عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دن قبل ہی اسلام آباد کے معروف صحافی کو یوٹیوب پہ یہ کہتے سنا کہ مدینے میں 99 فیصد پاکستانی نئی شہباز حکومت کے خلاف ہیں۔ یوٹیوب یا ٹوئٹر ہی نہیں مرکزی دھارے کے چینلوں پہ بیٹھ کر بھی کئی جید اینکرز ایسے ہی 99 فیصد کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔
99 فیصد کہنے کا استعمال وہی ہے، جیسے عادی جھوٹے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’یہ میرے سامنے رزق رکھا ہے، اس کی قسم میں سچ بول رہا ہوں۔‘
99 کے پھیر سے پرے یہاں ذکر ہے ایک تحقیقی مقالے کا جس کا عنوان ہے، ’پاناما پیپرز کی کوریج کے دوران پاکستانی صحافیوں کی سیاسی وابستگی اور صحافیوں پہ اپنے اداروں کا دباؤ۔‘
یہ تحقیقی مقالہ بین الاقوامی ریسرچ جرنل آف سوشل سائنسز میں 2020 میں شائع ہوا اور ریسرچ گیٹ کی ویب سائٹ پہ دستیاب ہے۔ یہ تحقیق انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیشان خان، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے محسن حسن اور ورچوئل یونیورسٹی لاہور سے روحیل اصغر نے انجام دی۔
تحقیق میں بہت سہل انداز میں بڑے مشکل معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے، یوں کہیے ہومیوپیتھک کی شیشی میں نہایت کڑوا کسیلا معجون۔
تحقیق کے مطابق پاناما کیس کی کوریج نہایت شدید انداز میں سیاسی رہی، میڈیا کے اداروں کو بلا واسطہ اور بالواسطہ دباؤ میں لیا جاتا رہا جبکہ میڈیا کے اداروں نے اپنے بزنس اور مالی فائدے کے لیے بھی مخصوص پارٹیوں کی لائن پکڑی۔ اس دباؤ میں جہاں نظر نہ آنے والی طاقتیں اور سیاسی اشرافیہ شامل رہی، وہیں بعض بین الاقوامی، بڑی اشتہاری کمپنیوں کا کردار بھی رہا۔
اس تحقیق کا سب سے مشکل حصہ وہ ہے جو فعال صحافیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ تحقیق یہ کہتی ہے کہ پاناما پیپرز کی کوریج میں صحافیوں نے انفرادی طور پر اپنی ذاتی پسند، نظریاتی سیاسی جھکاؤ اور سیاسی وابستگی کے مطابق رپورٹنگ کی۔
تین مستند یونیورسٹیوں کے محققین کی یہ ریسرچ کسی یوٹیوبر کا 99 فیصد والا دعویٰ نہیں۔ اس تحقیق کی بنیاد پاناما پیپرز کی رپورٹنگ کرنے والے صف اول کے 13 پاکستانی صحافیوں کے تفصیلی انٹرویوز ہیں۔ اکیڈمک تحقیق کرنے والے کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ پرائیویسی کے باعث نام شامل تحقیق نہیں کرتے تاہم اس ریسرچ پیپر میں ان چینلوں اور اخبارات کے نام واضح طور پر لیے گئے ہیں، جن سے یہ 13 صحافی منسلک تھے۔
تحقیق کے مطابق ملک کے سب سے بڑے چینل کی دوڑ میں شامل ایک چینل کے سپریم کورٹ رپورٹر نے بتایا، ’ہاں ہمیں رپورٹنگ کے دوران مخصوص لائن لینے کی ہدایات چینل کے مالک کی جانب سے آتی تھیں کیونکہ ان پہ منسٹری، پیمرا اور کبھی براہ راست وزیراعظم ہاؤس سے پریشر ہوتا تھا۔ ادارے کا حکم تھا کہ پاناما کوریج میں حکومت کے خلاف نہیں جانا۔‘
ایک کم بجٹ میں چلنے والے نیوز چینل کے نمائندے نے کہا، ’پاناما مقدمے کے دوران حکومت نے ہمارے چینل کو اربوں روپے کے سرکاری اشتہارات دیے جس کے بعد ہم نے اپنی رپورٹنگ کا زاویہ یکسر بدل لیا اور حکومت کے حق میں خبریں دینے لگے۔‘
نمبر ون ہونے کے ایک اور دعویدار چینل کے نمائندے نے سچ بولنے کی حد ہی کر دی۔ انہوں نے بتایا، ’پاناما ایشو پر ہمیں ادارے کی پالیسی فالوکرنے کو کہا گیا۔ معاشرے کے ہر انسان کی طرح رپورٹر بھی اپنی سیاسی وابستگی رکھتا ہے۔ میں بھی ایک سیاسی جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ ہمارے صحافی دوستوں نے پاناما کوریج میں بہت اینگلنگ کی ہے خصوصاً پرائم ٹائم شوز میں بیٹھ کر۔‘
بازی لے جانے کے دعویدار چینل کے نمائندے نے بھی اپنے ادارے کے پریشر کا ذکر کیا۔ ایک میڈیم بجٹ والے چینل کے نمائندے نے کہا کہ جب ان کی دی ہوئی خبر نہیں چلتی تھی تو وہ سمجھ جاتے تھے کہ خبر ادارے کی پالیسی کے مطابق نہیں۔ پھر وہ خبر کا رخ بدل لیتے تھے۔
ایک مناسب شہرت رکھنے والے نیوز چینل کے سپریم کورٹ رپورٹر نے کہا، ’پاناما معاملے پر صحافیوں کی اکثریت حکومت کے ساتھ رہی، میں نے بھی اکثریت کے مطابق حکومت کے حق میں رپورٹنگ کی اور یہی ہمارے ادارے کی پالیسی تھی۔ ‘
جہاں کئی صحافیوں نے دباؤ اور اپنی ذاتی پسند کا برملا اظہار کیا وہیں ایک سابقہ نمبر دو تین پر آنے والے چینل کے نمائندے نے کہا کہ ویسے تو انہیں اپنے ادارے سے کسی دباؤ کا سامنا نہیں رہا، تاہم پبلک سب جانتی ہے۔‘
پاناما کوریج کے دوران دوسرا گروپ وہ تھا جنہوں نے ن لیگ کی حکومت کی مخالفت اپنے اوپر فرض سمجھ لی تھی۔ ایسے ہی ایک چینل کے رپورٹر کے یہ الفاظ تحقیق کا حصہ ہیں کہ ’پبلک پاناما کیس میں اینٹی گورنمنٹ خبریں زیادہ دیکھ رہی تھی، انہیں حکومت پہ بہت غصہ تھا، اس لیے ہم نے پبلک ڈیمانڈ اور مقبول عوامی رائے کے مطابق رپورٹنگ کی۔‘
ایک کم بجٹ چینل کے سپریم کورٹ رپورٹر کہتے ہیں کہ انہیں رپورٹنگ کے بعد کبھی حکمراں جماعت کے نمائندوں اور کبھی پی ٹی آئی والوں کی کال آتی تھی تاکہ رپورٹنگ مواد میں ردوبدل ہوسکے اور ہم وہ کرتے تھے۔
میں نے بھی بطور رپورٹر پاناما کیس کی کوریج کی ہے اور اس ریسرچ پہ میری رائے یہ ہے کہ پاناما پیپرز جیسا کھلا ڈلا سیاسی معاملہ تو دور کی بات ہے ملک میں صحت یا تعلیم کی رپورٹنگ پر بھی تحقیقات کر لیں، رپورٹروں کی سیاسی وابستگی کے تانے بانے ملیں گے۔
یوں لگتا ہے جیسے سیاسی، مذہبی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے چینل بانٹ رکھے ہیں۔ ایک کی حقیقت دوسرے کے لیے فیک نیوز ہے۔ ایک کا کیمرا گھنیری رات دکھا رہا ہے تو دوسرے کے کیمرا مین کو حکم ہے کہ سکرین پر صرف روشن دن نظر آئے۔
ایک رپورٹر جلسے میں ریکارڈ توڑ لاکھوں کا مجمع رپورٹ کر رہا ہے تو دوسرے کو جلسہ گاہ میں الو بولتے دکھائی دیتے ہیں۔
مذکورہ تحقیق کی مکمل تفصیلات کے لیے اسے آن لائن تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم زیادہ خشک اور بورنگ تحقیقاتی مقالے نہ پڑھے جائیں تو ٹوئٹر پہ ایک دن گزار لیں ، صحافیوں کی ٹیمیں اپنے اپنے کپتانوں کی لائن پہ مصروف نظر آئیں گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکی ہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر