نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پڑھنے والوں سے چند گزارشات ||حیدر جاوید سید

انہی کو جن کے دامن پر سب سے زیادہ داغ ہیں اور پچھتر برسوں میں کسی کو ان سے حساب لینے کی جرأت نہیں ہوئی۔ بہت ادب سے کہوں یہ نفرت اور عدم برداشت انہوں نے ہی معاشرے میں پھیلوائی ہے تاکہ ان کی لوٹ مار اور دھندے عام آدمی کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائٹنگ ٹیبل پر لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کیا لکھا جائے۔ اخبارات سامنے پڑے ہیں۔ وہی روزانہ جیسی خبریں، تم غدار ہو ، تمہیں جھرلو پھیر کر اقتدار میں لایا گیا، تمہارے باپ نے وزیراعظم ہائوس کو کاروباری مرکز بنادیا تھا، تم نے وزیراعظم ہائوس کو بلیک میلنگ کا اڈا بنادیا تھا۔ روزانہ یہی کہا جاتا ہے اور ایسی ہی سرخیاں اور بیان شائع ہوتے ہیں۔

اُدھر وجاہت مسعود کا دل کرے تو نوازشریف کو حسین بن منصور حلاج اور مارٹن لوتھر ثانی قرار دے دیتے ہیں۔ دل کرے تو چی گویرا کی بھد اڑاتے ہیں۔ ہمارے دوست ہیں میر شکیل کے میڈیا ہاوس میں کالم لکھتے ہیں سو انہیں سات خون معاف ،

ایک دوست نے کہا سوشلسٹوں کے اندر ایک رجعت پسند ملا چھپا ہوتا ہے۔ صرف سوشلسٹ ہی کیوں باقی کے نظریات والے بھی بوقت ضرورت، ملا اور جلاد بن جاتے ہیں۔ چار اور دیکھ لیجئے، ایک صاحب نے شُرلی چھوڑی، گلزار اب آئوٹ آف ڈیٹ ہوچکے

ایک ٹرک کے پیچھے اقبال صاحب کے ساتھ مولوی خادم حسین کی تصویر بنائی گئی

ہمارے کامریڈ درجہ اول گریڈ 21 استاد منیرالحسینی نے کھٹ سے یہ تصویر اپنی فیس بک وال پر لگادی۔ اب وہاں اقبال کے مقام و مرتبہ کے ساتھ فضائل بیان ہورہے ہیں۔

ایک دوست کی وال پر نظریاتی اونچ نیچ پر جاری بحث میں حصہ ڈالتے ہوئے عرض کیا کوئی نظریہ ابدی و دائمی نہیں ہوتا ابدی و دائمی انسانی سماج ہے جو نظریہ اگلے عہد کے لوگوں کی رہنمائی نہ کرسکے لوگ اسے ” باتوں ” پر بھی نہیں رکھتے۔

سچ پوچھیں تو اب بات کرتے، رائے دیتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔

قومیں سماجی و سیاسی شعور کے حوالے سے ارتقائی منازل طے کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں پچھتر سال سے تنزلی کی سمت سفر جاری ہے۔

کبھی کبھی عرض کرتا ہوں کہ تقسیم کے لئے شرط اول یہ ہے کہ فریقین مل بیٹھیں تاکہ تقسیم کی کوکھ سے نفرت بھری جدائی نہ پھوٹے۔ مطالعہ اور مشاہدہ دونوں سمجھاتے ہیں کہ یہی درست بات ہے کیونکہ نفرت پر ہوئے بٹوارے کی کوکھ سے سوائے نفرت کے کچھ نہیں برآمد ہوتا۔

ایسا کیوں ہے؟ مجھے یہی سمجھ میں آیا ہے کہ نفرت اور بٹوارہ ’’شارٹ کٹ‘‘ ہیں۔ نتائج کی پروا کئے بغیر اس شارٹ کٹ پر منہ اٹھائے بھاگتے چلے جانے والے وقتی طور پر کامیاب تو ہوجاتے ہیں لیکن بھگتان بعد کی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ہم بھگت ہی تو رہے ہیں۔ ایک ایسے سماج میں جہاں بدزبانی بندے کو معتبر بنادے وہاں یہ توقع کرنا کہ دہنوں سے پھول جھڑیں گے جاگتی آنکھ کا خواب ہے ۔

ویسے ہمارے ہاں خواب فروشی عام ہے۔ فقط ہمارے عہد میں نہیں بلکہ پچھلے ادوار میں بھی یہ کاروبار خوب چلا۔

’’خواب پتھر، پانی اور آگ‘‘ یہ مشترکہ اثاثے ہیں کس کس کے۔ اس پر غور کیجئے۔ وقت ملے تو سامنے دیوار پر جواب لکھا ہے پڑھ لیجئے۔

ہمارے دعوے عمل سے خالی ہیں۔ یہ سب کیا ہے کیوں اور کب تک رہے گا، یہ اہم سوال ہے۔ اس کا جواب پانے کے لئے ضروری ہے کہ سنجیدگی سے غور کیا جائے۔

سب سے پہلے اس سوال پر کہ کیا ہم ہمیشہ سے ایسے ہی تھے؟ مجھ ایسے طالب علم کو جو بات سمجھ میں آئی وہ لکھ نہیں سکتا۔ عدم برداشت کی دھول کو زندگی کی رونق سمجھنے والے سماج میں کتنی بات کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب ہر شخص اپنی بات کو حرف آخر سمجھ کر اتراتا پھرتا ہو اور اختلاف کرنے والے کو قابل گردن زدنی قرار دے۔

اس صورتحال کے ذمہ دار صرف مولوی، سیاستدان، جرنیل، جرنلسٹ ، جج اور دوسرے بڑبولے ہی نہیں ہم اور آپ بھی ہیں۔ چھوٹے سے بچے کو گالیاں سکھاکر خوش ہوتے ہیں جب وہی بچہ سیکھی ہوئی گالیاں ہماری طرف پلٹاتا ہے تو رونے لگتے ہیں کہ بچہ بدتمیزی ہوگیا۔

جن بچوں کو کتابوں کا دوست بنانا چاہیے تھا ان کے ذہنوں میں نفرت بھرتے رہے نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لکھ کر رکھ لیجئے دھول مزید اڑے گی اتنی کہ سانس لینا مشکل ہوجائے گا۔

اصلاح احوال چاہتے ہیں تو اپنی ذات سے آغاز کیجئے۔ کتابوں سے دوستی کیجئے۔ مکالمے کو رواج دیجئے۔ نظریاتی اختلاف کو کفر اور غداری سمجھنا چھوڑ دیجئے۔

ایک کام اور کسی سیاسی ٹولے کو حسینیؑ اور کسی ٹولے کو یزیدی قرار دینے ضرورت بھی نہیں۔ سیاسی عمل میں دوستیاں دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں۔

مثال کے طور پر بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلانے والے کرداروں (لیڈروں) میں سے اکثر آپکو جنرل ضیاء کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی میں اکٹھے بیٹھے دیکھائی دیں گے۔ اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر (ن) لیگ نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا تھا ؟ ۔

ایک دن مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی پہلے اے آرڈی میں اکٹھے ہوئے پھر دونوں کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا۔

سب کو چور، لٹیرا، غدار، امریکی پٹھو، فوج کا بوٹ پالشیا قرار دینے والے عمران خان، جی ڈی اے نامی اتحاد میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ تھے۔ اے ڈی پی ایم نامی اتحاد میں نوازشریف اور محمود اچکزئی کے ساتھ۔

ایک بار لندن میں سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں کہہ رہے تھے آئیں ہم معاہدہ کریں ایم کیو ایم سے کوئی سیاسی اتحاد کریگی نا اسے حکومت میں شامل ، حکومت دلوائی گئی تو ایم کیو ایم اتحادی بھی بنائی اور بولے ” ایم کیو ایم والے نفیس لوگ ہیں ”

یہی حضرت جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے پرجوش حامی تھے۔

اب ساری جماعتیں چور اور بلیک میلر ہیں ان چور اور بلیک میلر جماعتوں کے کتنے سابقین ان کی جماعت میں ہیں۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔

آج وہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے علمبردار ہیں۔ یہی اسٹیبلشمنٹ انہیں اقتدار میں لائی تھی۔

جانور قرار پانے والے نیوٹرل جب ان کے ساتھ تھے تو عظیم جمہوریت پسند تھے۔

موجودہ حکمران اتحاد کے لوگ اقتدار میں آنے سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کیا کیا نہیں کہتے تھے۔ اب کہتے ہیں اداروں کا دفاع ہمارا فرض ہے۔

عرض یہ کرنا چاہتا ہوں ان سب کی زبان کے نیچے ایک اور زبان ہے۔ کل اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دینے والے آج اس کا دفاع کررہے ہیں اور کل جو یہ کہتے تھے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے تکلیف یہ ہے کہ وہ ان کی چوریوں کو تحفظ نہیں دیتی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے وہ اب کہہ رہے ہیں فلاں میر جعفر ہے فلاں میر صادق، نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔

ان دوہری زبانوں اور وقت کے ساتھ معیار بدلنے والوں کے لئے دوستوں عزیزوں سے تعلقات خراب نہ کیجئے۔ ہمیں اور آپ کو یہیں رہنا ہے حالات کیسے بھی ہوں دیوار سے دیوار سانجھی ہے تین چار واسطوں سے کوئی نہ کوئی تعلق نکل آتا ہے۔

بلاشک اپنے اپنے لیڈر کو اوتار سمجھیں لیکن اس کے لئے اپنے بھائیوں کے گریبانوں سے نہ الجھیں۔ ہاں وقت ملے تو اس پر ضرور غور کیجئے کہ اس نفرت اور عدم برداشت کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا اور ہورہا ہے۔

انہی کو جن کے دامن پر سب سے زیادہ داغ ہیں اور پچھتر برسوں میں کسی کو ان سے حساب لینے کی جرأت نہیں ہوئی۔ بہت ادب سے کہوں یہ نفرت اور عدم برداشت انہوں نے ہی معاشرے میں پھیلوائی ہے تاکہ ان کی لوٹ مار اور دھندے عام آدمی کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔

ایک بات اور سمجھ لیجئے، بالادست اسٹیبلشمنٹ کی کسی سنجیدہ فہم اور فوری ناراضگی پر مخالفت دو الگ الگ باتیں ہیں۔ سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں یہ سنجیدہ سوچ ہے۔

ہم کو نکال کر اسے کیوں لائے یہ مفادات کا کھیل ہے۔

فیصلہ آپ کو کرنا ہے وقتی مفادات کے جذبات کا اسیر ہونا ہے یا ایک ایسے سماج اور نظام کے لئے جدوجہد جاری رکھنی ہے جو حقیقی معنوں میں عوام دوست نظام ہو۔

مکرر عرض ہے سیاسی مخالف کو احترام دیجئے، گالی کے جواب میں گالی سے بڑا ہتھیار احترام ہے۔

سیاسی نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ سماجی تعلق رشتے ناطے ان کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔

سیاسی جماعتیں اور قائدین سیاست حصول اقتدار کے لئے کرتے ہیں اقتدار پالینے پر عوام کے لئے کس نے کیا کیا آپ کو اور مجھے یہ حساب دیکھنا سمجھنا ہوگا۔

حرف آخر یہ ہے کہ آج عیدالاضحی ہے، کوشش کیجئے گا کہ اس دن ایثار کا عملی مظاہرہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author