رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر معاملے پر غور کرنا اور ہر صورتِ حال پر سرکھپانا ضروری نہیں لیکن اگر زمین سے خلقت اُبل پڑے تو یہ سوچنے کا مقام ہے۔ یوں تو جلسے جلوس ہوتے رہتے ہیں، کبھی کسی شخصیت کے پیچھے پیچھے اور کبھی کسی کے بلاوے پر۔ لیکن اگر یہ سب نہ ہو، کوئی آگے آگے نہ ہو یا کسی نے آواز نہ دی ہو اور نہ پکارا ہو پھر بھی یوں ہو کہ جیسے زمین سے خلق خدا اُبل پڑی ہو تو لازم ہے کہ عقل کو کام میں لایا جائے اور سنجیدگی سے سوچا جائے کہ یہ سب کیوں کر ہوا اور اس کے پیچھے کون سے عوامل کام کر رہے تھے؟
لوگ بڑی سہولت سے کہہ دیتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے، یہ سنہ ستّر نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ وقت بدلنے سے کیا مراد ہے؟اصل میں کیا بدلا ہے۔ کیا ہوا جو پہلے نہیں تھا؟ عمرانیات کے طالب علم میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قوموں کے رویّے بد ل جاتے ہیں اگر آبادی میں عناصر کی شرح یا تناسب بدل جائے۔ مثلاً ہزاروں افراد نقلِ وطن کرکے آپ کے علاقے میں سکونت اختیار کرلیں تو آپ کے ہاں بہت کچھ بدل جائے گا۔ یا فرض کیجئے آپ کے ہاں آبادی کا بڑ ا حصہ اپنا عقیدہ یا مسلک تبدیل کر لے تو اجتماعی طرز عمل میں فرق آنے کا بہت امکان ہے۔ تو میرا اشارہ پاکستان کی طرف ہے جہاں حکومت کی تبدیلی کے خلاف یک لخت بڑ امجمع سڑکوں پر نکل آئے اور یہ طے کرنا مشکل ہوجائے کہ یہ کون لوگ ہیں جو یوں اٹھ کھڑے ہوئے؟ تب مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ آبادی کے تناسب میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ پرانے لوگ اپنے چلتے ہوئے نظام سے چمٹے رہنے ہی میں عافیت جانتے ہیں جب کہ نئی نسل اُس ولولے کی مالک ہوتی ہے جس کی معمر آبادی میں کمی ہوتی ہے۔سینہ تان کر یا مٹھیاں بھینچ کر اٹھ کھڑے ہونے والے جن لوگوں کے مجسمے بنائے جاتے ہیں، سارے کے سارے جوان ہوتے ہیں۔
اب میں اپنی بات ذرا مختلف لفظوں میں دہراتا ہوں۔میرا اشارہ معاشرے کے اجزائے ترکیبی کی طرف ہے۔اگر نسخے کی جڑی بوٹیاں بدل جائیں تو اس کی تاثیر بدلنا یقینی ہے۔ اگر بدلا ہوا گھی ہو تو اس کونکالنے کے لیے انگلی کارخ بدلنا ہوتا ہے۔آنکھ جوکچھ دیکھ رہی ہے، اس کو ہم متحر ک تاریخ کہہ سکتے ہیں۔سوچنا ہوگا کہ قوم نے اگرتین ساڑھے تین سال حکومت کی نالائقی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے بے حد تکلیف میں گزارے اوردامن پھیلا پھیلا کر حکومت کو بد دعائیں دیں تو پھر یہکیا ہوا کہ جب ایسی حکومت سے دامن چھڑا نے کا وقت آیا تو وہی ستم رسیدہ قوم اس کی حمایت میں کیوں کھڑی ہوگئی۔ جشن نجات کیوں نہیں منایا گیا، مٹھائی کیوں نہیں کھلائی گئی۔ لوگ خوش خوش اپنے گھروں میں کیوں نہیں بیٹھے رہے۔ وہ کون سی تدبیر تھی جو الٹی ہوگئی۔ وہ کون سی دوا تھی جوکچھ کام نہ کرسکی؟ سوچنے کا مقام ہے۔ خدا کے لیے کوئی یہ نہ کہے کہ ایک جذباتی لہر ہے، جیسے اٹھی ہے ویسے ہی بیٹھ جائے گی۔ وقت کا مرہم بڑی تاثیر رکھتا ہے۔ ایک ذرا سی خراش ہی تو آئی ہے، وقت کے ساتھ بھر جائے گی۔پھر بقول شخصے نیا سویرا آئے گا اور تین برس کے سارے دکھ دور ہوجائیں گے۔سوچنے والے یوں بھی سوچ سکتے ہیں کہ ایک ذرا سی خراش بھاری گھاؤ بھی بن سکتا ہے، ایک چھوٹا سا واقعہ بہت بڑا سانحہ بن سکتا ہے۔ ایسا سانحہ کہجس کی مرہم پٹی ابھی نہ کی گئی تو بھاری خسارہ ہو جائے گا، کاری گھاؤ لگے گا۔بڑے دکھ جھیلنے پڑیں گے۔اور نہیں معلوم حالات کیا شکل اختیار کریں گے۔ ہمیں اگر ماضی میں ایسے حالات سے نمٹنے کا تجربہ نہیں تو ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ پہلے کبھی او ر کہیں ایسی لہر اٹھی تو کیسی کیسی تدبیریں اختیار کی گئیں۔بس ماضی کی تدبیروں میں ایک نقص ہے۔ وہ پرانی اور فرسودہ ہو سکتی ہیں۔ وہ بدلے ہوئے مزاجوں اور رویّوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ نئی نسل انہیں جھٹک سکتی ہے اور اپنے کاندھوں پر سے اتار سکتی ہے۔ یہ سب چائے کی پیالی پر طے نہیں ہو سکتا۔ معاملہ گمبھیر ہو تو عقل کھپانے کی َضرورت ہے۔ ذرا مختلف انداز کی عقل، قدرے جدا طرز کی سمجھ بوجھ۔ جو نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو سکتی ہے۔
سیاست بڑی بے رحم ہو سکتی ہے۔ اس میں لگے بندھے حربوں کا کامیاب ہونا ضروری نہیں۔ اس میں پرانے شکاریوں کو نیا جال لانا پڑتا ہے۔ ڈرائنگ روم سے باہر نکل کر، گلی کوچوں میں حیران و پریشان مجمع میں گھل مل کر وقت کی نبض پر انگلی رکھنی ہوتی ہے۔ یہ کام مشکل ہے مگر کرنا پڑتا ہے۔اب دیکھتے ہیں کدھر کی ہوا چلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ مگر ہوا کا رخ دیکھنے کے طریقے ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ ہمارے بزرگ ہوا میں چٹکی بھر خاک اڑا کر دیکھا کرتے تھے۔ وہ بزرگ تہِ خاک ہوچکے۔ نئے زمانے کی خاک کا رخ دیکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لینی ہوگی، سوشل میڈیا کا سہار ا لینا ہوگا، ہتھیلی میں براجمان موبائل فون کے دوچار بٹن دبانے ہوں گے اور یہ سب نہ ملے تو گھر کے کسی ہونہار بچے کی رائے لینی ہوگی کیونکہ آج کے موبائل فون کو گھر کا ہونہار بچہ ہی چلا سکتا ہے، بزرگ حضرات زحمت نہ فرمائیں۔
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر