ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کی سیاسی صورتحال پر پوری قوم فکر مند ہے، تاہم ایک دو دنوں سے بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں مگر مسائل اب بھی زیادہ ہیں، وزیر اعظم میاں شہباز شریف ابھی وفاقی کابینہ تشکیل دینے کے مرحلے میں ہیں۔ پنجاب میں بھی سیاسی بحران ختم نہیں ہوا، گورنر عمر سرفراز چیمہ نے نومنتخب وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کا حلف لینے سے انکار کر دیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کیلئے سمری صدر مملکت کو بھجوا دی ہے۔
صدر اس سمری پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیںتاہم وہ اس سمری پر عمل کرنے میںکچھ روز تاخیر کر سکتے ہیں اور 15روز کے بعد صدر سمری مسترد کر کے وزیر اعظم کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔
دوسری طرف نومنتخب وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی طرف سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، انہوں نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کا بھی دورہ کیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کی خدمت کیلئے دن رات ایک کریں گے ۔ وسیب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے بھی ملاقاتیں کی ہیں، سب مبارکباد دے رہے ہیں مگر یہ جان کر افسوس ہوا کہ وسیب کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے نے ابھی تک وسیب کے مسائل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ تحریک انصاف جو کہ سرائیکی صوبہ بنانے اور سرائیکی وسیب کی محرومی کے خاتمے کی دعویدار تھی وہ بھی وسیب کے مسئلے پر خاموش چلی آ رہی ہے جس سے وسیب سے صوبے اور محرومی کے نام پر مینڈیٹ حاصل کرنے والوں کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے ۔
وسیب میں یہ سوال تواتر کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے کہ کرسی اور اقتدار کیلئے پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور دیگر جماعتیں ایک ہو سکتی ہیں تو سرائیکی صوبے کیلئے کیوں نہیں؟۔ اسمبلیوں سے استعفے نہ تو طریقہ کار کے مطابق دئیے گئے اور نہ ہی آئینی طریقہ کار کے مطابق قبول ہوئے، ابھی تک کسی ایک رکن اسمبلی کی بھی رکنیت ختم نہیں ہوئی۔ اگر اجتماعی استعفے دینے ہیں تو پھر قومی و صوبائی تمام اسمبلیوں سے استعفے آنے چاہئیں تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیلئے پی ٹی آئی کے امیدوارنے الیکشن بھی لڑا اور خیبر پختونخواہ میں بھی ان کی حکومت موجود ہے۔
کوئی شخص یونین کونسل کی چیئرمینی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ استعفوں کی سیاست سے گریز ہونا چاہئے نئے آنے والے حکمرانوں کے بارے میں پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک سنتا نہیں ، دوسرا سمجھتا نہیں، جو نہیں سمجھتا تھا وہ اب لندن میں بیٹھا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ یہ عوام کو کتنا ریلیف دیتے ہیں اور وسیب کی محرومیوں اور صوبے کے قیام کیلئے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں ۔
اب مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے ، پیپلز پارٹی بھی شریک اقتدار ہے۔عمران خان نے جو غلطیاں کیں ان میں 100دن میں صوبہ بنانے کے وعدے کے باوجود اقدامات نہ کرنا ، نا اہل مشیروں پر انحصار، ہر معاملے میں یوٹرن ، خارجہ پالیسی ، اعلانات کے برعکس غیر ملکی قرضے لینا ، آئی ایم ایف کی شرائط ماننا شامل ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ نئے حکمران ان غلطیوں سے کتنا سبق حاصل کرتے ہیں ۔ جہاں ملکی سیاسی صورتحال گومگوں کا شکار ہے وہاں دہشت گرد کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ گزشتہ چند روز میں پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، ان واقعات میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کو سرحد پار سے نشانہ بنایا جا رہا ہے،ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں بارہا افغان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ،دہشت گرد افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں کاروائیاں کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے ۔ دہشت گرد کارروائیوں کے تانے بانے بھی افغانستان سے ملتے ہیں، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی مگر صلے میں جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں نے فوجی قافلے پر حملہ کیا، فائرنگ کے تبادلے میں 7 سپاہی وطن پر قربان ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں 4 دہشت گرد مارے گئے۔
دہشت گردی کے واقعات سے سرائیکی وسیب کے اضلاع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان مسلسل متاثر ہوتے آ رہے ہیں۔ میں نے تقریباً دو سال قبل عمران خان کو خط لکھا تھا کہ صوبہ خیبرپختوانخواہ کے سرائیکی علاقہ جات ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور سرائیکی بولنے والوں کی نسل کُشی ہو رہی ہے، ان واقعات کا مقصد خطے میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر کے مقامی لوگوں کو اپنے قدیم وطن سے نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک سے دوسرے علاقوں میں منتقل بھی ہو چکے ہیں۔دہشت گردوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز آج تک نظر نہیں آئی ۔
سوال یہ ہے کہ وسیب کے لوگ کب تک بے بسی کی تصویر بنے رہیں؟میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ڈی آئی خاں و ٹانک میں ٹارگٹ کلنگ کا ایکشن لیا جائے اور خیبر پختونخواہ حکومت کو تنبیہ کریں کہ ڈی آئی خان و ٹانک میں رہنے والے افراد کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے، خوف و ہراس کی کیفیت کا خاتمہ کیا جائے تاکہ لوگ اپنا گھر اور اپنی دھرتی چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں۔ مگر افسوس کہ درخواست پر توجہ نہ دی گئی ، ایک ستم یہ بھی ہے کہ سابق دور میں ووٹ سرائیکی وسیب سے لئے گئے مگر ہمدردی وسیب کے مظلوموں کی بجائے ان سے رہی جن کے مظالم سے وسیب تنگ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کی تاریخی حیثیت کے مطابق اسے صوبے کا درجہ دیا جائے اور ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان اس میں شامل ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر