نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

منگھو پیر کے مگر مچھ اور معلق شہر….|| وجاہت مسعود

آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کر کے آئندہ حکومت کے لیے معاشی بحران کھڑا کر دیا۔ ملک کے طول و عرض میں ’امریکی سازش ‘کا ایسا غلغلہ پیدا کیا جس کا کوئی اور چھور ہی نہیں تھا۔ پاکستانی حکومت، عسکری قیادت اور خود امریکی حکومت کی واضح تردید کے بعد سپریم کورٹ نے بھی ایسی سازش کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیاز مند کے انکسار کی لاج رہ گئی۔ گزشتہ کالم تحریر کیا تو پنجاب کے ضمنی انتخابات کی پولنگ شروع ہو رہی تھی۔ ’چپکا‘ رہا اگرچہ اشارے ہوا کئے۔ ہم تو سدا سے بے خبرہیں۔ اب کے کوئی پیش گوئی بھی نہیں کی۔ ابہام کی اس حکایت کو صنعت ایہام ہی راس ہے۔ انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے تو معلوم ہوا کہ سیاست زیر و زبر ہو گئی ہے۔ باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا۔ مصرع اولیٰ اس لئے نہیں لکھا کہ فشار تنگی خلوت میں صبا کی ہنر مندی کا ذکر غنچے کی پردہ دری کے امکان سے خالی نہیں۔ خیال رہے کہ یہ مرزا سودا کا تابع فرمان غنچہ نہیں بلکہ بذات خود دریائے اٹک کے پار شمال کے پہاڑی دروں میں چاروں کھونٹ گھات لگائے نہنگ نیم خوابیدہ ہے۔ اہل کراچی شہر کے شمال مغرب میں گندھک ملے چشمے کے بالمقابل منگھوپیر کے مزار کے کنارے واقع صدیوں پرانے تالاب میں موجود مگر مچھوں کے بے ضرر ہونے پر عقیدت کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ ایسی عقیدت کہ شمالی پنجاب کی تجربہ گاہوں میں پالے گئے مگر مچھوں کے ہاتھوں 35 برس تک ہزاروں بے گناہوں کے لہو کا تاوان دے کر بھی متزلزل نہیں ہوئی۔

پاکستان بنا تو کسی اہل دل نے کراچی کو عروس البلاد کا نام دیا تھا۔ قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی کراچی کی رونق دیکھ کر فرمایا کرتے تھے، ’میاں، پورا ہندوستان اجڑا ہے تو یہ شہر آباد ہوا ہے‘۔ واللہ! کیسے خوش گمان بزرگ تھے، نہیں جانتے تھے کہ یہ شہر ہی نہیں، پورا ملک صرف ایک شخص کی حب جاہ کے رسے سے معلق ہو جائے گا۔ صاحب عزم کا نام اور چہرہ بدلتا رہے گا، دار و رسن کی آزمائش ختم نہیں ہو گی، مٹی پر پاﺅں رکھ کے کسی متعین پیش رفت کا فرمان رقم نہیں ہو سکے گا۔ برادر محترم وسعت اللہ خان نے اپنے کالم کا مستقل عنوان ’بات سے بات‘ رکھ چھوڑا ہے۔ حتمی تجزیے میں کالم بات سے بات ہی تو ہے۔ شب فرقت کی نجم شماری ہے، جلاوطن کی خود کلامی ہے۔ آگہی کا آشوب ہے، مقہور کی آہ سرد ہے۔ یہاں بھی پنجاب کے ضمنی انتخاب سے بات شروع ہوئی اور منگھو پیر کراچی کی خبر لائی۔ تو صاحبو، اٹھاﺅ ڈھول اور تاشے اور پنجاب چلو جہاں تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب کی 15 نشستیں جیت کر حریفوں ہی کو دنگ نہیں کیا، خود بھی حیران رہ گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ اس انتخابی مشق کی نگرانی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کر رہے تھے جنہیں تحریک انصاف نے مسلسل تیروں کی زد پر لے رکھا ہے۔ ضمنی انتخاب کا نتیجہ آنے کے بعد بھی عمران خان نے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ نیز یہ کہ ضمنی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ فواد چودھری کے استثنیٰ کے ساتھ تمام سیاسی پنڈتوں کی رائے تھی کہ مسلم لیگ (نواز) پنجاب کی وزارت اعلیٰ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی۔ مگر انتخابی نتائج نے سب بدل کے رکھ دیا۔ مسلم لیگ کی قیادت نے ضمنی انتخاب کے نتائج کو فوراً تسلیم کر لیا، حسب روایت دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا۔ پنجاب حکومت میں تبدیلی کا ناقوس عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے استعفے لے کر خود پھونکا۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کا معاملہ ختم ہونے کے بعد عمران خان نے اپنی جماعت کو ایوان زیریں سے باہر لا کر نئی حکومت کو متزلزل رکھنے کی کوشش جاری رکھی۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں پرویز الٰہی کو اچانک اپنا امیدوار قرار دے کر ایک صبر آزما کھیل شروع کر دیا۔ اس دوران فوری انتخاب کا مطالبہ کرنے والی تحریک انصاف سینٹ میں موجود رہی۔ خیبر پختونخوا کی طرف انگلی نہیں اٹھائی۔ بلوچستان کا نام نہیں لیا۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں ابھی تک گورنر حلف نہیں اٹھا سکے۔ گویا عمران خان نے عدم اعتماد کے دستوری طریقہ کار کا احترام کرنے کی بجائے سیاسی چالوں کا ایک پیچیدہ جال بچھا دیا۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کر کے آئندہ حکومت کے لیے معاشی بحران کھڑا کر دیا۔ ملک کے طول و عرض میں ’امریکی سازش ‘کا ایسا غلغلہ پیدا کیا جس کا کوئی اور چھور ہی نہیں تھا۔ پاکستانی حکومت، عسکری قیادت اور خود امریکی حکومت کی واضح تردید کے بعد سپریم کورٹ نے بھی ایسی سازش کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔ اس دوران عمران خان اس منطق کو خاطر میں لائے بغیر نادیدہ مداخلت کا الزام بھی دہراتے رہے کہ اگر مارچ 2022ءمیں غیر سیاسی مداخلت ہوئی تو 2018ء سے 2021ء تک ’ایک پیج‘ کے اعلانات کو کیا سمجھا جائے۔

دوسری طرف نئی اتحادی حکومت نے بھی جمہوری اقدار کی پاسداری نہیں کی۔ 2018ء کی انتخابی مشق کے قابل اعتراض کرداروں کو بیک جنبش قلم اپنے امیدوار قرار دینا عوامی شعور کی توہین کے مترادف تھا۔ پاکستان میں قومی سیاست اور مقامی سیاست کی حرکیات بالکل مختلف ہیں۔ بااثر مقامی سیاسی قیادت سے غیرمشروط جماعتی وابستگی کی توقع غیر حقیقت پسندانہ تھی۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ کی مقامی قیادت نے غیرعلانیہ طور پر لاتعلقی اختیار کی۔ پاکستان میں نئے ووٹروں کی اکثریت ہماری سیاسی اور جمہوری تاریخ سے نابلد ہے۔ معیشت کی نزاکتیں نہیں سمجھتی۔ اس نئی سوچ کا ماضی کی سیاسی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ ماننا چاہیے کہ پاکستان کا عام شہری مہنگائی کے حالیہ بحران سے سخت نالاں ہوا ہے۔ اسے آئی ایم ایف کی شرائط، زرمبادلہ کے ذخائر یا عالمی معیشت کے اتار چڑھاﺅ سے غرض نہیں۔ وہ آٹے اور گھی کی قیمت جانتا ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے سے اس کی جیب کٹ جاتی ہے۔ تاہم سامنے کے ان حقائق کے پس منظر میں پرچھائیوں کی نادیدہ رسہ کشی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔چنانچہ مستقبل قریب میں سیاسی یا معاشی استحکام کا امکان نہیں۔ انگریزی کے صاحب طرز صحافی خالد حسن مرحوم کی ایک کتاب کا عنوان یاد دلانا چاہوں گا۔ Crocodiles are here to swim. بس یہ جان لیجئے کہ خالد حسن کا اشارہ منگھو پیر کے مگر مچھوں کی طرف نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author