حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گزرنے اولے دن کے ساتھ امریکی سازش ’’ رجیم چینج ‘‘ والی کہانی ڈبہ فلم کی طرح پٹتی جارہی ہے اور کسی کے نہیں بلکہ خود عمران خان کے ہاتھوں مگر ان کے حامی ہیں کہ امریکی سازش کے بیانیہ پر سر دھنتے ہوئے انقلاب لانے پر بضد ہیں۔
خان صاحب نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’مجھے جولائی 2021ء میں ہی معلوم تھا کہ اپوزیشن میری حکومت کو گرانا چاہتی ہے اسی لئے میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے چیف جنرل فیض حمید کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میری خواہش تھی وہ سردیوں تک چیف رہیں‘‘۔
خان صاحب جولائی 2021ء میں اپوزیشن کی جن سرگرمیوں بارے جانتے تھے یہ ظاہر ہے کہ ’’فیض و کرم‘‘ کا نتیجہ تھا۔ خفیہ ایجنسی کی یہی ’’ذمہ داری‘‘ ہے کہ وہ سیاسی اتھل پتھل کے لئے ہوئی کوششوں سے وزیراعظم کو آگاہ کرے۔
وزیراعظم سردیوں تک ایجنسی چیف کو کیوں اس منصب پر فائز رکھنا چاہتے تھے؟ یہ خفیہ راز نہیں کہ چراغ الہ دین لائیں رگڑیں اور جن سے جواب چاہیں۔
یہاں دو سوال اہم ہیں اولاً یہ کہ جب خان صاحب پچھلے برس جولائی سے حکومت گرانے کے لئے اپوزیشن کی کوششوں سے باخبر تھے تو یقیناً وہ من پسند ایجنسی چیف کو اسی لئے برقرار رکھنا چاہتے ہوں گے کہ وہ ان کے لئے ’’سامان حفاظت‘‘ کا بندوبست کریں؟
ثانیاً یہ کہ انہوں نے 7مارچ کو موصولہ سفارتی کیبل کو 27مارچ کی شام امریکی سازش کے مبینہ ثبوت کے طور پر پیش کرکے ملک کی کیا خدمت کی؟
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ عمران خان کے دور اقتدار کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے گزشتہ روز دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ ’’سفارتی کیبل میں امریکی سازش اور دھمکی نہیں تھی‘‘۔
مکرر عرض ہے کہ اپنی ناتجربہ کاریوں، دشنام طرازی کی سیاست اور اوئے توئے کے کچے پکے راگوں کے نتائج ان کے سامنے تھے۔ آئی بی انہیں فروری کے وسط میں بتاچکی تھی کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لارہی ہے اس کی کامیابی کے امکانات سوفیصد ہیں۔ حکومت کی بدترین کارکردگی سے پریشان عمران خان نے امریکی سازش اور دھمکی والا پتہ کھیلا۔
اس کھیل میں شاہ محمود قریشی، بابر اعوان، فواد چودھری اور اسد عمر ان کے ہمراز و مددگار تھے۔ ہمارے ہاں امریکہ مخالف چورن خوب فروخت ہوتا ہے۔
اتنا منافع بخش دھندہ ہے یہ کہ ایک بڑے طبقے کے رہنمائوں کی پچھلے 43برسوں سے روٹیاں اور موجیں لگی ہوئی ہیں اس طبقے کے لوگ اور ایک جماعت خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
معاملہ صرف عمران خان کے گزشتہ روز والے انٹرویو تک محدود نہیں وہ خود بھی اس سے قبل ایک سے زائد بار امریکی سازش اور دھمکی سے ہٹ کر باتیں کرچکے۔ ان کے متعدد وزراء بھی اپنے انٹرویوز میں صاف صاف کہتے دیکھائی دیئے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ہماری حکومت کے درمیان پیدا ہونے والی بداعتمادی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنی۔
اب آیئے اس طرف کہ کیا امریکہ نے خان کی حکومت کو گرانے میں دلچسپی لی، کوئی سازش کی، کیا بیرون ملک سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو کوئی فنڈنگ ہوئی جیسا کہ عمران خان الزام لگاتے رہے؟ سوال یہ ہے کہ عمران خان نے امریکہ کا بگاڑا کیا تھا ، انہوں نے پاکستان اور خطے میں امریکی مفادات کو ایسا کیا نقصان پہنچایا کہ امریکہ ان کی حکومت کا ’’پیاسا‘‘ ہوجائے؟
مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر عمران خان نے ٹرمپ حکومت کی خواہش کے مطابق عمل کیا جبکہ کشمیر پر پاکستان کی روز اول سے بنی پالیسی تو اس امر کی متقاضی تھی کہ جونہی بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتا پاکستان سیاسی اور سفارتی طور پر دنیا بھر میں اودھم مچادیتا۔ لیکن 5اگست 2019ء کے بعد ہمارے یہاں کیا ہوا؟ جو ہوا وہ ریکارڈ پر ہے
اسی دورہ امریکہ سے واپسی پر (جس میں انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے لئے پسندیدگی کے جذبات کا اظہار کیا) انہوں نے کہا مجھے ایسا لگتا ہے کہ دورہ امریکہ سے واپس نہیں آرہا بلکہ دوسرا ورلڈ کپ جیت کر آرہا ہوں۔
افغانستان سے امریکی انخلاء کے مرحلہ میں ان کی حکومت نے ہر وہ کام اور تعاون کیا جو امریکی چاہتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جس شخص کو قومی سلامتی کا مشیر بنایا ڈاکٹر معید یوسف کو وہ امریکی کانگریس کے ایک منظور شدہ ادارے میں جنوبی ایشیا کے لئے نائب صدر تھے۔ کیا امریکی کانگریس کے منظور شدہ ادارے میں اہم منصب پر فائز شخص کسی سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر ایک ریجن کے لئے نائب عہدیدار بن گیا تھا؟
ان کے مشیروں بالخصوص وہ مشیر جو ان کی کچن کابینہ سمجھے جاتے تھے میں اکثریت غیرملکی شہریوں یعنی دوہری شہریت والوں کی تھی۔
دوہری شہریت سے متعلق قوانین کیا کہتے ہیں۔ کیا دوسری شہریت کے لئے اٹھایا گیا حلف پچھلی شہریت پر بالادستی نہیں رکھتا؟ حقیقت یہ ہے کہ نئی شہریت کا حلف قانونی حیثیت رکھتا ہے آبائی ملک کی شہریت کے مقابلہ میں ایک ایسا شخص جو ایک سفارتی کیبل کو سازش اور دھمکی آمیز خط کے طور پر پیش کررہا ہے اس نے اہم منصب دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو کیوں دیئے۔
عمران خان، جنرل فیض حمید کو کیوں دسمبر 2021ء تک اس منصب پر فائز رکھنا چاہتے تھے۔ کیا محض اس لئے نہیں کہ وہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں ان کی مدد کریں گے؟
یہاں ایک اور بات بڑی اہم ہے وہ یہ کہ عمران خان تو اگست 2021ء سے اٹھتے بیٹھے نئے ارٓمی چیف کی تقرری کے حوالے سے اپنی پسند کا اظہار کررہے تھے۔ کیا یہ سنجیدہ رویہ تھا یا بچوں والی خواہش؟
لاریب تقرری ان کا دستوری حق تھا مگر لگ بھگ ڈیڑھ سال قبل اشاروں کنائیوں میں اس کے ذکر کی ضرورت کیا تھی؟ اس کی ایک وجہ دونوں حضرات کا خودپسند و خودسر ہونا ہے اور دوسری وجہ افغانستان ہے دونوں کو افغان طالبان کا نجات دہندہ بننے کا شوق چین نہیں لیتے دے رہا تھا۔
خان صاحب تو مسئلہ کشمیر پر دیرینہ قومی موقف سے پیچھے ہٹنے کو افغان پالیسی یا سوچ میں چھپاکر پیش کرنے میں مصروف تھے۔ دوسرے محترم کیا چاہتے تھے؟
جو وہ چاہتے تھے اس چاہت سے قبل انہوں نے اپنے محبوب کردار کے جلال آباد ایڈونچر کے انجام کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔
عمران خان کے دور اقتدار کے حوالے سے پروپیگنڈہ کچھ بھی رہا ہو حقیقت میں یہ معاشی تباہی کا دور تھا۔ ان کے دور میں غربت کی لکیر سے نیچے آباد افراد کی تعداد میں 2کروڑ لوگوں کا اضافہ ہوا۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کم سے کم سوفیصد تو صاف سیدھا اضافہ ہوا۔ امریکی سازش سے بروقت آگاہ ہونے والے وزیراعظم کو ڈالر کی قیمت میں اضافہ کا ٹی وی سے پتہ چلتا ہے۔ انہیں اب چیف الیکشن کمشنر برا لگتا ہے ماضی میں کہتے تھے ایماندار بندہ ہے۔
یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک تھا اس موقع پر اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں یہ نام دیا ہم نے قبول کرلیا۔ واہ سبحان اللہ، چیف الیکشن کمشنر کا نام دینے والے کو کسی تاخیر کے بغیر حلف کی خلاف ورزی کے جرم میں گھر کیوں نہ بھیجا؟
27مارچ سے وہ امریکی سازش کا چورن بیچ رہے ہیں، درمیان میں وہ ہر تیسرے دن ایک نئی بات کہتے ہیں، پاکستانی معاشرے کے رائے دہندگان میں سے 30فیصد نے انہیں 2018ء الیکشن میں ووٹ دیا یہ سب سے زیادہ انفرادی جماعتی ووٹ تھا۔
انہوں نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی مگر پروپیگنڈہ یہی کروایا خان تنہا ہے اور ڈٹ کے کھڑا ہے۔
ادویات سکینڈل پر کرپشن کے الزام میں جس وزیر صحت عامر کیانی کو نکالا بعد میں اسے پارٹی میں اہم عہدہ دے دیا۔ ادویات سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ کہاں ہے؟
محکمہ ڈاکخانہ جات اور حبیب بینک کے درمیان ہوئے معاہدہ پر جنم لینے والے تنازع کی انہوں نے خود تحقیقات فرمائی تھیں وہ رپورٹ کہاں ہے؟
کیا بدقسمتی ہے کہ جس امیدِ مسلم امہ کو ہٹانے کے لئے امریکہ نے سازش رچائی وہ اب اٹھتے بیٹھتے اپنی اہلیہ کی ایک سہیلی کے وکیل صفائی کے طور پر وضاحتیں دے رہا ہے۔
خود کو ایماندار اور محب وطن ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنے ہر مخالف اور ناقد کو چور اور غدار قرار دیا اب بھی دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان چوروں کو وہ پونے چار برسوں میں سزائیں کیوں نہیں دلواسکے؟
حرف آخر یہ ہے کہ وہ اپنی ہمہ قسم کی ناکامیوں اور کمزوریوں کا انتقام لینے پر بضد ہیں۔ جس تصادم کی طرف وہ بڑھ رہے ہیں اس میں نقصان سب کا ہوگا وہ غور کریں تو سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر