ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیبر روم سے فون تھا۔
”مریضہ کو درد آتے ہوئے تقریباً بارہ گھنٹے ہو چکے، رحم کا منہ کھل چکا ہے، ، زچگی قریب لگتی ہے لیکن ہو نہیں رہی“ ڈاکٹر آن ڈیوٹی کا کہنا تھا۔
”دیکھیے اگر اوزار لگا کر نکالا جا سکے؟“ ہم نے کہا۔
” ویجائنا میں سر پڑا ہوا نظر تو آر ہا ہے لیکن ساتھ میں سر پہ سوجن بہت زیادہ ہے۔ درد کے دوران کافی نیچے آتا ہے لیکن پھر اوپر چلا جاتا ہے۔ شاید ایک طرف کو جھکا ہوا ہے۔ سوجن کی وجہ سے اوزار ٹھیک کام نہیں کرے گا۔ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے“
ڈاکٹر نے کہا۔
”پھر آپریشن تھیٹر میں شفٹ کروائیں، وہاں دیکھتے ہیں“ ہم نے کہا۔
” مریضہ کے گھر والے اجازت نہیں دے رہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم پیسے بنانے کے لیے آپریشن کرنا چاہتے ہیں“
اف وہی جلی کٹی باتیں۔
ہم جونہی ہسپتال کے دروازے میں داخل ہوئے، ایک صاحب منہ لال بھبھوکا کیے ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی لپک کر آئے، لگے برسنے۔
”آپ لوگوں نے تماشا بنایا ہوا ہے، ہم لوگوں کو لوٹنے کا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے سب اچھا اور اب ایک دم سب خراب۔ رحم کیا کریں آپ لوگ۔ قصائی بن گئے ہیں بالکل، آپ کو ڈاکٹر کہتے ہوئے شرم آتی ہے“
”اگر آپ کی تقریر ختم ہو گئی ہو تو ہم کچھ کہیں؟
آپ کے بچے کی حالت کچھ اچھی نہیں ہے، نیچے سے پیدا کروانا مشکل ہے، اجازت دے دیں کہ سیزیرین کر دیا جائے ”
”ہر گز نہیں، کسی قیمت پہ نہیں۔ میں آپ لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلوں گا، آپ کی کمائی کا حصہ نہیں بنوں گا“
”دیکھیے، اس وقت بچہ ٹھیک حالت میں نہیں، ہمیں سیزیرین کرنے دیں۔ قصائی ہی سمجھیے بھلے مگر دونوں کی جان بچانے دیں“
”جی نہیں، آپ نے بتایا تھا میری بیوی کا کیس نارمل ہے، نارمل رہا پچھلے آدھ گھنٹے تک۔ اب مجھے بچہ نارمل رستے ہی چاہیے“
دیکھیے زچگی بالکل ایسے ہے کہ سڑک پر ڈرائیونگ کرتے کرتے سب اچھا ہو اور پھر کوئی رکاوٹ آ جائے۔ پھر رستہ بدل لیں گے نا آپ، یا گاڑی دے ماریں گے؟ ”
”کچھ نہیں ہوتا۔ سب آپ لوگوں کی بدمعاشیاں ہیں۔ آخر ہماری مائیں بھی تو بچہ پیدا کرتی تھیں نا“
”دیکھیے ہم اس طرح ماں اور بچے کو مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ بچے کا سر کچھ بڑا ہے، پوزیشن بھی ٹھیک نہیں ہے، سر سوج بھی گیا ہے۔ اوزار لگانا بھی ممکن نہیں“
”رہنے دیں آپ لوگ، میں اپنی بیوی کو لے کر جا رہا ہوں۔ حنیفاں مائی ہے ہماری خاندانی دائی۔ کرنا کیا ہے اب، کھینچنا ہی تو ہے بچہ“
”دیکھیے ایسا نہ کیجیے، اس کھینچ کھانچ کی“ بھول بھلیوں ”ایک عورت کی زندگی سے نہ کھیلیے“
” میں اپنی بیوی کا ذمہ دار ہوں، آپ اپنی فکر کیجیے۔ مجھے آپریشن نہیں کروانا۔ آپ اپنے چاقو چھریاں کسی اور پہ آزمائیے گا“
شوہر صاحب کے اشارہ کرتے ہی افراد خانہ نے لیبر روم سے ان کی بیوی کو وہیل چئیر پہ ڈالا اور یہ جا وہ جا۔
ہم دل مسوس کے رہ گئے۔
کافی دن تک خیال آتا رہا کہ نہ جانے کیا ہوا ہو گا اس لڑکی کے ساتھ۔
چھ سات ماہ بعد وہ ہمیں او پی ڈی کے کونے میں کھڑی نظر آئی۔ ہاتھ میں پرچی، مضمحل چہرہ۔ ویٹنگ روم عورتوں سے بھرا ہوا تھا مگر وہ سب سے الگ تھلگ کھڑی تھی۔
اپنی باری پہ کمرے میں داخل ہوئی، ہمارے سامنے سٹول پر بیٹھی۔ کمرہ ایک دم عجیب سی بو سے بھر گیا۔ شاید باہر سے کوئی کوڑے کا ٹرک گزرا ہے، ہم بڑبڑائے۔
کیا حال ہے؟ ہم نے پوچھا
زندہ ہوں۔ تلخ لہجہ
ہو گیا تھا بچہ؟
جی ہو گیا تھا۔
کہاں پہ؟
گھر میں۔
واہ یہ تو اچھا ہوا، تم سیزیرین سے بچ گئیں۔
جی، وہ سر جھکا کر بولی۔
اب کیا مسئلہ ہے؟ پھر حمل؟
نہیں۔
اچھا جلدی سے بتاؤ کیا بات ہے؟
ایک دم وہ بھبھک بھبھک کر رو دی۔
مجھے چیک کر لیجیے نیچے سے
تکلیف تو بتاؤ؟
خود ہی دیکھ لیجیے گا۔
وہ پردے کے پیچھے جا کر لیٹ گئی۔
آ جائیں ڈاکٹر، نرس نے آواز دی۔
جونہی ہم پردے کے نزدیک پہنچے، ناگوار بو کا جھونکا ناک سے ٹکرایا۔
کیا مصیبت ہے، لگتا ہے آج کمرے کی صفائی نہیں ہوئی۔
وہ میز پہ لیٹی تھی۔ شلوار ایک طرف رکھی تھی۔ نرس نے رومال سے منہ ڈھانپ رکھا تھا۔
ہم نے لائٹ آن کی، دستانے پہنے اور نظر ڈالی۔ اوہ خدایا ویجائنا اور باہر کا حصہ کسی پیلی پیلی چیز سے لتھڑا ہوا تھا اور میز کے اوپر پڑی چادر گیلی ہو چکی تھی۔
یہ، یہ۔ ہم ہکلائے۔
” نیچے سے بچہ پیدا کرنے کا تحفہ اور آپ کی بات نہ ماننے کی سزا“ وہ رو رہی تھی۔
”ہوا کیا تھا؟“
” گھر پہنچ کر دائی کو بلایا گیا جس نے بے حد تسلی دی۔ گھنٹوں مجھے اینٹوں پہ پاؤں کے بل بٹھا کر زور لگواتی رہی۔ ہر گھنٹے بعد کہتی، بس آنے والا ہے۔ وہ دن گزرا، رات گزری، بچہ نہیں آیا۔
پھر اس نے ویجائنا کے اندر ہاتھ ڈال کر کھینچنا شروع کیا۔ بچہ نہیں آیا۔ آخر میں اس نے میرے شوہر سے کہا کہ پسلیوں کے نیچے پیٹ کو زور زور سے دباؤ۔ جب میرا شوہر اپنے دونوں ہاتھوں سے پیٹ دباتا، مجھے لگتا میرا آخری وقت قریب ہے۔ یہ کھیل نہ جانے کتنی دیر چلا۔
آخر میں بچہ آ ہی گیا لیکن وہ مجھ سے ملنے سے پہلے ہی واپس جا چکا تھا، مردہ بچہ۔
سب نے یہی کہا کہ اللہ کی مرضی، کوئی بہتری ہو گی اس میں۔
میں نے بھی صبر کر لیا۔
کوئی تین ہفتے گزرے ہوں گے کہ میں سو کر اٹھی تو شلوار پیشاب پاخانے سے بھری پڑی تھی۔ سخت پریشان ہوئی، نہا دھو کر کپڑے بدلے لیکن کچھ دیر بعد پھر وہی۔ پھر کپڑے بدلے لیکن پھر ویسا ہی۔
پیشاب ہر وقت رستا رہتا اور پاخانہ بھی ایک اور سوراخ سے آتا جو ویجائنا میں بن گیا تھا۔ کچھ سمجھ ہی نہ آئے کہ کیا کروں۔ شلوار میں کپڑا رکھنا شروع کیا مگر بو ہی اتنی تھی۔ شوہر نے پاس آنا چھوڑ دیا، ساس نے قریب بیٹھنے پر پابندی لگا دی۔
مجھے گندگی کی پوٹلی کا خطاب مل چکا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں؟ بچہ تو نیچے سے پیدا کروا لیا میرے شوہر نے لیکن مردہ بچے کے ساتھ مجھے جیتے جی مار دیا ”
ہم انتہائی افسردہ تھے۔ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سیزیرین جان بچانے کا ذریعہ بنتا ہے لیکن دائی قصائی اور کمائی کی گردان نے بے شمار خواتین کا دھڑن تختہ کر دیا ہے۔
سیزیرین نہ ہو سکا تبھی تو ممتاز محل زچگی میں مر گئی۔ بھلا سوچیے، تاج محل کا ممتاز محل اور بچوں کو کیا فائدہ ہوا؟ وہ تو مر گئی چودہ بچے چھوڑ کر۔
یہ ریت ختم نہیں ہوئی۔ المیہ ہے ہے کہ سائنس نے زچگی کی مشکلات کا حل ڈھونڈ لیا سیزیرین کی شکل میں مگر لوگ اسے قصائی ڈاکٹرز کی اختراع سمجھنے لگے۔ کیوں نہ لگے جب معاشرے کے دانشور زچگی کی سائنس کو ”کھینچ کھانچ“ سے زیادہ نہ جانیں تو عام لوگ کیا کر سکتے ہیں؟
ویجائنا میں سوراخ کیسے بنتا ہے؟ پڑھیے اگلے بلاگ میں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر