نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مشیر ہی مرواتے ہیں۔۔۔||رؤف کلاسرا

سارا کھیل مشیروں کا ہے۔ مشیر ہی آپ کو اکبر بادشاہ کی طرح پچاس سال حکومت کراتے ہیں اور مشیر ہی ساڑھے تین سال بعد وزیراعظم ہاؤس سے آپ کو کندھوں پر بٹھا کر باہر سڑک پر چھوڑ جاتے ہیں کہ شاباش اب دوبارہ صفر سے شروع کرو اور لگے رہو۔ رام بھلی کرے گا۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچتا ہوں اکبر بادشاہ کی کس نے ہندوستان پر پچاس برس حکمرانی کرنے میں مدد کی جبکہ عمران خان پانچ برس بھی پورے نہ کرسکے؟دونوں میں کیا فرق تھا؟ایک ہی خطہ‘ایک جیسے لوگ اور ایک جیسے مسائل۔آپ سب کہیں گے ایک قدیم بادشاہ اور جمہوری وزیراعظم کے مابین کیا بیوقوفانہ موازنہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ پانچ چھ سو سال پہلے کے ہندوستان اور آج کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔آپ ذرا تصور کریں بارہ سالہ اَن پڑھ بچہ اکبر جب باپ ہمایوں کی موت کے بعد ہندوستان کا بادشاہ بنا تو کس نے سوچا ہوگا کہ وہ پچاس سال حکومت کرکے اس اجنبی دھرتی پر مغلوں کا اقتدار مضبوط کرے گا۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جمہوریت ہو یا بادشاہت‘ انسانوں پر حکومت کرنا ہرگز آسان نہیں۔ انسان کب پسند کرتے ہیں کہ ان پر انہی جیسا حکومت کرے‘ حکم چلائے اور وہ سر جھکائے کورنش بجا لائیں۔ کچھ لوگ حکمران بن جائیں تو بھی انہیں گرانے کے لیے سازشیں کی جاتی رہیں گی‘ دربار میں سازشیں ہوں گی یا ان کے خان اور ملک اور دیوان بغاوتیں کریں گے تاکہ وہ اس بادشاہ کی جگہ لے سکیں۔دنیا کا سب سے بڑا نشہ انسانوں پر حکومت کرنا ہے۔ یہ واحد نشہ ہے جسے پورا کرنے کیلئے لوگ پھانسی گھاٹ پر لٹک جاتے ہیں‘قتل ہو جاتے ہیں اور کر بھی دیتے ہیں‘ برسوں جیلوں میں گزار دیتے ہیں‘ جلاوطنی قبول کر لیتے ہیں لیکن انسانوں پر حکومت کرنے کا نشہ ضرور پورا کرتے ہیں اور اس وقت تک کرتے رہتے ہیں جب تک وہ ختم نہ ہو جائیں یا ختم نہ کر دیے جائیں۔
اکبر بادشاہ کو پچاس برس حکومت کرانے والے اس کے نورتن تھے اور عمران خان کے زوال کے ذمہ دار بھی ان کے دو تین رتن تھے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے عمران خان کی لاہور میں ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات بہت سے حلقوں میں نئے تنازعے کا سبب بنی ہے۔ نواز لیگ تنقید کرتی رہی ہے کہ ثاقب نثار نے عمران خان کو کلین چٹ دی اور نواز شریف کو تاحیات نااہل کر دیا گیا۔ اب اس ملاقات کے بعد یقینا نواز لیگ کو دونوں پر تنقید کا ایک اور موقع ملے گا۔خیر میں نے ثاقب نثار صاحب کو خود فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے اندر کا رپورٹر مجھے چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا تھا کہ پتا تو کروں آخر اس غیرمعمولی ملاقات میں کیا کچھ ڈسکس کیا گیا ۔
ثاقب نثار صاحب کی خوبی ہے کہ فون اٹھا کر بات کر لیتے ہیں۔ جب وہ چیف جسٹس آف پاکستان تھے تو اُس وقت بھی ان سے فون پر کبھی کبھار بات ہوجاتی تھی۔ وہ ہمارا پروگرام شاید کبھی کبھار دیکھ لیتے تھے‘ لیکن ہمارا پروگرام دیکھنے کا ہمیں یہ نقصان بھی ہوا کہ ایک دن انہوں نے مجھے‘عامر متین اور محمد مالک کو ایک پروگرام پر نوٹس دے کر سپریم کورٹ بلا لیا اور خوب رگڑا لگایا کہ ہمیں کیسے جرأت ہوئی کہ ان کے ایک کیس پر تبصرہ کریں۔خیر ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے فون پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ وہ کھلی ڈُلی بات کرتے ہیں اور پوری بات کرتے ہیں۔میں نے فون پر پوچھا: سرجی آج آپ کی خان صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ کیا باتیں ہوئیں؟میرا خیال تھا شاید وہ نہ بتائیں لیکن میں نے رپورٹر کے طور پر رسک لیا۔ انہوں نے دو تین باتیں آف دی ریکارڈ کہہ کر باقی پوری تفصیل آن ریکارڈ بتا دی۔بتانے لگے کہ خان صاحب کو احساس ہے کہ ان کے قانونی ‘ آئینی مشیروں نے انہیں درست مشورے نہیں دیے خصوصاً انہیں جو رائے سپیکر کی رولنگ پر دی گئی تھی وہ درست نہیں نکلی جس سے یہ سارا بحران پیدا ہوا۔ اب عمران خان چاہتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس انہیں کوئی نئی لیگل ٹیم بتائیں۔ کچھ وکیلوں کے نام بتائیں۔باقی باتیں کیا ہوئیں‘ انہیں کچھ دیر کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بڑی اہم بات ہے جو سابق چیف جسٹس نے بتائی کہ سابق وزیراعظم کو احساس ہے کہ انہیں ایڈوائزرز نے مروا دیا۔ مجھے یہ سن کر دو تین باتیں یاد آئیں۔
آصف زرداری نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ خان صاحب جن سے مشورے کر کے اپنی قانونی اور آئینی جنگ لڑ رہے ہیں ان میں سے دو تین لوگ تو ایسے تھے جو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے ذاتی دشمنی کیلئے مشہور ہیں اور وہ دراصل عمران خان کی ہمدردی میں اپنی دشمنی نکال رہے تھے‘ لہٰذا ان کے مشوروں پر چل کر عمران خان کا وہی حشر ہونا تھا جو ہوا۔مجھے ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر کی وہ سطریں یاد آگئیں کہ اپنے دشمن سے نفرت نہ کرو ورنہ تم اسے صحیح طور پر جج نہیں کر پائو گے اور مارے جائو گے۔دشمن کو بھی نیوٹرل آنکھ سے دیکھنا چاہیے تاکہ آپ اس کو درست پڑھ سکیں۔دوسری بات جو مجھے یاد آئی وہ وزیر اعظم عمران خان سے میری اور عامر متین کی وزیراعظم ہاؤس سے ان کی رخصتی سے دو دن پہلے کی ملاقات تھی جس میں عامر متین ان سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کل قومی اسمبلی اجلاس میں ایسا کون سا ترپ کا پتا پھینکنے جارہے ہیں جس سے پوری اپوزیشن بھاگ جائے گی؟عامر متین کا یہ سوال سن کر کافی دیر تک خان صاحب مسکراتے رہے ‘ چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا‘ اُن کے کسی مشیر نے ایسا مشورہ دیا تھا کہ کل اپوزیشن کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ عامر متین نے پھر پوچھا تو صاف لگ رہا تھا کہ خان صاحب اس مشورے کو ذہن میں رکھ کر انجوائے کررہے ہیں۔ عامر متین کو کہا: بس دیکھتے جائو میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ میرے پاس ایک بڑا زبردست کارڈ ہے جو ان سب کو اڑا کر رکھ دے گا۔یقینا یہ وہی مشورہ تھا کہ سپیکر کی رولنگ کے ذریعے پوری اپوزیشن کو ملک دشمن قرار دے کر اور تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے عمران خان فورا ًاسمبلیاں توڑ کر وزیراعظم کے طور پر کام جاری رکھیںگے ‘جب تک نگران حکومت نہیں بنتی اور نگران وزیراعظم کا نام بھی جلدی فائنل نہیں ہوگا‘ لہٰذا ایک آدھ ماہ اور نکل جائے گا اور یوں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کا کوئی چانس نہیں رہے گا اور حکومت الیکشن کرا کے جیت کر واپس آجائے گی۔عمران خان کو یہ مشورہ بہت پسند آیا تھا ۔ اب اس واقعے کے پندرہ دن بعد وہ سابق چیف جسٹس کے سامنے اعتراف کررہے تھے کہ انہیں غلط مشورہ دیا گیا کہ سپیکر سے رولنگ دلوا کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔ اب جب سب کچھ ہوچکا ہے تو انہیں احساس ہورہا ہے کہ شاید زرداری صاحب نے خان صاحب کو ان کے جوشیلے مشیروں کے بارے درست کہا تھا کہ وہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی دشمنی میں انہیں مروا دیں گے۔
اب خان صاحب جب مڑ کردیکھتے ہیں تو انہیں شدت سے یہ احساس ہوتا ہوگا کہ انہیں براہ راست عدالت سے لڑا دیا گیا ۔ بات وزیراعظم پر توہین ِعدالت لگا کر گرفتار کر کے جیل بھیجنے تک پہنچ گئی‘سپریم کورٹ بھی رات گئے کھل گئی‘ قیدیوں کی وین بھی بلا لی گئی۔ عدالت نے سپیکر کی رولنگ مسترد کر کے اسمبلیاں بحال کر دی تھیں اور سپیکر کو پابند کر دیا تھا کہ وہ گیارہ اپریل کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پراسیس کرائیں۔
اب عمران خان لاکھ کہتے رہیں کہ ان کے مشیروں اور لیگل ٹیم نے انہیں مروا دیا‘ ان کے مشیر بڑے سیانے تھے کہ وہ خان صاحب کووہی مشورہ دے رہے تھے جو وہ سننا چاہتے تھے۔ یہ ذمہ داری عمران خان کو لینی پڑے گی کہ انہوں نے اپنے گرد وہی لوگ اکٹھے کئے جو ان کی طرح شریف اور زرداری سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ ان کے گرد سیاسی اپروچ رکھنے والے کم لوگ تھے۔وہ سب اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ قومی اسمبلی کو ہی اڑا دیتے ہیں۔ اسمبلی کو اڑاتے اڑاتے خان صاحب اور ان کے سیانے مشیر‘ سب اڑ گئے۔
سارا کھیل مشیروں کا ہے۔ مشیر ہی آپ کو اکبر بادشاہ کی طرح پچاس سال حکومت کراتے ہیں اور مشیر ہی ساڑھے تین سال بعد وزیراعظم ہاؤس سے آپ کو کندھوں پر بٹھا کر باہر سڑک پر چھوڑ جاتے ہیں کہ شاباش اب دوبارہ صفر سے شروع کرو اور لگے رہو۔ رام بھلی کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author