ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کے شیڈول جاری ہوئے ہیں جو کہ اچھی بات ہے مگر اس سے قبل ملکی سیاسی صورتحال کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے، مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کو چار دن گزرنے کے باوجود وفاقی کابینہ تشکیل نہیں دی جا سکی۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے 123پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کر لئے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا بھونچال ہے، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ اس بھونچال کا کس طرح سامنا کرتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں اب کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا ، اس بیان کا امریکی محکمہ خارجہ نے کا خیرمقدم کیا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں ، دوبارہ مذاکرات کریں گے ۔ عمران خان کا پشاور میں دھواں دھار خطاب اور سوشل میڈیا پر انتخابی مہم جاری ہے، پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کی حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا تھا مگر موجودہ حکومت کے آتے ہی چینی کے ریٹ میں 10روپے اضافہ کے ساتھ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اب اوگرا نے پٹرول ، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھانے کی سمری بھیجی ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر پی ڈی ایم کو نقصان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا ۔
اب ہم بلدیاتی انتخابات کی طرف آتے ہیں ، پنجاب میں بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے ، صوبے کے 36میں سے 17 اضلاع میں 9جون کو پولنگ ہو گی ۔ اسی طرح سندھ میں بھی بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کا شیڈول جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق 26 جون کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ ہو گی جبکہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، کاغذات نامزدگی 18 اپریل تک متعلقہ ریٹرننگ آفسروں کے پاس جمع کرائے جا رہے ہیں، کوئٹہ اور لسبیلہ کے علاوہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں پولنگ 29 مئی کو ہو گی ۔
خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو شکست اور جمعیت علمائے اسلام کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اب جنرل الیکشن بھی سر پر ہیں، ملک میں سیاسی بحران آیا ہوا ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کو سب سے زیادہ زور بنیادی جمہوریت یعنی بلدیاتی الیکشن پر دینا چاہئے مگر ہمیشہ سے دیکھتے آئے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جب بھی برسراقتدار آتی ہیں تو بنیادی جمہوریت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، بلدیاتی الیکشن میں غیر ضروری تاخیر کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں جو کہ کسی صورت درست نہیں۔
انتخابی عمل کو مکمل طور پر صاف شفاف اور غیر جانبدار بنانے کاکام لیکشن کمیشن کو کرنا ہوتاہے اور امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری پوری کر کے حکومت بھی اس کریڈٹ کی مستحق قرار پاتی ہے ، اسمبلیوں کے انتخابی عمل میں چونکہ سیاسی جماعتیں براہ راست شریک ہوتی ہیں اور انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیںاس لئے اس عمل کو صاف شفاف اور اور پر امن بنانے میں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی تعمیری کردار ادا کر کے جمہوریت کے فروغ اور استحکام میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی نام کی سہی ، جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے بنیادی جمہوریت کا گلا گھونٹا اور جب آمر برسراقتدار آئے تو انہوں نے پارلیمان کو ایک طرف رکھا ، البتہ بلدیاتی الیکشن کرا دئیے ۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمارے یہاں آج تک انتخابی عمل کو مکمل طور پر آزادانہ نہیں بنایا جا سکا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف شکست خوردہ امیدوار اپنی شکست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اسمبلیوں کے اندر بھی برسر اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کا عمل ایوان کے تقدس کو مجروح کرتا اور انہیں مچھلی بازار میں بدل دیتا ہے ۔
قانون سازی اور عوامی مسائل کا حل تاخیر و تعطل کا شکار ہو کر جہاں اسمبلیوں پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے اس لئے وہاں بعض عناصر کو جمہوری سیاست کی بساط لپیٹنے کا بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے ۔ اسی صورتحال کا نتیجہ تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ پاکستان کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ پاکستانی قوم جمہوریت کی اہل ہی نہیں ۔ سرائیکی وسیب میں صورت حال ازاں خراب ہے ، وجہ یہ ہے کہ یہاں جاگیردارانہ نظام قائم ہے، جہاں تک غیر جاگیردارانہ علاقوں مثلاً وسیب کے شہروں کا تعلق ہے تو وہاں برادری ازم کی وبا نظام کو ناکارہ اور کھوکھلا کرتی نظر آ رہی ہے ۔
حکومت کو انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار اداروں کو اس امر کا نہایت سنجیدگی سے احساس کرنا ہوگا کہ بلدیاتی اداروں کے صاف ستھرے انتخابات کا اثر نہ صرف اس نظام اور ملک کے استحکام پر پڑے گا بلکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بھی حکومتی یقین دہانیوں اور اعلانات پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا ۔
اس لئے ضروری ہے کہ ان بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن اور حکومت مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی کو روکنے اور اس کا مکمل تدارک کرنے کی ایک قابل تقلید مثال قائم کریں۔ بلدیاتی الیکشن میں نہ صرف سرائیکی وسیب بلکہ پورے پاکستان کے ووٹروں کا حق ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کی گذشتہ کارکردگی کو سامنے رکھیں اور آئندہ انتخاب کے وقت برادری ازم یا طبقے یا علاقے نوازی کو بالکل سامنے نہ رکھا جائے ۔ بلدیاتی امیدواروں سے اپنے وسیب اور اپنے علاقے کے حقوق کی بات بھی کی جائے اور ان سے مطالبات منواتے وقت تعلیمی اداروں کے وجود کو زیادہ اہمیت دی جائے ۔
وسیب کے جاگیردار ضلع ناظمین اور تحصیل ناظمین نے تعلیمی اداروں اور علمی لائبریریوں کے قیام کیلئے کوئی کام نہیں کیا ، ان سے اس مسئلے پر بھی باز پرس کی جائے ۔ ووٹ بڑا ہتھیار ہے اس کی طاقت بم سے زیادہ ہے وسیب کے لوگ اس کی اہمیت کا ادراک ضرور کریں جب وسیب کے لوگ ووٹ کی اہمیت سے آگاہ ہوں گے ، ان کا سیاسی شعور بیدار ہوگا تو پھر یہاں کوئی مائی کا لال ان کے حقوق غصب نہ کر سکے گا لہٰذا بلدیاتی الیکشن کے وقت ووٹ کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر