وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی سوڈان کے شہر کوئٹہ اور دیگر شہروں میں لاپتہ افراد کی ہلاکت کے خلاف قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کا سڑک پر احتجاج۔
اب کوئی نہ کوئی فٹاک سے یہ غلطی درست کرے گا کہ بھائی صاحب آپ تو ذمہ دار صحافی ہیں۔ کیا آپ کو یہ تک نہیں معلوم کہ کوئٹہ جنوبی سوڈان کا نہیں بلکہ بلوچستان کا دارلحکومت ہے۔
ہوگا کوئٹہ بلوچستان کا دارلحکومت۔ مگر میں تو مقامی میڈیا کا نمائندہ ہوں جس کی کوریج سن اور دیکھ کے ہی اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلوچستان میں اس وقت دو طرح کے لوگ بستے ہیں۔ ایک محبِ وطن بلوچ اور پختون اور دوسرے دہشت گرد یا غدار۔
جب ریکودک، گوادر، چمالانگ، سوئی وغیرہ کی بات ہوتی ہے تو بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا رقبہ جاتی صوبہ بن جاتا ہے اور جب حملوں، شورش، جبری گمشدگی اور احتجاج کی اطلاع آتی ہے تو بلوچستان لوکل نیوز ڈیسک سے انٹرنیشنل نیوز ڈیسک پر خود بخود منتقل ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد اسے آپ مالی میں ڈال دیں، پپوا نیوگنی کا خطہ سمجھ لیں، منگولیا میں تصور کر لیں یا پھر جنوبی سوڈان کا ایک صوبہ مان لیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔
کبھی آپ نے مقامی اخبار یا چینل پر مالی، پپوا نیوگنی، منگولیا یا جنوبی سوڈان کے بارے میں کوئی غیر معمولی خبر تفصیلاً پڑھی یا سنی؟ تو پھر بلوچستان کو اسی فہرست میں ڈالنے سے کسی کا کیا بگڑ جائے گا۔
گذشتہ سے پیوستہ ہفتے پاک فوج کے ایک حاضر سروس افسر اور ان کے عم زاد کا زیارت کے علاقے میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا اور پھر لاش ملنے کی افسوس ناک خبر کے بعد ہونے والے آپریشن میں جو نو افراد ہلاک ہوئے ان کے بارے میں عسکری اور صوبائی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ بی ایل اے کے دہشت گرد تھے۔ بی ایل اے صاف مکر گئی کہ مرنے والوں میں سے ایک بھی ہمارا بندہ نہیں۔
مگر مرنے والوں کے لواحقین کے لیے بہرحال مکرنا مشکل تھا۔ لہذا جس جس خاندان نے اپنے اپنے کی لاش پہچان لی اس نے یہ بھی بتایا کہ کون سا شخص کس تاریخ کو کس مقام سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوا یا زبردستی اٹھایا گیا۔
ان میں سے کچھ کے نام کئی ماہ سے یا تو کسی عدالت میں بازیابی کی درخواست میں درج ہیں یا لاپتہ افراد کے کمیشن کے نوٹس میں لائے جا چکے ہیں یا پھر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی غیر سرکاری تنظیم کے ریکارڈ میں پوری تفصیل سمیت موجود ہیں۔
حکومت اور سیکورٹی فورسز کے ذرائع کہتے ہیں کہ یہ کس طرح لاپتہ ہوئے یا اغوا ہوئے یا دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل گئے ہم کیا جانیں۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ سب دہشت گرد تھے اور ہیں۔
ایک لمحے کو یہ ریاستی موقف مان لیتے ہیں کہ شہریوں کے جبری اغوا میں کسی حساس یا سیکورٹی ادارے کا کوئی ہاتھ نہیں۔ تو پھر اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کیا کیا ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو وزیرِ اعظم شہباز شریف کو اپنی معصومیت کے بارے میں قائل کرنے کی ضرورت ہے جو خود کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے رجحان کی روک تھام کے لیے خود ‘ظاقتور حلقوں‘ سے بات کروں گا۔ وزیرِ اعظم کو یقین دلائیں کہ طاقت ور حلقوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔
نیز حزبِ اختلاف کے سب سے موثر رہنما اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی آپ اچھے سے سمجھائیے کہ جب کوئی سیکورٹی ادارہ اس طرح لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنے کی حرکت پر یقین ہی نہیں رکھتا تو پھر آپ خوامخواہ یہ کیوں کہتے پھر رہے ہیں کہ میں نے بطور وزیرِ اعظم اعلی سیکورٹی قیادت سے بارہا بات کی کہ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔
اور پھر ایچ آر سی پی، ایمنسٹی اور اقوامِ متحدہ سے منسلک انسانی حقوق کے اداروں کو بھی واضح طور پر لکھیں کہ ہم پر الزامات لگانے بند کرو ۔ ہم ایسے کسی کام میں ملوث نہیں۔ ہم آئین و قانون اور عدالتی انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔
بھلے ہمارا کوئی شہری کتنا ہی بڑا قانون شکن ہو، اس کا فیصلہ قانون ہی کے دائرے میں ہو گا۔ اگر آپ کل ہی یہ لکھ کے بھیج دیں اور ساتھ ہی ساتھ جبری اغوا سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کی بھی توثیق کردیں تو دشمنوں کے منہ سل جائیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں جن سینکڑوں خاندانوں کے لوگ اچانک لاپتہ ہو گئے اور کئی کئی برس سے لاپتہ ہیں، انھیں اپنے بارے میں بدزنی سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ قائل کیا جائے کہ آپ کے پیاروں کو دراصل ہم نہیں بلکہ دہشت گرد ورغلا کے لے گئے ہیں۔
اور اکثر جو لاشیں ادھر ادھر سے یا ویرانوں میں پڑی ملتی ہیں وہ دراصل دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے خوف و ہراس پھیلانے کا ایک حربہ ہے۔ چونکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مسلسل ناکام ہیں اس لیے اب ایسی حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔
چونکہ آپ تمام شہریوں کے محافظ ہیں، لہذا آپ ان پولیس والوں کی بھی چھان بین کریں جو کسی کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر نہیں لکھتے۔ جن اغوا ہونے والوں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں انھیں آپ شناختِ عام کے لیے میڈیا پر مسلسل چلوائیں تاکہ اغوا میں ملوث علیحدگی پسند اگر کسی سرکاری ادارے کی وردی یا جعلی سرکاری نمبر پلیٹ استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو اٹھا رہے ہیں تو ان کا فوری تعاقب اور شناخت ہو سکے ۔
جو شہری کچھ عرصے بعد اپنے گھر واپس لوٹتے ہیں ان کا بیان بھی آپ ہی قلمبند کریں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ انھیں کس ملک دشمن گروہ نے اٹھایا اور کہاں کہاں رکھا۔ واپس لوٹنے والوں کی کڑی نگرانی کریں۔ کہیں کوئی دوبارہ انھیں اغوا کرنے کی کوشش کرے تو آپ کا آہنی ہاتھ اس کی گردن تک پہنچ سکے۔
اس مسئلے پر ایک کل جماعتی کانفرنس طلب کریں تاکہ آپ کے بارے میں ان کے شبہات دور ہو سکیں۔
گذشتہ حکومت نے جبری گمشدگی کے تدارک اور اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کہٹرے میں لانے کے لیے جو مسودہِ قانون تیار کیا، سنا ہے وہ مسودہ بھی غائب ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک دشمن دیگر اہم سرکاری دستاویز بھی غائب کرنے کی کوشش کریں آپ کا فرض ہے کہ ان دستاویزات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سرکار کی مدد کے لیے خصوصی ٹاسک فورس سمیت ہر ممکن وسیلہ استعمال کریں۔
ان اقدامات سے جو لوگ سیکورٹی اداروں کے اخلاص اور قانون پسندی کے بارے میں اب تک شکوک کا شکار ہیں، ان کی کسی حد تک تشفی ہو سکے گی۔
اور ہاں۔ اب تک جو سینکڑوں افراد غائب ہو چکے ہیں، چونکہ ان کے غائب ہونے میں آپ کا کوئی ہاتھ نہیں لہذ/ا ان سب کی تصاویر اور کوائف اخبارات و الیکٹرونک میڈیا پر تلاشِ گمشدہ کے طور پر چلانے کی اجازت دیں۔ اور ان میں سے کسی کے بارے میں کوئی بھی اطلاع دینے پر معقول انعام بھی رکھیں۔
ان اقدامات کے بعد مجال ہے جو آپ کی طرف کوئی انگلی اٹھائے ۔
کیا آپ تیار ہیں یہ سب کرنے کے لیے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر