا ہو جائے تب یہ لوگ پکٹس پہ حملہ کر دیتے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تقریباً ہر سال کا یہی قصہ ہے چند جوان مارے جاتے ہیں باقیوں کو یرغمال بنا لیا جاتا ہے ان کو بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے ان سے تذلیل آمیز سلوک کیا جاتا ہے ان کو جانوروں کی طرح باڑے میں قید رکھا جاتا ہے نہ نہانے کی اجازت ہوتی ہے نہ ہی پیٹ بھر کھانا دیتے ہیں۔ صبح شام تشدد الگ سے کیا جاتا ہے۔
پولیس آفیشل مقامی سرداروں کی منت کرتی ہے سردار صاحبان ریاست پہ منت لگاتے ہوئے ان ڈاکووں سے مول بھاؤ کرتے ہیں اور لاکھوں روپے بھتہ دے کر ان پولیس والوں کو آزاد کرایا جاتا ہے۔
مجھے بطور محکمہ پولیس میں خامیوں کا ادراک ہے پولیس کے رویے سیاسی مداخلت رشوت عقوبت خانوں اور منتھلیوں کا بھی علم ہے اور وقتاً فوقتاً سٹوریز کوور بھی کی ہیں لیکن پولیس کے مسائل بھی ہیں ان پہ کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے دوست ڈی آئی جی عبدالغفار قیصرانی اردو کے شاندار شاعر کامران احمد قمر سرائیکی میوزک کو عالمی سطح پہ متعارف کرانے والے شفااللہ روکھڑی مرحوم پولیس کا چہرہ ہیں۔ پھر پولیس نے سینکڑوں بار پروفیشنل ہونے کا ثبوت دیا ہے پھر بس لوٹنے آنے والے ڈاکو نے بہادر پولیس والے کا تن تنہا لڑ جانا ہو اور زخمی ہونے کے باوجود ڈاکوؤں کو بھاگنے پہ مجبور کرنا ہو، کانسٹیبل کا پونے کروڑ کے قریب رقم مالک کو واپس لوٹانا ہو تھیلیسیمیا اور کینسر کے شکار بچوں کی خواہش پہ ال دن کا پولیس افسر بنانا ہو یا پھر کریمنلز سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا ہو۔ ایسے ان گنت واقعات پولیس کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن پولیس کے پاس آئی ایس پی آر کی طرز کا شعبہ تعلقات عامہ نہیں ہے۔ عوامی امیج بلڈنگ کے لیے کروڑوں کے فنڈز نہیں ہیں۔ اس لیے ان قربانیوں کا اعتراف ویسے نہیں کیا جاتا جیسے ہونا چاہیے۔
اب اس تازہ واقعے کو دیکھ لیں منگل کی درمیانی سب سے لے کر یہ سطور لکھتے وقت تک گزشتہ کئی گھنٹوں سے روجھان کچا کی بہار پکٹ پر ہمارے جوان ڈاکوؤں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اک جوان زخمی اور ڈاکوؤں کے گھیرے کے باوجود سرینڈر کرنے کی بجائے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان جوانوں نے پیش قدمی کی کوشش کی تو مخالف سمت سے گولیوں کی بارش شروع ہو گئی۔ جدید ترین اسلحے سے لیس ڈاکوؤں نے پکٹ سے چند ایکڑ دور دو تین گھروں میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ پولیس پکٹ کھلے علاقے میں ہے۔
اس لیے وہ بیک اپ کے لیے آنے والوں کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ادھر پکٹ پہ موجود جوانوں کے پاس نہ تو جدید اسلحہ ہے نہ ہی جدید کشتیاں بلٹ پروف جیکٹس ہیں نہ ہی ہیلمٹ ہیلی کاپٹر یا ڈرونز۔ حکومت ہنگامی بنیادوں پہ ان جوانوں کو ریسکیو کرنے اور ڈاکوؤں کے خاتمے کا بندوبست کرے۔ یہ حملہ نیا نہیں پچھلے آٹھ سالوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے ڈاکو ہر صورت یہ پکٹس ختم کرانا چاہتے ہیں کیونکہ ان پکٹس کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت اور جرائم محدود ہو چکے ہیں۔
حکومت اچھے سے جانتی ہے کہ یہ پکٹس دریائی علاقوں میں ہیں پولیس کو نیوی سے ٹریننگ دلوا سکتی ہے نیوی کی مدد لے کر کچے کے دریائی علاقے کو واگزار کرا سکتی ہے ڈاکوؤں کے سہولت کار رابطہ کار یا نام نہاد مذاکراتی کرداروں کے گرد گھیرا تنگ کر سکتی ہے۔ علاقے کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان ڈاکوؤں کی سرپرستی کون سے سردار کرتے ہیں مگر حکومت جان بوجھ کر خاموش رہتی ہے۔ ہر سال چھوٹے چھوٹے بچوں کے والد پولیس والے جان کی قربانی دیتے ہیں۔
اب حکومت کو فیصلہ کر ہی لینا چاہیے یا تو کچے کے علاقے دریائی جزیرے اس پہ موجود جنگل وائلڈ لائف یعنی اک مکمل ایکو سسٹم کولا وارث چھوڑ دے اور ڈاکو اور ان کے سردار بدستور مزے سے ریاست کے اندر اک ریاست چلاتے رہیں۔ یا پھر پولیس کے جوانوں کو جدید طرز کا اسلحہ نیوی مرین کی تربیت جدید کشتیاں جن میں مورچے بنائے جا سکتے ہوں ڈرونز یا ہیلی کاپٹر کی سہولت میسر فرمائیں تا کہ ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کا مستقل خاتمہ کیا جا سکے اور مقامی زمین زادوں کے ساتھ پولیس کے جوانوں میں عدم تحفظ کا احساس ختم ہو۔
اگر ہر سال کی طرح اس سال بھی پولیس کے جوانوں کا اغوا ہونے دینا ہے ان کا خون بہانے دیا جانا ہے پھر سرداروں کو سہولت کار بنا کر بھتے دے کر بچ جانے والوں کو چھڑوانا ہے تو پھر یہ پکٹس ختم کر دیں کیونکہ یہ بھی انسان ہیں کوئی بھیڑ بکریاں نہیں کہ جہاں دل کیا ہانک دیا جہاں دل کیا باڑے میں قید کر لیا۔
رضوان ظفر گورمانی
تصاویر::
حملے میں زخمی ہونے والا نوجوان
2 ماضی میں کچے کے علاقے میں آپریشن میں استعمال ہونے والی بکتر بند گاڑی
3 چھوٹو گینک کے ٹھکانوں کو لگائی جانے والی آگ۔
4 ہم سب کے مصنف اردو زبان کے موقر شاعر اسسٹنٹ سب انسپکٹر کامران احمد قمر
5 قومی روزنامے کے کالم نگار اور ڈی آئی جی عبدالغفار قیصرانی
یہ بھی پڑھیں:
ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی