حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلم مزدور ( معروف صحافی ) سہیل احمد قیصر سے برسوں سے شناسائی ہے۔ اس شناسائی کا آغاز لاہور پریس کلب میں تب ہوا جب پریس کلب مال روڈ پر ’’دیال سنگھ مینشن‘‘ میں ہوا کرتاتھا۔ اب بھی کبھی کبھار پریس کلب کا چکر لگے تو ان سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ سہیل احمد قیصر نے گزشتہ روز لکھا ’’ہم نے 2019-20ء میں 13.074ارب ڈالر کا قرضہ لیا اور اس میں سے 11.075ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیا جبکہ مالی سال 2020-21ء میں 13.301 ارب ڈالر قرضہ لیا جس میں سے 8.388 ارب ڈالر کا قرضہ واپس لیا۔ مجموعی واجب الادا بیرونی قرضہ تقریباً 115ارب ڈالر ہے‘‘۔ انہوں نے سوال اٹھایا قرضہ واپس کرنے کا انتظام کیا ہے؟ سہیل احمد قیصر کا حالیہ کالم سری لنکا کی موجودہ صورتحال کے پس منظر میں ہے۔
خیر ہم آگے بڑھتے اور اپنی بات کرتے ہیں ، دیوالیہ شدہ سری لنکا میں جہاں مشتعل مظاہرین عمارتیں جلارہے ہیں۔ سوموار کو مظاہرین نے مستعفی ہونے والے وزیراعظم کا ذاتی گھر بھی جلادیا۔ ایک رکن پارلیمان نے اپنے گھر کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خوف سے فائرنگ کرکے چار مظاہرین کو قتل کیا اور پھر خود کو گولی مارلی۔ رکن پارلیمنٹ بھی موت کا رزق ہوا۔
یہ اسی سری لنکا کا تازہ احوال ہے جس نے تامل ٹائیگر کی طویل انحرافی جدوجہد کو عشروں کی محنت سے ناکام بنایا۔ ایک لحاظ سے یہ خطے میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا ملک ہے۔ شاید ہی اب سری لنکا کا کوئی شہر ایسا وہ جہاں جلتی عمارتوں سے آگ کے شعلے اور دھواں نہ اٹھ رہا ہو۔
ادھر دو دن سے سوشل میڈیا پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے اشارے دیئے جارہے ہیں۔ کچھ کے خیال میں ہم دیوالیہ ہونے کے دو قدم پر کھڑے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس مقام عبرت پر ہمیں (پاکستان کو) جناب عمران خان کی ناتجربہ کار، بڑبولی اور بدزبان تبدیلی سرکار نے لاکھڑا کیا ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ شہباز شریف کو دیوالیہ کا باضابطہ اعلان کرانے کے لئے ہی اقتدار میں لایا گیا ہے۔ ایک مختصر سا طبقہ بھی ہے جو کہہ رہا ہے’’یار خدا کے لئے اچھے بول بولو لکھو‘‘۔ مگر کیا انتہائوں میں تقسیم معاشرے میں اچھے بول بولے لکھے جاسکتے ہیں؟
سری لنکا کیوں ڈیفالٹ کرگیا؟ یہ مشکل سوال نہیں ہے۔ سادہ سا جواب ہے کہ ظاہری لش پش جتنی مرضی ہو نظام عصری شعور اور ضرورتوں کے مطابق استوار نہ ہو تو بدنصیبی بتاکر نہیں آتی۔ سکیورٹی اسٹیٹ کا انجام یہی ہوتا ہے۔
سری لنکا کو سکیورٹی اسٹیٹ کی طرف جانے پر تامل ٹائیگر کی انحرافی جدوجہد نے مجبور کیا تامل ٹائیگرز کے پیچھے دنیا کی عظیم جمہوریہ بھارت کا سیاہ کردار روز روشن کی طرح عیاں تھا اور ہے۔ ہم ان سطور میں بھارت کے سیاہ کردار (سری لنکا کے حوالے سے) پر بات کرنے کی بجائے اس پر غور کرتے ہیں کہ فی الوقت ہم (پاکستان) کہاں کھڑے ہیں۔
اس سوال پر غور وفکر اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم بھی تو سکیورٹی سٹیٹ میں جی بس رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ سری لنکا تامل ٹائیگر کو شکست دینے کے لئے سکیورٹی سٹیٹ بنا، ہمارے یہاں روز اول سے لادین سرخ ریچھ سوویت یونین کے خلاف اہل کتاب کا ساتھ دینے کی سوچ کارفرما تھی۔
آپ چار بار ہوئی فوجی مداخلتوں اور ان کی حکومتوں کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے۔ جواب آسانی سے سمجھ آجائے گا۔ سکیورٹی سٹیٹ میں دو المیے ہوتے ہیں اولاً یہ کہ اس میں طبقاتی نظام ہوتا ہے آپ اسے طبقاتی جمہویرت کہہ کر جی بہلانا چاہیں تو بسم اللہ۔ یعنی عوام کا حق حکمرانی مانا تو جاتا ہے دیا نہیں جاتا۔ عوام ووٹ دیتے ہیں مگر شخصیت پرستی کے اسیر غلاموں کی طرح۔
دوسرا المیہ یا کج یہ ہوتا ہے کہ اس ریاست میں بیرونی امدادوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ یاد رکھئے میں بیرونی امدادیں عرض کررہا ہوں قرضے نہیں۔ ویسے ہم قرضوں کا حساب بھی طلب نہیں کرسکتے۔
اپنے کسی دوست عزیز رکن قومی اسمبلی کو کہہ کر دیکھ لیجئے کہ وہ صرف یہ سوال ایوان میں پوچھے کہ پچھلے 75برسوں میں امریکہ نے ہمیں جو مجموعی امداد دی اس کا حساب کیا ہے ان امدادوں میں افغان پالیسی کی کمائی بالائی آمدنی، لاجسٹک سپورٹ فنڈ کی رقم وغیرہ سب شامل ہے۔ ہوسکے تو ضمنی سوال یہ بھی پوچھ لیجئے کہ نام نہاد افغان جہاد کے برسوں میں یورپی ممالک اور عرب دنیا نے جو مالی معاونت کی اس کا کُل حساب کیا ہے؟
لکھ کر رکھ لیجئے کہ اس سوال کا جواب نہیں ملے گا، کیوں؟ اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم رعایا ہیں عوام نہیں۔
پچھتر برسوں میں 115ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ لیا ہمارے صاحبان اقتدار نے۔ ہم بنیادی طور پر زرعی معیشت والی مملکت کے باشندے ہیں لیکن ہماری زراعت کا حال کیا ہے امسال ہدف سے 13لاکھ گانٹھیں کاٹن کم پیدا ہوئی ہے۔ پچھلے تقریباً 10برسوں سے ہم ہر سال 7 سے 8 ارب ڈالر کی کاٹن عالمی منڈی سے خرید رہے ہیں۔
10برس قبل کا حساب نکلواکر دیکھ لیجئے ہم کاٹن کی اپنی کل پیداوار کا کتنا حصہ فروخت کرتے تھے۔ کاٹن کی وافر پیداوار کی وجہ سے ہی تو دھڑادھڑ ٹیکسٹائل ملیں لگائی تھیں اب ان کی ضرورت بھی پوری کرنی ہے۔ کاٹن والے زرخیز علاقے میں شوگر ملیں لگائی گیئں۔
کس نے اجازت دی۔ منافع کی ہرص کے مارے بالادست طبقات کو اجازت دینے اور لینے کی کیا ضرورت ہے۔ امسال 48لاکھ ٹن گندم کم پیدا ہوئی کیوں یہ پھر ایک سوال ہے۔
1960ء کی دہائی سے ہم نے زراعت سے منہ موڑ کر انڈسٹری لگانے کی طرف رخ کیا۔ بلاشبہ انڈسٹری لگنی چاہیے تھی مگر ہماری صنعتی پالیسی عدم توازن کا شکار رہی۔ایک زرعی معیشت والے ملک میں صنعتی پالیسی بنانے اور عمل کے مراحل میں زمینی حقائق حال و مستقبل کی ضرورتوں اور دیگر معاملات کو جس طرح مدنظر رکھا جانا چاہیے تھا نہیں رکھا گیا۔
صنعتی عمل میں ماحولیات کے مسئلہ کو نظرانداز کیا، بے ہنگم انداز میں بڑھتی آبادی جن خطرات کو تیزی سے بھگاتے ہوئے ہماری طرف لارہی تھی انہیں بھی یکسر نظرانداز کیا۔
آپ اپنے مالدار طبقات کو رہنے دیں ذرا بیوروکریسی کے لچھنوں پر تو غور کریں ان کے دفاتر، مہیا کردہ سہولتیں، قیام گاہیں، خود ان کے برتائو کسی ایک میں انسانیت، دردمندی، ایثار کی جھلک دیکھائی دے تو ہمیں ضرور آگاہ کیجئے گا۔
معاف کیجئے گا میری عمر 64سال ہوگئی ہے بیماری دل کے ساتھ ایک دور بیماریاں اور بھی ہیں اس لئے سول بیوروکریسی پر ہی سوال اٹھایا ہے۔ "دوسری” بیوروکریسی پر نہیں جو خود کو اس ملک کا مالک و مختار سمجھتی ہے۔
ہم اس کے اخراجات اور دوسرے معاملات تو کیا صرف اس پر سوال نہیں اُٹھاسکتے کہ ڈیفنس پنشن سول بجٹ کا حصہ کیوں ہے یہ دفاعی بجٹ کا حصہ کیوں نہیں؟ (ویسے یہ ظلم کمانڈو صدر پرویز مشرف کے وزیر خزانہ جو بعد میں وزیراعظم بھی رہے شوکت عزیز نے ڈھایا تھا) یہ سوال بھی نہیں پوچھا جاسکتا کہ افغان پالیسی کی ’’محافظت‘‘ اور پھر انسداد دہشت گردی کی مہم پر مجموعی اخراجات کتنے آئے۔
نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے بس رہی ہے ہم آئے روز میزائل تجربے پھڑکاتے ہیں یہ سوال اس لئے نہیں پوچھے جاسکتے کہ حب الوطنی بھرشٹ ہونے کا خطرہ ہے۔
باردیگر معذرت خواہ ہوں۔ مکرر عرض ہے ہم پر بیرونی قرضہ 115ارب ڈالر ہے۔ ہماری صنعتوں کا پیداواری عمل جس بدحالی کا شکار ہے اس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ درآمدات و برآمدات عدم توازن کا شکار ہیں۔ توانائی کا بحران ہے۔ تبدیلی کے جھٹکے اگلے کئی عشروں تک محسوس کئے جائیں گے۔ اگر دیوالیہ ہونے اور مرنے سے بچ گئے تو
زراعت تباہ ہے۔ ریاستی و غیرریاستی اخراجات میں کمی کرنے پر ہم تیار نہیں۔ تقسیم (میں اسے بٹوارہ کہتا ہوں) سے ملا دشمن پالنے کے لئے بھی اخراجات درکار ہیں۔
کبھی کبھی تجربوں کا شوق بھی چراتا ہے ویسے تجربوں کے سوا ہم نے کچھ کیا بھی تو نہیں۔
کیا یہ سارے مسائل صبروشکر سے حل ہوسکتے ہیں؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔ صبروشکر اپنی جگہ، عملیت پسندی اور حقائق کا سامنا کرنا ہمارے آج کی ضرورت ہے۔
آپ غور ضرور کیجئے گا کہ کیا ہم ویسے ہی حالات کی طرف تو نہیں بڑھ رہے جس سے سری لنکا دوچار ہے۔
خاکم بدہن کہہ دینے سے حقائق تبدیل ہوسکتے ہیں تو خوشی سے کہہ لیجئے لیکن دیوار پر لکھی حقیقت سے کتنی دیر آنکھیں چرائیں گے؟
سادہ لفظوں میں تلخ بات یہی ہے کہ ہم سبھی، ریاست، حکومت، بڑے طبقات اور رعایا سب کو اپنے لچھن تبدیل کرنا ہوں گے ورنہ، پھر سری لنکا تو ہے ہی۔
اے وی پڑھو
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ
فیمینسٹ!!!۔۔۔۔۔|| ذلفی