رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے۔ زندگی کا پورا ڈھنگ بدل رہا ہے۔یوں لگتا ہے پوری نسل انسانی کی توجہ کسی اور جانب چلی گئی ہے۔ جینے کے وہ طور طریقے بدل رہے ہیں اور ایک عجب بات یہ ہے کہ اس نئے ڈھب میں دل بہل جانے کے اور جی کے خوش ہوجانے کے جو حیلے تھے، جن بہانوںسے خلقت کچھ دیرکو خوش ہوجایا کرتی تھی،وہ سب دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھوں کے سامنے اٹھتے جاتے ہیں۔
سب سے پہلے تھیٹر گیا۔ملک میں کتنی ہی تھیٹرکمپنیاں تھیں جو شہر شہر جاکر اپنا تماشا دکھایاکرتی تھیں۔ بمبئی سے کلکتے تک اور پشاور سے دلّی تک تھیٹر کا چلن تھا۔ کتنے ہی ڈرامے مقبول تھے، کتنے بڑے بڑے لکھنے والے رات دن محنت کر کے ڈرامے لکھتے تھے۔ ڈھاکہ جیسے بنگالی شہر میں اردو تھیٹر بہت مقبول تھا۔ مگر اس کا بستر بوریا لپٹ گیا۔اس کی جگہ خاموش فلموں نے پُر کی مگر ان تناشوں کو جو چپ لگی تھی وہ انہیں مقبول نہ کرسکی کہ اچانک بولنے والی فلمیں آگئیں جنہوں نے جی بہلانے کے دوسرے سارے دھندے بند کردئیے۔ پھر ریڈیو آیا اور آخر گراموفون کی دھوم مچی۔سوچئے تو کیسے دن تھے جب عام لوگوں کے دل بہلانے کے کیسے کیسے کاروبار جاری تھے۔چھوٹے پیمانے پر نٹ اور نٹنی کے تماشے ہوا کرتے تھے۔ بڑے پیمانے پر موت کے کنویں اور سرکس مقبول ہوئے۔جب یہ سب نہ ہوتا تو زندہ ناچ گانے کی پارٹیاں شہر شہر کے دورے کرتیں اور ناچ گانے سے لوگوں کے جی بہلاتیں۔
ان کے علاوہ ہر علاقے میں اپنے روایتی میلے ٹھیلے ہوتے تھے، کہیں عرس، کہیں محفل سماع اور کہیں کہیں ہمارے آپ کے مشاعرے اور ادبی محفلیں۔ یہ سب جاری تھے کہ اس میدان میں سوچئے کون آیا دھومیں مچاتا ہوا۔ ٹیلی وژن۔اس نے تو بڑا غضب ڈھایا۔ اگرچہ لوگ اس کی اسکرین سے چپک گئے مگر حقیقت میں کچھ اور ہی چمتکار ہوا۔ لوگ اپنے گھروں میں بند ہوگئے۔ روز مرہ معمولات بدلنے لگے۔ لوگوں کے نکلنے آنے جانے اور ملنے جلنے کے معمولات بدلے گئے۔ کئی کئی گھنٹے ایک ہی جگہ ایک ہی اسکرین پر نظریں گاڑے رہناہر چھوٹے بڑے، ہر جوان اور بوڑھے، ہر مرد اور عورت کا معمول بن گیا۔ زندگی کیا تھی، کیا ہوگئی۔ چوں کہ ہم خود اس انقلاب کی رو میں بہہ رہے تھے، خود ہمیں محسوس نہیں ہوا کہ زندگی میں کتنی خاموشی سے کتنا بڑا انقلاب آچکا ہے۔ کوئی خلائی مخلوق آکر ہمیں دیکھتی یا ہمارے بڑے بوڑھے ذرا دیر کو جی اٹھتے اور آکر ہمیں دیکھتے تو اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے۔چلئے یہ ہوا سو ہوا۔ جو ایک اور غضب ہوا وہ یہ کہ خود ہماری چار دیواری میں،ہمارے گھرانوں میں، ہماری گھر گرہستی میں جو ہولی دیوالی، جو عید بقرعید، جو رسمیں اور جو ریتیں، جو نذر نیاز، جو دسترخوان، نو روز،شاہ صاحب کا بکراجو موسم کے تہوار اور جو بدلتی رُت کے پکوان اور ضیافتیں ہوتی تھیں اور کیسی دھوم مچا کرتی تھی۔ وہ بھی موقع غنیمت جان کر پچھلے دروازے سے نکل گئی یا کہنے کو اپنی نشانی چھوڑ گئی۔اس بات کو یوں سمجھ لیجئے کہ دلہنوں نے گھونگٹ نکالنا چھوڑ دیا اور دولہا نے منہ پر رومال رکھنا غیرضروری سمجھا۔
ہم جس گھر میں رہتے تھے اس کے پڑوس کاآنگن اور رسوئی ہماری چھت سے نظر آتی تھی۔ ہندو گھرانا تھا اور شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب ان کے ہاں کوئی نہ کوئی تہوار نہ منایا جارہا ہو۔ آئے دن دالان میں رنگولی سجائی جاتی تھی اور بھانت بھانت کے پکوان پکتے تھے۔ڈھولکی بھی نکلتی تھی اور عورتیں ناچتی بھی تھیں۔ شام ہوتے ہی چارپائیاں کھڑی کرکے کٹھ پتلی کا تماشا ہوتا تھا جس میں ہماری گوہر جان کا رقص بھی ہوتا تھا اور اختو بختو کی لڑائی بھی ہوتی تھی۔ان سارے کھیل تماشوں سے ذرا دیر کو جی بہل جاتاتھاجس کے بعد سب لمبی تان کے سوجاتے تھے۔ اس سونے میں کیسا سکون تھا اور اس نیند میں کیسا قرار تھا۔ہوائیں مدھم پڑ جاتی تھیں اور شور چپ ہو جاتا تھا۔ ایسے میں نیند کی پری اڑان بھرتی اور سب سوئے ہوؤں کے ماتھے پر بوسہ دے کر واپس چاند نگر کولوٹ جاتی۔
اس کے جانے کے بعد جب مکمل خاموشی چھا جاتی تو اچانک کوئی گھنٹی سی بجتی ا ور ماتا جی کی نیند میں ڈوبی آواز آتی۔ ’ ارے بیٹاشیام۔ دیکھ تیرا موبائل بج رہا ہے کب سے‘۔
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر