عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے مسئلے کچھ اور ہی ہیں، جیسے میک اپ زدہ جمہوریت، ایکسٹیشن، سلیکشن وغیرہ وغیرہ۔ تعلیم، صحت اور ملک کے انتظامی کے شعبوں کو کس قدر ایمرجنسی صورت حال کا سامنا ہے یہ دیگر غیر اہم باتیں ہیں، اس لیے یہ کام ریاست نے مقامی این جی اوز اور بیرون ملک فنڈنگ سے چلنے والے امدادی پروگراموں کو دے رکھا ہے۔
یہاں ’دے رکھا ہے‘ سے مراد ہے کہ اپنی ذمے داری کا ملبہ سول سوسائٹی پہ ڈال کہ حکومتیں کم از کم اس جانب سے لاپروا اور لاتعلق ہی رہتی ہیں۔
پاکستان میں کینسر کی شرح میں خطرناک اضافہ ہوا ہے، ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، پاکستانی کم عمری میں ہی دل کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، ایک بڑی تعداد میں پاکستان کی اگلی نسل یعنی نومولود اور بچوں کی غذائی قلت کا سامنا ہے۔ صحت کے یہ مسائل ہماری سیاسی قیادت کی نظروں سے اوجھل ہیں، بالکل ایسے ہی تولیدی صحت کی نزاکتیں بھی خاطر میں نہیں لائی جاتیں۔
تولیدی صحت خصوصاً خواتین کی صحت کے حوالے سے ایک اہم معاملہ اسقاط حمل کا ہے جس کے حوالے سے ایک سلگتی بحث اس وقت امریکہ میں چھڑی ہوئی ہے جہاں امریکی سپریم کورٹ نے 50 برس قبل اسقاط حمل کو خواتین کا ذاتی حق اور قانونی عمل قرار دینے کے اپنے ہی فیصلے کو ختم کر دیا ہے، یعنی اب امریکہ کی کئی ریاستوں میں اسقاط حمل ایک غیر قانونی عمل تصور ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں خواتین کے حقوق کی علم بردار تنظیموں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ہم آواز ہو کر اس فیصلے کی مذمت کر رہی ہیں۔ مطالبہ بڑا سادہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ اپنا فیصلہ واپس لے۔ یہ کام آسانی سے ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ سامنے امریکی قدامت پسند، مذہبی نظریات کے حامل افراد کی بھی بڑی لابی ہے جو اسقاط حمل کو زندگی کے خلاف فیصلہ سمجھتی ہے۔
اسقاط حمل کا معاملہ پاکستان میں ایک سیاسی مسئلہ نہیں، اس معاملے پہ سیاست کا پلیٹ فارم کبھی استعمال نہیں ہوا، لیکن یہ کہنا کہ اسقاط حمل کا معاملہ پاکستان کا مسئلہ نہیں سراسر غلط ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہونے والی سٹڈیز بتاتی ہیں کہ پاکستان میں اسقاط حمل کے کیس امریکہ سے کئی گنا زیادہ ہیں بلکہ اسقاط حمل کے کیسوں میں پاکستان سرفہرست ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اسقاط حمل کرانے والی خواتین کی اکثریت شادی شدہ ہوتی ہے۔
یعنی مسئلہ تو ہے مگر کوئی مانتا نہیں، مسئلہ تو ہے مگر کوئی بولتا نہیں۔
اگر یہ ہمارا مسئلہ نہ ہوتا تو میرے گھر کام کرنے والی ہیلپر کو میں کئی ماہ تک یوں روتے نہ دیکھتی جو صرف 28 برس کی ہے اور پہلے ہی نو بچوں کی ماں ہے۔ آٹھ بچوں کو بڑی لڑکی جو 15 برس کی ہے سنبھالتی ہے، جبکہ آئے روز بچے کبھی گر کہ زخمی کبھی بیمار۔ وہ بہت کوشش کے باوجود زچگی کی ابتدا میں اپنے حق میں یہ فیصلہ نہیں کرا سکی کہ اسے دسواں بچہ نہیں چاہیے کیونکہ نجی کلینک کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ سرکاری ہسپتال ’ایسے کیس‘ لیتے نہیں، اور نشئی شوہر کی مرضی نہیں تھی۔
کمال ہے کہ ایسا ملک جہاں اسقاط حمل عمومی طور پر غیر قانونی ہے، جہاں صرف طبی پیچیدگی کی صورت میں اسقاط حمل کی گنجائش ہے، وہاں ہر سال لاکھوں خواتین اسقاط حمل کروا لیتی ہے جس کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں۔
سرکاری ہسپتال اور بڑے میٹرنٹی ہوم اسقاط حمل کا کیس لے کر فضول دردِ سر لینا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ یا تو یہ غیرقانونی جنسی تعلق کا چکر ہے یا پھر شوہر کی رضامندی شامل نہیں ہے۔ یوں بھی میڈیکل پروفیشنلز کی عمومی سوچ یہی ہے کہ یہ عمل غیر قانونی یا پھر خلاف مذہب ہے۔
اگر پاکستان میں صحت کے رجسٹرڈ مراکز اسقاط حمل کے معاملات اتنی آسانی سے نہیں لیتے تو یہ لاکھوں کی تعداد میں خواتین جاتی کہاں ہیں؟ یہ کیس پھر ان عطائی ڈاکٹروں، نام نہاد تجربہ کار مڈوائف یا دائیوں وغیرہ کے پاس جاتے ہیں جہاں اولین ترجیح پیسے لے کر حمل گرانا ہوتا ہے، اس عمل میں خاتون کی زندگی اور صحت کی کوئی ضمانت نہیں۔
اسقاط حمل کی بحث کو اگر صرف غیر شادی شدہ پریمی جوڑوں کے گناہ کی حد تک محدود کر دیتے ہیں تو بھی طبی سہولت نہ ملنے کے باعث جان اور صحت خواتین کی ہی جاتی ہے۔ رہی بات معصوم زندگی بچانے کی تو وہ بچہ کبھی ہسپتال کے ٹوائلٹ میں چھوڑ دیا جاتا ہے کبھی شاپر میں باندھ کر کچرے میں پھینکا جاتا ہے، لڑکی کے گھر والے تھوڑی ہمت کر لیں تو ایدھی کے جھولے میں ڈال آتے ہیں۔
پاکستان کے کیس میں اسقاط حمل کے معاملوں کے پیچھے ایک بڑا عنصر مانع حمل ادویات و ذرائع سے لاعلمی یا ان کا حصول نہ ہونا ہے۔
میں نے 2013 میں بین الاقوامی ادارے پاپولیشن سروسز انٹرنیشنل کی پاکستان بھر میں ہونے والی ایک تحقیق میں بطور ریسرچر کام کیا جس کے لیے پاکستان کے دور دراز دیہات میں بھی جانا ہوا۔ اس دوران اندازہ ہوا کہ بچے کی پیدائش، حمل کا ٹھہرنا یہ معاملات خواتین کے ہاتھ سے باہر ہیں، کتنی ہی ایسی خواتین کے انٹرویوز کیے جنہیں مانع حمل کے متعلق بنیادی آگاہی تک نہ تھی۔
پاکستان کا قانون اسقاط حمل کے حوالے سے کچھ ابہام رکھتا ہے۔ قانون کے مطابق اگر ماں کی جان وصحت کو خطرہ ہو یا علاج کی غرض سے انتہائی ضرورت ہو تو اسقاط حمل کیا جا سکتا ہے وگرنہ اس عمل پر ماں، ڈاکٹر اور معاونت کرنے والوں پہ سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
اب یہ کن حالات میں کیسے طے ہو کہ یہاں ماں کی صحت سے مراد اس عورت کی صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی صحت بھی ہو سکتی ہے؟
معاشرتی دباؤ یا معاشی تنگی کے باعث ذہنی دباؤ بھی اس فیصلے کی وجہ بن سکتے ہیں۔
ریاستِ پاکستان اپنی خواتین شہریوں کی صحت کی حفاظت تو شاید فرداً فرداً نہیں کر سکتی مگر کم از کم یہ ابہام دور کر سکتی ہے کہ اسقاط حمل کی طبی سہولت انہیں باآسانی سرکاری صحت مراکز میں کیسے مل سکتی ہے، قوانین کو مزید واضح کیا جا سکتا ہے۔
حکومت مانع حمل ادویات و دیگر ذرائع کے حصول کے لیے مزید آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ہم بحیثیت معاشرہ کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں کہ اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکی ہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر