نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محنت اور عزم سے معمور ایک اچھوتی کہانی||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دن پہلے ضمنی انتخابات کے حوالے سے صحافی، محقق اور لکھاری احمد اعجاز کا ذکر کیا تھا کہ ان کی الیکشن کے حوالے سے تجزیاتی رپورٹیں درست نکلیں۔ آج دل چاہ رہا ہے کہ تھوڑا مزید احمد اعجاز کے بارے میں لکھا جائے۔ دراصل کامیابی کی اس کہانی میں ہمارے بہت سے نوجوانوں کے لئے سبق پوشیدہ ہیں۔
احمد اعجاز سے میرا پہلا تعارف فیس بک کے ذریعے ہوا۔ ان دنوں میں روزنامہ دنیا کا میگزین ایڈیٹر تھا۔ نیا اخبار نکلا تھا، میگزین کو بہتر سے بہتر بنانے کا جنون سوار تھا، ہر وقت یہی خواب، یہی خیال کہ اس میں بہتر سے بہتر چیزیں شامل ہوں، پاکستان کا نمبر ون سنڈے میگزین ہو اور ہر ہفتے اس کی یہی پوزیشن برقرار رہے۔
فیس بک پر ایک نوجوان کی پوسٹیں دیکھیں، وہ پنڈی کے اخبار اوصاف میں چھپے اپنے ایڈیشن شیئر کرتا تھا۔ میں نے وہ پیجز پڑھے تو اچھے لگے، اوصاف چھوٹا اور غیر اہم اخبار تھا، مگر اس لکھنے والے میں ٹیلنٹ نظر آیا، محنت کا جذبہ بھی ۔ کسی بھی بڑے ایونٹ پر وہ چند گھنٹوں میں خصوصی ایڈیشن بنا لیتا۔
میں نے اسے مانیٹر کرنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد دنیا میگزین میں ایک سیٹ خالی ہوئی تو فیس بک پر ہی احمد اعجاز سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر مین سٹریم اخبار میں جرنلزم کرنا چاہتے ہو تو لاہور آجائو۔ احمد اعجاز شادی شدہ ہے، اس کی اہلیہ محترمہ اسلام آباد کے ایک کالج میں پڑھاتی ہیں، تب ایک چھوٹا بیٹا تھا، آج کل ماشااللہ سے تین پھول کھلے ہیں اس کے گھر میں۔
احمد اعجاز نے ہمت کی اوراکیلا ہی لاہور آگیا، انٹرویو کرایا، اس کی میگزین میں جاب ہوگئی ۔ دفتر کے پاس ایک چھوٹا کمرہ کرایے پر لے کر رہنا شروع کر دیا۔
احمد اعجاز نے دنیا میگزین میں بہت محنت کی ۔ ان دنوں ملک میں واقعات بہت ہو رہے تھے، کبھی دہشت گردی ، کبھی سیاسی واقعات۔ ہم ان پر فٹا فٹ خصوصی ایڈیشن بنا لیتے ، دو تین گھنٹوں میں اور دوسرے اخبارات کو مسنگ ڈالتے۔ یہ کام احمد اعجاز نے بڑی محنت اور ہنرمندی سے کیا۔ حتیٰ کہ وہ سپیشل ایڈیشن سپیشلسٹ ہوگیا۔
پھر ایک بار سیلاب آیا تو اس کے لئے ہم نے اسے لیہ ، ڈی جی خان وغیرہ بھجوایا۔ وہاں احمد اعجاز نے تفصیلی رپورٹنگ کی اور کئی خصوصی ایڈیشن بنے۔
قصور میں زینب بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا اور پتہ لگا کہ گیارہ بچیوں کے قتل ہوئے ہیں۔ احمد اعجاز کو قصور بھجوایا گیا اور اس نے بہت محنت کر کے سب سے مختلف اور جامع رپورٹ بنائی۔ ان فیلڈ وزٹس سے اس کا یقینی طور پر ایکسپوژر بڑھا اور پھر فیلڈ رپورٹروں سے براہ راست رابطے بھی ہوئے۔
دو ہزار سترہ میں روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز شروع ہوا۔ ارشاد عارف صاحب اس کے گروپ ایڈیٹر بنے، میں نائنٹی ٹو نیوز کا میگزین ایڈیٹر بن گیا، ہماری میگزین ٹیم کے کئی لوگ سجاد بلوچ، عبدالستار ہاشمی، حنا انور وغیرہ بھی نائنٹی ٹونیوز آ گئے، ایکسپریس میگزین سے محمود الحسن اور فرحان خان بھی آئے۔ احمد اعجاز بھی ہمارے ساتھ آ گیا اور اچھا یہ ہوا کہ اسے اسلام آباد ہی ذمہ داری دی گئی تاکہ وہ سکون سے اپنا کام کر سکے ۔
احمد اعجاز کو اپنے اس کام کی وجہ سے سہیل وڑائچ صاحب نے بھی پیش کش کی ، وہ تب دنیا کے گروپ ایڈیٹر بن گئے تھے ۔ احمد اعجاز نے خیر نائنٹی ٹو نیوز کے ساتھ ہی رہنا پسند کیا۔
نائنٹی ٹو نیوز میں احمد اعجاز نے الیکشن کے حوالے سے بہت اچھا کام کیا۔ جولائی اٹھارہ کے الیکشن میں اس نے تیس کے قریب خصوصی ایڈیشن بنائے جس میں پاکستان کے بے شمار حلقوں کی تجزیاتی رپورٹیں تھیں۔اہم بات یہ ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز میں اس کے لئے پوری پوری ٹیمیں ہوتی ہیں، ہمارے پاس ون مین آرمی احمد اعجاز ہی تھا، بغیر کسی وسائل کے اس نے اپنے آپ کو گھلایا، بے پناہ محنت کی اور الیکشن سپیشسلت بن گیا۔
اپنی اس صلاحیت کو اس نے بعد میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا، بعض جگہون پر کنسلٹنسی فراہم کی اور ہر حلقے کے بارے میں ایسا ڈیٹا جمع کیا جو شائد بڑے اداروں کے علاوہ صرف اسی کے پاس ہوگا۔ گلگت بلتستان الیکشن میں بھی شاندار ایڈیشن بنائے، آزاد کشمیر الیکشن کے حوالے سے کئی ایڈیشن بنائے، اس میں سے بعض شائع ہوئے اور دو تین نہیں ہوپائے۔
محںت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اپنے ایڈیشنز کی محنت کی وجہ سے احمد اعجاز کا فیلڈ میں نام بنا۔ الیکشن سپییشلٹی کی وجہ سے لیہ کے اس بے وسیلہ، درویش صحافی احمد اعجاز کا ایسا نام بنا کہ کئی بڑے میڈیا ہائوسز نے اس سے رابطہ کیا۔
چند ماہ قبل احمد اعجاز کو پی ٹی وی سے الیکشن سیل کا ہیڈ بننے کی پیش کش ہوئی۔ اس نے قبول کر لی کہ اس کا پیکیج ظاہر ہے بہتر تھا اور ایک پوری ٹیم اسے مل رہی تھی۔ آج کل وہ وہاں کام کررہا ہے، مگر اس کی محنت اور ہنرمندی کے باعث اس کی مارکیٹ میں جگہ بن چکی ہے۔ اس کا راز صرف اس کی بے پناہ محنت اور ان تھک قسم کے کمٹمنٹ میں پوشیدہ ہے۔
ہاں یہ بتاتا چلوں کہ احمد اعجاز باقاعدہ قسم کا دانشور ہے،سماج اور شناخت وغیرہ جیسے موضوعات پر اس کی دو تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، وہ اچھا کہانی کار بھی ہے، اس کی کہانیوں کا مجموعہ بھی شائع ہونے والا ہے۔
نائنٹی ٹو نیوز میں اس نے مختصر کہانیاں لکھیں جو کسی بھی طرح اس فارمیٹ کی دوسری مختصر (سو لفظی )کہانیوں سے کم نہیں تھیں، بلکہ ان میں سچی درد مندی اور خالص ادبی ٹچ بھی موجود تھا۔ اس نے علامتی کہانیوں کے معروف لکھاری سریندر پرکاش کا مجموعہ بھی ایڈٹ کیا ہے۔ ا
حمد اعجاز نے ایم اے اردو کیا تھا اور اگر ادبی دھڑے بندی آڑے نہ آجاتی تو وہ شائد کسی کالج میں اردو کا لیکچرار ہوتا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ وہ اچھا ادبی نقاد بھی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اس کی اس بے پناہ محنت، قابلیت کے باعث اس پر بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے بھی دروازے کھل گئے۔ پچھلے چند ماہ میں شائد وہ وہاں پر سب سے زیادہ چھپنے والے لکھاریوں میں ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر احمد اعجاز کی آٹھ دس سٹوریز بی بی سی میں شائع ہوئیں، الیکشن پر بھی کئی شائع ہوئیں۔ ایک سٹوری آج بھی چھپی ہے، اس کا لنک پہلے کمنٹ میں دے رہا ہوں۔
بی بی سی، وائس آف امریکہ اور اسی طرز کے دیگر بین الاقوامی ادارے بھی اس محنتی صحافی کے لئے چشم براہ ہیں۔
بتانا یہ تھا کہ لیہ کے ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان جس کے پاس کوئی سفارش ، کوئی وسیلہ ، کوئی ذریعہ نہیں تھا، ایک چھوٹے اخبار سے اس نے آغاز کیا اور چند ہی برسوں میں وہ ٹاپ کے صحافیوں، ریسرچرز میں شامل ہوچکا ہے۔ ابھی کسی بڑے میڈیا ہائوس کی اس پر توجہ نہیں پڑی ،ورنہ اسے کئی گنا زیادہ معاوضے پر زیادہ بہتر ٹیم کا سربراہ بنا دیا جاتا۔
احمد اعجاز نے خود کو منوایا ہے، ان شااللہ مستقبل اس کا ہے۔ عجز اور انکسار اس کی بنیادی خوبی، محنت اور ذمہ داری اس کا مرکزی ہتھیار اور کبھی حوصلہ نہ ہارنا اس کی عادت ہے۔
اس کی اہلیہ کئی برسوں سے سخت بیمار رہی ہیں، ایک پیچیدہ مرض میں وہ مبتلا تھیں جس کی تشخیص برسوں بعد ہوئی، اب الحمدللہ بہتری ہوئی ہے، مگر اس علاج پر لاکھوں خرچ ہوئے۔ تین چھوٹے بچوں اور بیمار اہلیہ کے مسائل اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ اتنی محنت اور کمٹمنٹ سے پروفیشنل کام کرنا اور اس میں اپنا نام بنانا کسی کرشمے سے کم نہیں۔
احمد اعجاز میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے۔ اس کے بہت سے سیاسی، فکری آرا سے اختلاف کے باوجود وہ مجھے عزیز ہے کیونکہ وہ محنتی، لائق اور ایماندار ہے اور مجھے یہی اوصاف سب سے زیادہ مرغوب ہیں۔
احمد اعجاز کا مستقبل ان شااللہ شاندار ہے۔ رب کریم اس کی صلاحیتوں، زندگی اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور بیوی بچوں سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی کرے۔
یہ کہانی لکھنے کا بڑا مقصد دور دراز شہروں میں بیٹھے بے وسیلہ نوجوانوں کو یہ بتانا ہے کہ اگر محںت کریں، اپنی صلاحیتوں کو پالش کریں اور درست سمت میں لگے رہیں تو اپنا نام بنانا اور وسائل بہتر کرنا مشکل کام نہیں۔ صرف چند برسوں کی محنت آپ کو ممتاز بنا سکتی ہے۔
ایک زمانے میں میرے سامنے بھی یہی صورتحال تھی۔ کم وبیش یہی کام ہم نے بھی کئے، رب کریم نے مہربانی اور کرم کیا، ہاتھ پکڑا اور راستے آسان ہوتے گئے ۔
ایسا سب کے ساتھ ہوسکتا ہے ۔ رب مہربان ہے، مگر وہ محنت کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ گھر بیٹھے ہڈحراموں کا نہیں جو صرف شکوے کرنے جانتے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author