ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ مہینے گزر چکے مگر اہرام مصر دیکھنے کے خمار میں ہیں ہم ابھی تک، جنہیں انگریزی میں pyramids کہا جاتا ہے ۔ پرامڈ کے نام سے ہمیں فزکس کے پریکٹیکلز میں میں استعمال ہونے والی مثلث یاد آ جاتی ہے۔ مثلث عربی لفظ ہے اور ثالث سے نکلا ہے یعنی کہ تین۔ سو مثلث ایسی تکون جسے کسی بھی طرف سے دیکھا جائے، تکون کی لمبائی چوڑائی برابر نظر آتی ہے۔
صاحب کیا کریں، ہم کچھ بھی کر رہے ہوں، کہیں بھی ہوں، ہمیں کوئی نہ کوئی ایسا خیال آ جاتا ہے جس کا تانا بانا ہماری دکھتی رگ تک پہنچتا ہو۔ سو وہاں اہرام مصر کے سامنے کھڑے ہو کے ہم نے سوچا، عورت کی زندگی بھی ایک تکون ہی تو ہے۔ ایک ایسی تکون جو شادی، حمل اور زچگی کے ملاپ سے بنائی گئی ہے اور جس میں کہیں بال برابر فرق بھی اگر آ جائے تو جیتی جاگتی عورت کو زندہ درگور ہی سمجھیے۔
بیٹی ابھی گڑیا سے کھیلنے کی عمر میں ہے اور مشوروں کی بھرمار ہے،
”سنو، جب بھی کوئی گھر کی چیز خریدو۔ ایک فالتو خرید کے سنبھال دیا کرو۔ بچی کی شادی پہ بہت کچھ گھر سے ہی نکل آئے گا“
بیٹی ابھی پورے قد کو پہنچی نہیں اور اس طرح کی آوازیں کان میں پڑنے لگیں،
”اے بہن بیٹی کا رشتہ طے کیا کہ نہیں اب تک“
”بس آپا جی کیا بتاؤں، وظیفے پہ وظیفہ کر رہی ہوں کہ نصیبہ جلد کھلے“
کچھ برس بعد ۔
”ہائے بے چاری کی شادی نہیں ہوئی، بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہے“
شادی ہونے کے دو ماہ بعد ۔
”بیٹی کے گھر خوشخبری کی امید آئی کیا؟
پاؤں بھاری ہوا کہ نہیں، بس جلدی سے بچہ ہو جانا چاہیے ”
شادی کے چھ ماہ بعد ۔
”ابھی تک کچھ نہیں ہوا، ارے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ“
”شادی کے ایک برس کے بعد ۔
دیکھو اس کے ساتھ جتنی لڑکیوں کی شادی ہوئی تھی، سب کی گود بچوں سے بھر گئی۔ تم اس کا کہیں سے علاج کرواؤ ”
”شادی کے دو برس کے بعد ۔
”اف یہ لڑکی تو بانجھ ہے بانجھ۔ مجھے پہلے ہی شک تھا“
شادی کے تین برس کے بعد ۔
”سنو بہن، مجھے علم ہے کہ دادی بننے کی تمہیں کتنی چاہ ہے۔ میری مانو تو اپنے بیٹے کی دوسری شادی کروا دو“
حمل ہونے کے بعد ۔
”یہ بہو بیگم اتنا آرام کیوں کرتی رہتی ہیں۔ غضب خدا کا آخر ہم نے بھی تو بچے پیدا کیے تھے۔ بھری پری سسرال میں پچیس لوگوں کا کھانا آخری دن تک پکاتے رہے، ایک دن کسی نے آرام کرنے نہ دیا“
”یہ اتنا کھانا کس خوشی میں ٹھونس رہی ہو، کیا پہلوان پیدا کرنا ہے“
”توبہ توبہ کیا ضرورت ہے اتنی مہنگی ڈاکٹر کے پاس جانے کی۔ پانچ منٹ بات کرتی ہیں اور ہزار روپیہ رکھوا لیتی ہیں“
زچگی کے وقت۔
”ارے دس بچے پیدا کیے ہم نے، سب کے سب نارمل طریقے سے۔ اب آپریشن کیوں کروائیں آخر؟“
”نہ بابا نہ، اس عمر میں ہی پیٹ کٹوا دیا جائے، ہمیں نہیں منظور“
”آپریشن تھیٹر میں نہ معلوم کون کون گھسا ہوتا ہے، بہو بیٹی کا پردہ ہی نہیں رہتا“
”آپریشن کی فیس بھی تو اتنی زیادہ ہے۔ ڈاکٹروں نے پیسے کمانے کے حربے بنائے ہوئے ہیں سب۔ بھلا ہماری ماؤں کے کہاں آپریشن ہوئے؟“
” یہ آنول نیچے کہاں سے ہو گئی؟ نیچے۔ کیا مطلب بھئی؟ بچے دانی نہ ہوئی دو منزلہ مکان ہو گیا، کبھی اوپر، کبھی نیچے“
زچگی کے بعد ۔
”جس دن سے بچہ پیدا ہوا ہے، مہارانی بستر سے ہی نہیں اٹھ رہیں۔
اب ایسا بھی کیا، ہم نے بھی تو دس بچے جنے۔ اسی لیے آپریشن سے منع کیا تھا ”
”پھر سے ڈاکٹر کے پاس چلیں۔ کیا کہا طبعیت خراب ہے۔ ہاں بھئی اب ماں بن گئی ہیں تو نخرے تو ہوں گے“
”کیا کہا، پیشاب پہ قابو نہیں۔ ہاں بی بی ایسا ہی ہوتا ہے زچگی میں۔ ہم بھی برسوں سے بھگت رہے ہیں، کبھی زبان پر نہیں لائے، تمہیں ابھی سے فکر پڑ گئی“
صاحب، ہم سوچ رہے ہیں کہ عورت اہرام مصر جیسی مضبوط تکون کو تو توڑنے سے رہی، سو کیوں نہ تکون کے اندر موجود پوشیدہ باتیں عورت کو سمجھائی جائیں تاکہ زندگی کے جس بھی دور سے وہ گزرے، پاس کچھ تو ہو جس کی روشنی میں وہ دیکھ سکے، سوچ سمجھ سکے۔ لاعلمی کے زہر سے زندگی کی کڑواہٹ کچھ کم ہو گی تو سر اٹھا کر چلنے کا قرینہ بھی آ ہی جائے گا۔
اس تکون کے ایک حصے ماہواری کے مسائل سے آپ کافی حد تک واقف ہو چکے، اب دوسرے حصے کی طرف چلتے ہیں۔ یہی تو ہے ہمارا گائنی فیمنزم!
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر