نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا عمران خان پاکستان کی نئی اسٹیبلشمنٹ ہیں؟||عاصمہ شیرازی

پیپلز پارٹی بھی اصلاحات سے قبل انتخابات پر راضی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں سات سے آٹھ ماہ تک انتخابات کے امکانات کو مسترد کیا تھا۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تسلیم کریں یا نہ کریں گزشتہ چند ماہ میں پاکستان واقعی تبدیل ہو گیا ہے، میں اُس تبدیلی کی قطعاً بات نہیں کر رہی جو چار سال پہلے باقاعدہ لائی گئی تھی بلکہ گذشتہ صرف چند ماہ میں پاکستان میں وہ تبدیلی آئی ہے جو شاید کبھی کسی نے سوچی نہ تھی۔

آج سے چار سال قبل پاکستان میں طاقت کا مرکز پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ تھی۔

فیصلے اُن کی مرضی اور اُن کی ایما پر ہو رہے تھے۔ معیشت ہو یا سیاست، صحافت ہو یا معاشرت اس پر کہیں براہ راست اور کہیں بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ اثر انداز ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ اگست 2018 میں ایک بظاہر سیاسی جماعت آشیرباد سے پاکستان کی حکمران بنی اور اگر سیاسیات کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بظاہر سیاسی جماعت ایک فرقہ اور اب ایک ایسا پریشر گروپ بن چکی ہے، جسے ایک نئی اسٹیبلشمنٹ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف نے وہ کام کیا ہے جو اس سے قبل نہ کوئی سیاسی جماعت کر سکی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ۔ تحریک انصاف طاقت کا مرکز کیسے بنی اس کا جائزہ لینا بےحد ضروری ہے۔

مارچ سے کہیں پہلے یا یوں کہیے کہ 2018 کے انتخابات کے فوری بعد اپوزیشن جماعتیں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا عہد کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ اس دوران نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خورشید شاہ، خواجہ آصف، سعد رفیق، احسن اقبال اور کئی ایک رہنما جیل میں قید کر دیے گئے۔

خواہش تھی یا مطالبہ لیکن قومی اسمبلی کی فرنٹ کی دو صفیں خالی کر دی گئیں تاکہ من مانے فیصلے کیے جائیں، بدعنوانی کا بیانیہ مضبوط کیا جائے اور اسمبلی کے اندر کسی قسم کے دباؤ کا سامنا نہ ہو۔

پاور مینجمنٹ کے پہلے مرحلے سے پہلے ہی یعنی الیکشن سے قبل میڈیا مینجمنٹ ہو چکی تھی۔

سچ کہنے والے یا دوسری طرف کے بیانیے کو بھی متوازی وزن دینے والے صحافیوں، میڈیا کے اداروں کو یا تو سبق سکھایا جا چکا تھا یا اُنھیں مسلسل دباؤ کے زریعے کنٹرول کیا جا چکا تھا۔

سوشل میڈیا کے محاذ پر ففتھ جنریشن وار فیئر اپنی ہی سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کے خلاف لانچ کی جا چکی تھی۔ غرض یہ کہ طاقت کے تمام مراکز عدلیہ، میڈیا اور پارلیمان کو کنٹرول میں لایا جا چکا تھا اور یوں ایک سٹیج بنا دیا گیا کہ عمران خان بغیر کسی دشواری کے مملکت کے امور چلائیں۔

عمران خان

،تصویر کا ذریعہEPA

تقریباً ستمبر 2021 تک ادارے خان صاحب کی حکومت کے پیچھے کھڑے تھے اور پھر وہ سب ہوا جس کا شکوہ حال ہی میں خان صاحب نے کیا یعنی سردیاں گزرنے بھی نہ دیں اور اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو اُن کی منشا کے بغیر تبدیل کر دیا گیا۔

اداروں نے بھانپ لیا تھا کہ معاشی اعتبار سے پاکستان کہاں کھڑا ہو گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ادارے کے اندر مداخلت اور من مانی کے فیصلوں نے ادارے کو چونکا دیا تھا۔۔۔ بس یہیں سے خود کو الگ کرنے اور اُس کے بعد نیوٹرل ہونے کے عمل کا آغاز ہوا۔

مشکل سے سانس لیتی سیاسی جماعتوں اور جمہوری قوتوں کو سانس لینے کی آزادی ملی تو آئینی طریقے سے حکومت ختم کرنے کی کوشش کی گئی جو بارآور ہوئی اور خان صاحب کو گھر جانا پڑا۔

مارچ سے اب تک کی صورتحال کافی دلچسپ اور پروپیگنڈہ پڑھنے والے طالبعلموں کے لیے حیران کُن ہے۔

جمہوری سیاسی جماعتیں جنھیں ایک فاشسٹ نظام گرانے کا موقع ملا وہ اس کامیابی کو مزید کامیابی میں بدلنے میں ناکام کیوں ہیں؟ وجہ عمران خان کا پروپیگنڈہ ہے یا غلط ہونے کے باوجود مقبول ہوتا بیانیہ تو اس کا سہرا عمران خان سے کہیں زیادہ حکومتی اتحاد کو جاتا ہے۔

ذرائع بتا رہے ہیں کہ معاشی صورت حال سے کافی حد تک گھبرا جانے والی ن لیگ فوری انتخابات میں جانا چاہ رہی تھی تاہم ایم کیو ایم مردم شماری اور حلقہ بندیوں سے قبل انتخابات میں جانے کو تیار نہیں بلکہ سخت فیصلوں کے لیے بھی تیار ہے۔

پیپلز پارٹی بھی اصلاحات سے قبل انتخابات پر راضی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں سات سے آٹھ ماہ تک انتخابات کے امکانات کو مسترد کیا تھا۔

موجودہ حکومت کا عوام کو سابقہ حکومت کی معاشی بدانتظامی سے آگاہ کرنا مقصود ہے لیکن یہ سب تب ہو گا جب سیاسی حکومت اعتماد سے آگے بڑھے گی کیونکہ اب اوکھلی میں سر دے دیا گیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈرنا۔۔

معاشی بحران شدید تر ہے لیکن کیا ذمہ داری صرف حکمران اتحاد کے کندھوں پر ہے؟

غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ چلمن میں چھپ کر سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر بوجھ لاد نہیں سکتی۔ اگر یہ حکومت بھی گر گئی تو نظام گرنے کا خدشہ ہے۔ نیوٹریلٹی برقرار رکھتے ہوئے کہیں نہ کہیں تو ذمہ داری لینا پڑے گی اور حکمران اتحاد کو بھی سخت مگر سیاست سے بالاتر فیصلے کرنا ہوں گے۔

گزشتہ چند ماہ میں آئین کی سربلندی کے لیے فوج اور عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا ہے ان اداروں کو اپنے کردار میں رہتے ہوئے آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہیں۔

شہباز کو اب پرواز کے لیے پَر نہیں مگر دَم چاہیے۔ عمران خان دباؤ بڑھا رہے ہیں اور عدلیہ، مقتدر حلقے، نئی حکومت، میڈیا جس طرح اس وقت دباؤ کا شکار ہیں، خدشہ ہے کہ تحریک انصاف کی دی گئی ڈیڈ لائنز پر سرنڈر نہ کر جائیں؟ تو کیا یہ تاثر درست ہے کہ پاکستان میں نئی اسٹیبلشمنٹ جنم لے چکی ہے اور وہ ہے تحریک انصاف؟

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author