اکمل خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا بیٹا موسیٰ خان قریباََ تین سال کا تھا اور گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے دادا جان اور دادی جان کے ہمراہ اپنے آبائی گاوں بڈھاگورائیہ گیا ہوا تھا۔ چند دن بعد موسیٰ صاحب اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیلتے ہوئے چند بلیغ گالیاں سیکھ کر گھر واپس آئے اور انہوں نے تازہ سیکھی ہوئی گالیوں کا اظہار اپنی والدہ اور ہماری زوجہ محترمہ کے سامنے کیا تو نتیجہ موسیٰ خان کی پٹائی صورت میں نکلا اور پھر بیگم صاحب یہ مقدمہ میری والدہ ماجدہ یعنی موسیٰ خان کی دادی اماں کے حضور لے گئیں۔ والدہ ماجدہ ابھی موسیٰ صاحب کی گوشمالی کرنا شروع ہی کر رہی تھیں کہ برادر بزرگ اسلم خان صاحب گھر پہنچ گئے۔ دادی اماں نے جب موسیٰ صاحب کی گالیوں کے ابلاغ کے متعلق بتایا تو اسلم بھائی نے جواب میں کہا کہ امی جان جس ماحول میں ہم رہتے ہیں ہمارا اوڑھنا بچھونا ہی گالیاں اور بد زبانی ہے توایک تین سال کا بچہ ہم سے کیا سیکھے گا۔جب ہم بڑے اپنی فصاحت و بلاغت کا پیمانہ گالیوں کے ذخیرہ کی وسعت سے لگائیں اور جب ہمارے بڑے ،چھوٹے سب گالیاں دینے میں مصروف ہوں گے تو یہ معصوم بھی ہمارے نقش قدم پر ہی چلے گا۔
ہم جب موسیٰ کی عمر میں تھے تو اگر کبھی کوئی گالی یا بدزبانی کرتے ہوئے کسی بزرگ کےہاتھ آجاتے تھے تو گوشمالی کرتےہوئے بزرگ جہاں تھپڑ رسید کر رہے ہوتے تھے وہیں والد ین کی شان میں بلیغ النسل گالیاں بھی ہدیہ تبریک کی صورت میں پیش ہو رہی ہوتی تھیں او ر وہ فرمایا کرتے تھے کہ تمہیں تمیز اور تہذیب نہیں سکھائی تمہارے والدین نے کہ گالی دیتے ہوئے پکڑے نہیں جانا۔دوران گوشمالی دی جانے والی گالیاں یقیناََ ہمارے ذخیرہ دشنام میں حسین اضافہ ہوا کرتا تھا اور اور ان کا ابلاغ بھی ہم بوقت ضرورت کرتے رہتے تھے۔
گزشتہ چند روز سےبالخصوص اور چند سالوں سے با لعموم ہم اپنے معاشرے میں ایک تبدیلی دیکھ رہے ہیں کہ جب کوئی چھوٹاگالی دیتا ہے تو ہمارا رویہ بھی برادر بزرگ جیسا ہوگیاہے اور ہماری نوجوان نسل آسمان کی طرف منہ سے جھاگ نکالتے ایک غیر مرعی مخالف کو گالیاں دینے میں مصروف ہے۔ غیر مرعی دشمن سے میری مراد انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر برپا ہونے والا طوفان بدتمیزی اور اس کا شکار بننے والے احباب ہیں۔
بنیادی طور اگر دیکھا جائے تو گالی ابلاغ کی وہ شکل ہے جو ہم انتہائی جذباتیت اور غصے کے عالم میں کتھارسس کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔لیکن آج اگر ہم سوشل میڈیا پر تنقید کے نام پر ہونے والے گفتگو دیکھیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ بد گوئی اور ہرزہ سرائی کا وہ سیلاب ہے جو بنیادی اخلاقیات کو بہائے لئے جا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ گالی میں بیان ہونے والے عمل کو نا ممکن پا کر اس کا لطف اٹھانے کی خواہش اور اس بھونڈے طریقہ سے اظہار اس گناہ بے لذت کا مزہ لوٹنے کی ایک ناکام کوشش ہےجسے خود لذتی بھی قراردیا جا سکتا ہے۔بقول یوسفی ویسے بھی بڑھاپے میں شہوت زبان تک محدود ہو جاتی ہے لیکن یہاں تونوجوانان ملت زباں براری سے شہوت کے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ مقصد براری میں ناکامی اور یہ خود لذتی ،ایک ایسا فسوں ہے جس کا سحر جب شدت اختیار کر جاتا ہے تو اچھا بھلا انسان کچوپیا بن جاتا ہے۔
کچوپیا کیا ہوتا ہے یا کون ہوتا ہے اور اس لفظ کی ماہیت و معانی کیا ہے ہم اس سےبے بہرہ ہی رہ جاتے اگر جناب عمر امین وڑائچ ہمارے ہم جماعت نا ہوتے۔عمر سے ہم نے جب استفسار کیا کہ بھائی یہ کچوپیا کس مرض یا بلا کا نام ہے تو وہ ہماری جہالت پر مسکرا دئیے اور ہمیں سمجھانے لگے کہ کچوپیا کیا ہوتا ہےہے۔ بقول عمر وڑائچ، آوارہ کتوں کا ایک گروہ جب کسی نحیف کتیا کو مقصد براری کے لئے گھیر لے تو سب سے طاقتور کی باری پہلے آجاتی ہے اور اس سے کم طاقتور کتے ترتیب سے قطار میں کھڑےہو جاتے ہیں اس کتوں کے گروہ کے سب سے کمزور کتے کو معلوم ہوتا ہے کہ میری باری کبھی نہیں آنی تو وہ اپنی ایک ٹانگ ہوا میں بلند کر کے خود لذتی کے مزے لوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس ہمت ہارے کتے کے لئے کسی ذرخیز دماغ نے کچوپیا کی اصطلاح تخلیق کی۔
گزشتہ دو روز سے بدتمیزی و یاوہ گوئی کا ایک طوفان سوشل میڈیا پر برپا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور ہر کس نا کس آنکھیں بند کئے شدت جذبات سے ملغوب منہ سے جھاگ نکالتے آسمان کے طرف رخ کئے گالیاں دینے پر کمر بستہ ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی دامے، درمے، قدمے، سخنے ہمارے وہ سیاسی قائدین بھی کر رہے ہیں جن کے ذمے اس قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کے خواب دیکھنا بھی ہے اور اس روشن مستقبل کی تعبیر کے حصول کے لئے ہماری رہنمائی بھی فرمانا ہے۔ ایک خاتون سیاستدان نے دوسرے جوان نما بزرگ سیاستدان کی شان میں کچھ گستاخی کی تو نا صرف بزرگ سیاستدان کی جوانی میں ارتعاش آیا بلکہ ان کے محبان بھی ان کی محبت اور عقیدت کو خراج عقید ت پیش کرنے کے لئے اپنے کچوپئے پن کا اظہار برسرعام کرنے لگے۔ مخالف سیاسی گروہ کے کچوپئے بھی شامل باجہ ہو گئے اور پھر وہ سر پھٹول ہوئی کہ اس کا نشانہ دونوں سیاسی گروہوں کے کارکنان کے اہل خانہ بننا شروع ہو گئے۔ایسے ایسے دانا بزرگ بھی اس ہجوم سگاں کا حصہ بن گئے کہ جن کی پارسائی کبھی ضرب المثل کا درجہ رکھتی تھی۔
نیوٹن کا تیسرا قانون حرکت سمجھنا ہو تو آپ گالی دیں جس قبیل کی گالی آپ دیں گے اتنی قبیح گالی آپ تک واپس پہنچ جائے گی۔ بحثیت قوم ہم اتنےبے غیرت واقع ہوئے ہیں کہ ہم اپنی ذہنی تسکین کے لئے گالی دے کر اور سن کر لطف اٹھاتے ہیں۔ پہلے یہ فریضہ ہمارے دشمن سر انجام دیا کرتا تھے لیکن اب اس فریضے کو ہم نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ نوجوان نسل اپنے ایک ہاتھ میں موبائل یا لیپ ٹاپ تھامے اپنے کچوپئے پن کے اظہار میں مصروف ہیں جس سے عزت و غیر ت کا جنازہ بیچ چوراہے میں پڑاہے اور ہم ایک دوسرے کی شان میں اپنی تربیت کے عین مطابق ہرزہ سرائی کر رہے ہیں ۔ کوئی دانا ان کچوپیوں کو دوبارہ انسان بنا دے تو شاید ہم مکالمے کے عمل کو دوبارہ شروع کر سکیں اور اگر مکالمہ نا ہوا تو ہوا میں گھسے ہمار ا بحثیت قوم مقدر بن جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر