ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ92 نیوز میں میرا کالم ’’اونٹوں کا عالمی‘‘ دن شائع ہوا تو اسے بہت سے دوستوں نے پسند کیا، ان میں سے کچھ دوستوں نے کہا کہ بچپن کی یادوں کے حوالے سے بھی کچھ لکھیں کہ بچپن کی یادیں تاریخ بھی ہوتی ہیں اور تاریخ ساز بھی۔ آج میں خود کو نصف صدی پیچھے لے گیا ہوں اور ذہن پر زور دے کر ماضی کو یاد کر رہا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ بستی کی مسجد میں قرآن مجید پڑھتے تھے، ابتدائی تعلیم عربی میں لکھے گئے قاعدے سے شروع ہوئی ، اس قاعدہ کا نام ’’ملتانی قاعدہ‘‘ تھا۔ بچپن سے نماز کی عادت تھی، رمضان شریف میں مسجد کی رونق دوبالا ہو جاتی تھی، افطاری کے وقت مسجد میں ہر قسم کے طعام اور میٹھا پانی موجود ہوتا۔ رمضان المبارک میں صبح سویرے روزہ داروں کو جگایا جاتا، پورا ماہ ایسے ہوتا، 27 ویں شب کو ختم شریف ہوتا، نماز تراویح پڑھانے والے حافظ قرآن کو بستی والے نئے کپڑے اور پیسے دیتے، پھولوں کے ہار پہناتے ، نعت خوانی بھی ہوتی ۔ صبح سویرے روزہ رکھنے کیلئے جاگتے تو سڑک پر اونٹوں کی قطاریں جا رہی ہوتی تھیں، اونٹوں کی گھنٹیاں اور پیروں میں جھانجھریں ہوتیں، جتوال گیت گاتے ہوئے جاتے ، جتوالوں کی اونچی سُر اور گھنٹیوں کی آواز بھلی لگتی، اونٹوںکی قطاروں پر دن کو گُڑ اور مرچوں کے بورے ہوتے ، زیادہ تر کپاس لدی ہوتی ۔ مجھے یاد ہے کہ ساون میں جب بارش نہ ہوتی تو بستی کے سب بچے اکٹھے ہو کر بارش کی دعا مانگتے ، دعا ایسے کرتے کہ ایک بچے کا منہ کالک مل کر اس کو آگے کر کے ایک ایک در پر گندم کی بھیک مانگتے، فقیروں کی طرح صدا لگاتے ’’اللہ سئیں آ مینہ وسا، نِکے بالیں دی اے دُعا‘‘۔ خواتین خوش ہو کر گندم دے دیتیں، کچھ گندم دکان پر فروخت کر کے گُڑ خریدتے اور میٹھے چاول پکا کر سب کھاتے اور خیر خیر کرتے۔ موسم سہانا ہو جاتا ، بادل بن جاتے، بجلی چمکنے لگتی اور بادل گرجتے ہوئے تیز بارش شروع ہو جاتی، سب بچے خوش ہوکر نہاتے، ہماری بستی کے نوجوان بارش کے بعد محفل سجاتے جس میں ڈوہڑے اور کافیاں سنائی جاتیں،خواجہ فریدؒ کی کافی ’’دل دم دم دردوں ماندی اے ، سِک ڈٹھڑیں باجھ نہ لہندی اے ‘‘ فرمائش کر کے بار بار سنتے تھے۔ میں اپنی دادی اماں اور نانی اماں کا بہت لاڈلا تھا، دن کو اپنے گھر دادی اماں کے ساتھ اور رات کو اپنی نانی اماں کے ساتھ ہوتا، میرے نانا مولانا یار محمد دھریجہ بہت بڑے عالم دین اور وسیب کے محسن تھے، ہمارے علاقے میں علم کی شمع انہوں نے روشن کی، زمیندار تھے رقبہ تھا اور سخی بھی بہت تھے، مدرسے میں پڑھنے آنے والے طالب علموں کے ساتھ ساتھ مہمانوں اور مسافروں کی خدمت کرتے ،نانا جی کا لنگر چلتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آدھی رات کو کوئی مسافر آ جاتا تو میرے نانا حضور نانی اماں کو جگا دیتے اور اُسی وقت کھانا پکوا کر مسافروں کو کھلاتے ، ان کی ساری زندگی لوگوں کی خدمت کرتے گزری، میں تو ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں مگر ان کے ساتھ رہنے سے میری تربیت ہوتی رہی، تعلیم ہو اور تربیت نہ ہو تو وہ کسی کام کی نہیں ہوتی۔ میری نانی اماں بھی بہت سادہ اور نیک خاتون تھیں، گھر کے سارے کام خود کرتی تھیں، صبح سویرے اُٹھ کر ہاتھ والی چکی میں آٹا پیستیں، نماز پڑھنے کے بعد دودھ سے لسی بناتیں، مجھے یاد ہے کہ جو بھی لسی لینے آتا اس کو مکھن بھی ساتھ دیتیں۔کافی عرصہ بعد ایک بڑی چکی جسے سرائیکی میں ’’چندراہ‘‘ کہتے ہیںآیا، اسے بیلنے یا کولو کی طرح بیل چلاتا تھا، بعد ازاں مشینی چکی آئی جسے انجن کے ذریعے چلایا جاتا تو خواتین کو سکھ ملا، ایک طرف ٹیوب ویل ہوتا جس سے زمینوں کوسیراب کیا جاتا اور دوسری طرف چکی جس میں آٹا پیسا جاتا۔ ہماری بستی میں بہت سارے کردار تھے، ’’بُٹا میراثی ‘‘ ہماری بستی کا تو نہیں تھا مگر اکثر بستی میں ہوتا، شادی پر ڈھول ’’نغارے‘‘ بجاتا ، ہماری دکان پر اس کا کھاتہ تھا، اس نے دو کھاتے کھلوائے ہوئے تھے، ایک پر اپنا نام بُٹا لکھوایا ہوا تھا دوسرے پر کریم بخش، وہ بہرا بھی تھا اور توتلا بھی، اس کا ایک کان بھی کاٹا ہوا تھا، سپورٹ سگریٹ کو لپوٹ کہتا اور کے ٹو کو کیشو۔ وہ کہتا کہ جب میں ’’لپوٹ ‘‘خریدوں توں بُٹا والے کھاتے میں لکھو اور جب ’’کیشو‘‘ خریدوں تو کریم بخش والے کھاتے میں لکھو۔ ہماری بستی کا یارا فقیر ’’بٹا میراثی‘‘ کو چھیڑتا تھا کہ تم نے میراثیوں کو بدنام کیا ہوا ہے، تم تو کٹانے ہو، نغاروں کی جوڑی اٹھا کر ہر جگہ چلے آتے ہو، بُٹا میراثی کہتا میرے مقابلے میں اپنے میراثی بلائو، میری طرح نغارے بجا لیں تو میں ہاتھ کٹوا دوں گا۔ ایک مرتبہ خواتین شادی والے گھر جا رہی تھیں، ہمارے ایک بڑے نے بُٹے کو گالی دے کر کہا ایک طرف منہ کر کے بیٹھوعورتیں گزر جانے دو۔ بٹے میراثی نے اپنی توتلی آواز میں کہا ’’ رات میں حویلی اِچ نغارہ وجا تے ساریں کوں جھمر کھڈائی اے، ہُن اے بیبیاں بن گن‘‘۔ شادی خوشی کا نام ہے، شادی پر خوشیوں کے میلے ہوتے ، آٹھ دن پہلے ڈھول ’’نغارے‘‘ آ جاتے ، ساری ساری رات نغاروں پر جھومر کھیلی جاتی، جاگے والی رات ’’نٹیں دا تماشہ‘‘ ہوتا تھا، ہم نے اپنی جوانی میں صابر مبارک پوری کی ’’ٹولی ‘‘کو سنا، صابر مبارکبار پوری شاعر، موسیقار اور صدا کار تھے، عاشق رسولؐ بھی تھے، کافیاں اور مولود بھی لکھتے، شعر بعد میں لکھتے طرز پہلے بنا لیتے۔ میرے ابا جی کے ساتھ ان کی دوستی تھی، ابا جی ان کی خدمت قدر کرتے تھے۔ ’’ٹولی ‘‘میں سُریلے فنکار ہوتے ، ڈوہڑے ایسے خوبصورت پڑھتے کہ سن کر بدن میں سریریں پیدا ہو جاتیں۔ مولود شریف مولوی صاحب خود شروع کرتے، پہلا مصرعہ خود گاتے ، سوزی ساتھ ساتھ سماں باندھ دیتے۔ ٹولی میں ’’نقلی ‘‘بڑے کردار کرتا تھا۔ ہنساتا ایسے تھا جو ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا، صدر ایوب خان کے دور میں اس کا بہت بڑا نام تھا۔ ایک واقعہ بتاتا ہوں کہ ایک دفعہ ’’نقلی‘‘ نقل کر رہا تھا ، رعب سے اکڑا ہوا تھا، ٹولی کا سردار کہتا ہے شیخی مارتا پھرتا ہے کیا تھانیدار بن گیا ہے؟ نقلی کہتا ہے اس سے اوپر، ڈی ایس پی بن گیا ہے؟ نقلی کہتا ہے اوپر، سردار کہتا ہے تم کوئی ڈی آئی جی بن گئے ہو؟ نقلی کہتا اس سے بھی اوپر۔ سردار غصے میں آکر کہتا ہے تم کوئی وزیر بن گئے ہو؟ نقلی کہتا اس سے اوپر۔ سردار چڑ کر کہتا ہے کہ تم صدر بن گئے ہو؟ نقلی کہتا اس سے بھی اوپر۔ سردار کہتا ہے اس سے اوپر تو کچھ نہیں ، نقلی کہتا ہے کہ میں بھی کچھ نہیں ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر