ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی ایک این جی او کی جانب سے ماسکو میں کی گئی کانفرنس کا یہ موضوع تھا۔ کانفرنس کی عام زبان یا Lingua franca چونکہ انگریزی تھی اس لیے اس کے انگریزی زبان میں دیے گئے موضوع کو میں نے پہلے چھ یا سات حصوں میں بانٹا اور پھر ان حصوں کو ان کی اہمیت کے حساب سے نئی ترتیب دی۔ حل کوئی نہیں دیا کہ ان ٹکڑوں کو پھر سے کیسے جوڑا جائے لیکن ایک انداز ضرور بتا دیا جو یوں تھا کہ:
وسیلہ یا Resource کسے کہا جاتا ہے؟
وسیلہ یا Resource ایسی قابل خرچ، استعمال کے بعد فالتو قرار دی جانے والی "شے” کو کہا جاتا ہے جس کی ایک قیمت، معاوضہ یا رقم کی صورت میں کسی بھی نام سے بدل ہوتا ہے جیسے بجلی، قابل استعمال پانی یا اشیائے صرف یعنی Consumer goods۔ اس وسیلے کو قیمتی یعنی Precious اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ایک Price ہوتی ہے۔
پھر ایسا کیوں ہے کہ انسان کی استعداد کو چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی، وسیلہ یا Resource کہا جاتا ہے؟ اس کی فقط ایک ہی وجہ ہے کہ انسان سرمایہ دار نظام کے لیے ایک "شے” یا Commodity ہے۔ جس طرح مشین اپنی ٹکنالوجی، استعداد اور نفاست کے باعث قیمتی سے قیمتی ہوتی جاتی ہے، اسی طرح سرمایہ دار مشین کا پرزہ یا مینیجر جتنا پیشہ ور، مستعد اور پیداواری ہوگا اس کی قیمت یا معاوضہ اتنا ہی زیادہ ہوتا جائے گا اور ساتھ ہی اس کی اہمیت بھی۔ اس سے کمتر Human resource کی قیمت بتدریج کم ہوتی جائے گی۔
سرمایہ دار نظام میں انسانوں کے لیے سہولیات یا آسائشوں کا ہونا اس نطام کی دین نہیں ہوتے بلکہ یہ ان انسانوں کی انسانی خواہشات کے لیے جدوجہد کا نتیجہ ہوتے ہیں جو اس مشین سے نکل کر فارغ اوقات میں اس مشین کے پرزے نہیں بلکہ فی الواقعی انسان ہوتے ہیں۔
بسا اوقات کمتر محنت کو ایک اور نام دیا جاتا ہے، جسے عرف عام میں Manpower یا افرادی قوت کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس نظام کے جسمانی طور پر کارگر لیکن ذہنی طور پر بیکار پرزے ہوتے ہیں جن کی قوت سے فائدہ تو اٹھایا جاتا ہے لیکن انہیں کسی بھی وقت اس مشین سے باہر کیا جا سکتا ہے یوں وہ پرزے اور انسان ہونے کے بیچ جھولتے رہتے ہیں، انہیں انسان نما پرزوں یا پرزے نما انسانوں سے سرمایہ داری نظام کو ایک عرصے خطرہ رہا ہے کیونکہ یہ لوگ جنہیں اجتماعی طور پر مزدور طبقہ کہا جاتا ہے مل کر اپنی اجتماعی قوت کے بل بوتے پر انقلاب برپا کر دیا کرتا تھا۔
لیکن اب انقلاب آنے رک گئے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں مزدور یونینوں کی وجہ سے مزدوروں کو خاصہ سہولیات مل چکی ہیں۔ ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ملکوں میں مزدور یونینیں یا تو بنانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی یا پھر جو ہوتی ہیں وہ "پاکٹ یونین” ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نظریہ جو مزدوروں کو مجتمع کرتا تھا اور ہمت دیتا تھا وہ اس طرح باقی نہیں رہا۔
چناچہ اب یا تو اصلاح ہو سکتی ہے یا اصلاح نو اس لیے ہمیں وسیلہ یا Resource کی اصطلاح سے صلح کرنی ہوگی اور اسے میٹھے میں لپٹی ہوئی گولی جانتے ہوئے بھی نگلنا ہوگا اور ہضم بھی کرنا ہوگا۔
پاکستان میں انسانی وسائل کو ترقی دیے جانے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جیسے سماجی مسائل، معاشی اتھل پتھل، پاکستان کی پوری تاریخ کے دوران سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام، آمدنیوں میں غیر متوازن تفاوت اور غیر ترقی یافتہ یا کسی حد تک ترقی پذیر ملک ہونے کے حوالے سے یہاں صارفین کا معاشرہ پیدا کیے جانے کے منفی اثرات وغیرہ وغیرہ۔
انسانی وسائل کا سرچشمہ جوان لوگوں کی پاکستان میں اکثریت دیہاتی علاقوں میں بستی ہے، جو کسی طرح خام افرادی قوت تو کہلا سکتے ہیں لیکن انسانی وسیلہ بننے کی جانب گامزن ہرگز نہیں۔ اگرچہ گذشتہ برسوں کے دوران دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرنے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ایسا ہونے کی بذات خود وجوہات ہیں جیسے زراعت کا جسمانی قوت کی نسبت مشینوں پر زیادہ انحصار، دیہاتوں میں متموّل زمینداروں یا وڈیروں کی سختیاں، زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں۔ یوں ایسے حالات میں شہروں میں منتقل افرادی قوت کو انسانی وسیلے میں بدلا جانا بہت مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
البتہ جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں اور جو تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کو بطور انسانی وسیلہ ترقی دیا جانا بڑی حد تک ممکن ہے لیکن پہلے یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ ترقی دیے جانے سے ہماری مراد کیا ہے؟ یہ ترقی سماجی حوالے سے ہونی چاہیے یا معاشی حوالے سے یا پھر نفسیاتی حوالے سے یا درحقیقت شعور اور علم کو ترقی دیا جانا ہمارا مدعا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم وسیلہ یا Resource کی محض تعداد بڑھائے جانے کو ہی ترقی دیا جانا سمجھتے ہوں۔ یاد رہے کہ یہ پوری اصطلاح یعنی Human resourse اور اس کا اطلاق خالصتا” ایک مخصوص نطام سے وابستہ ہے لیکن اس کے نتائج و عواقب کا تعلق بالکل مقامی ہوتا ہے جیسے "بہار عرب” اور اس کے دوران کے واقعات اور بعد کے نتائج یا اگر ذرا پھیلا کر دیکھا جائے تو ایم کیو ایم اور تحریک انصاف جیسے مظاہر بھی۔
Human resourse کو ترقی دیے جانے کی راہ میں جو للکاریں ہیں جنہیں چیلنجز کہنا زیادہ درست ہوگا وہ نظام تعلیم کا غیر متناسب اور نامناسب ہونا، تعلیم کی سطح سے متعلق حقیقی شکوک، صارفین کے معاشرے کی کامیاں، بد دلی اور مایوسی، حکومت کا رویہ، ہئیت مقتدرہ کا منفی کردار، مالی وسائل کا فقدان، مائنڈ سیٹ اور ترقی کی خواہش کا نہ ہونا ہے۔ Human resourse کو ترقی دیے جانے سے پہلے یا کم از کم اس عمل کے ساتھ ساتھ ان سب کے خلاف چومکھی لڑنا ہوگی۔
جہاں تک بات ہے اس طرح کی ترقی کے لیے مواقع ہونے کی تو وہ اگر مکمل طور پر نہ سہی لیکن مجموعی طور پر بہت حد تک معدوم ہیں۔ البتہ مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں اور پہلے سے موجود مواقع کو قابل رسائی بنایا جا سکتا ہے یا انہیں پھیلایا جا سکتا ہے، یہ کارخیر حکومت، نجی ادارے اور این جی اوز سبھی اپنے طور پر اور یا اشتراک کرکے کر سکتے ہیں۔ اگر ارادہ ہو تو راستے نکالے جانا مشکل نہیں ہوا کرتا۔
ہمیں اس ضمن میں بنیادی طور پر کیا کرنا چاہیے؟
سب سے پہلے تو گلی اور محلّے کی سطح پر "ڈسکشن گروپ” بنانے چاہییں جو لوگوں کے شعور کو صیقل کرنے کا کام کر سکتے ہیں۔ محلوں میں بہتر کتابوں والی چھوٹی چھوٹی مفت یا علامتی قیمت والی لائبریریاں بنائی جا سکتی ہیں۔ طالب علموں کی یونینیں بنائے جانے کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ نوجوانوں کی سماجی سطح کو بلند کیا جانا چاہیے اور لامحالہ انہیں معاشی مدد دی جانی چاہیے تاکہ وہ علم حاصل کریں اور معاشرے کے لیے "قیمتی شے” بن سکیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر