نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انصاف کے دیوتاؤں کی مجبوریاں (2)|| راناابرارخالد

لہذا ملکی معیشت کی مکمل بربادی کے نتیجے میں یقین ہو چلا تھا کہ بیانیہ لانے والوں میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور اس امر پہ اتفاق ہو چکا ہے کہ اگر اب بھی ہٹ دھرمی سے کام لیا گیا تو نوبت ریاست کا شیرازہ بکھرنے تک پہنچ سکتی ہے، نتیجتاً طوعاً و کرہاً ہی سہی ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری ایک مرتبہ پھر عوام کو دینے کا فیصلہ ہوا

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ کالم میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ انصاف کے دیوتاؤں کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں دراصل انہوں نے آئین کی حفاظت کا حلف لے رکھا ہوتا ہے، جبکہ کسی بھی لاڈلے کے لاڈ اٹھانے کی بھی ایک حد ہوتی ہے مگر جب بات آئین کی بقا کی ہو تو انصاف کے دیوتا بھی مجبور ہو جاتے ہیں، وہ مزید کسی کے لاڈ اٹھانے سے انکار کر دیتے ہیں چاہے اس کے نتیجے میں کسی کے بیانیے کی شکست ہونے جا رہی ہو یا پھر اپنے ہی عوام سے خوفزدہ ریاست کا (فرضی) دھڑن تختہ!

ایسی ریاست جس کے تحفظ کا بوجھ عدلیہ سمیت ہر ریاستی ادارے کی کمر جھکا دے، اس بوجھ کو اتار پھینکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اسے عوام کے سپرد کر دو، اپنے ہی عوام پر بھروسا کرو کیونکہ عوام سب سے باشعور ہوتے ہیں وہ قوم کا تحفظ مسلح افواج سے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد سب اس پر تبصرہ کرنے کے لئے مہا دانشور اور تجزیہ نگار بن جاتے ہیں، ٹی وی سکرینوں پر بات کو گھما پھرا کر اس جانب لے جایا جاتا ہے کہ دیکھو، میں نے بھی کہا تھا اگر یہ نہ ہوا تو عدالت یہ فیصلہ دے گی اور وہ نہ ہوا تو عدالت وہ فیصلہ سنائے گی۔ مگر ان میں کوئی ایک دکھا دو جس نے فیصلہ آنے سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہو اور بغیر لگی لپٹی کہا ہو کہ ”سپریم کورٹ آئین کی پاسداری کرے گی کیونکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے آئین کے تحف کا حلف لے رکھا ہے“۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ انہی لوگوں کو ٹی وی سکرینوں پر سجایا جاتا ہے اور ان کے کالم اہتمام کے ساتھ شائع کیے جاتے ہیں جو ہمیشہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ آنے کے بعد کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر میں نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ تحریر کیا کہ ”مجھے اس بات کی سو فیصد امید ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور (سابق) وزیر اعظم عمران خان کے اقدام کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت از خود نوٹس کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ میرٹ پر مبنی ہو گا، کیونکہ سپریم کورٹ آئین کی محافظ (کسٹوڈین) ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام سپریم کورٹ سے مہر تصدیق ثبت کرا سکے“ ، تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ سٹیبلشمنٹ کی جانب سے ( 2018 میں ) نئے بیانیے کی لانچنگ دراصل آخری حربہ تھا، جس کا کچھ دن پہلے میرے دوست وجاہت مسعود نے اپنے کالم ’ہائیبرڈ نظام ناکام کیوں ہوتے ہیں‘ میں نہایت اہتمام سے نوحہ لکھا۔ 2018ء کا نصابی طور پر منظور شدہ بیانیہ یہ تھا ”دراصل پاکستان 35 سال کی پے درپے فوجی آمریتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے چالیس تک حکومت کرنے اور اس دوران ہونے والی لوٹ مار (کرپشن و بدعنوانی) کی وجہ سے معاشی طور پر تباہ ہوا ہے، اگر کرپٹ اشرافیہ کو اٹھا کر ملک سے باہر پھینک دیا جائے تو پاکستان نہ صرف خوشحال ہو گا بلکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے گا، پھر پاکستانیوں کو باہر جا کر روزگار ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ باہر کے لوگ یہاں آ کر نوکریاں ڈھونڈیں گے، دنیا بھر میں سبز پاسپورٹ کی عزت ہوگی، پاکستان قرضہ لینے کے لئے دنیا کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گا بلکہ دنیا پاکستان سے قرضہ لے گی وغیرہ وغیرہ“ ۔

حالانکہ یہ بیانیہ کوئی نیا نہیں، اس سے قبل جنرل پرویز مشرف بھی یہی بیانیہ لے کر مسلط ہوئے تھے اور انہوں نے کرپشن کے الزامات لگا کر ملکی سیاسی قیادت (جس کو وہ کرپٹ اشرافیہ کہتے تھے ) کو ملک سے نکال باہر کیے رکھا تھا۔ جبکہ اس کا نتیجہ کیا نکلا، دس سال بعد جب آمر ہٹا تو پتہ چلا کہ معیشت دیوالیہ ہو گیا اور ملک بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔

تاہم دس سالہ جمہوریت کے نتیجے میں ملکی معیشت کی شرح نمو جب ساڑھے پانچ فیصد پر پہنچی اور بڑی محنت سے لائے گئے سی پیک کے حقیقی ثمرات پاکستان کو ملنے لگے تھے تو ایک مرتبہ پھر نئی بوتل میں پرانی شراب کے مترادف وہی گھسا پٹا بیانیہ ایک سویلین کردار کے ذریعے لانچ کیا گیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ آخری کوشش ہے، اور یہ آخری کوشش ہی ثابت ہوگی۔

عمران خان اقتدار میں آنے کے لئے چھ سال تک سیاسی مخالفین کو لگاتار چور ڈاکو کہتے رہے اور ہمارے ٹی وی چینلوں و اخبارات نے ان کو بھرپور کوریج دیتے رہے، بلکہ اس وقت بھی جب عمران خان 2014 میں دھرنا دے کر جان بوجھ کر چینی صدر کا دورہ رکوا کر سی پیک کو سبوتاژ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان نے جان بوجھ کر بلکہ اپنے ہاتھوں سے معیشت کو بحران میں ڈالا تاکہ وہ چور ڈاکو والے اپنے بیانیے کو سچ ثابت کر کے دکھا سکیں، کیونکہ انہیں معلوم تھا اگر برباد شدہ معیشت نہیں دکھائیں گے تو لوگوں کے منہ کیسے بند کریں گے کہ پہلے والے چور ڈاکو نہیں تھے!

لہٰذا نواز شریف اور آصف زرداری کو چور ڈاکو ثابت کرنے کے لئے ملکی معیشت کو تباہ کرنا جی ڈی پی گروتھ کو صفر پر لے جانا عمران خان کی مجبوری تھی، اگر معیشت پانچ فیصد کی شرح سے ترقی کرتی رہتی پھر تو لوگ سوال پوچھتے، اگر پہلے والے چور ڈاکو تھے تو معیشت کیونکر ترقی کر رہی ہے۔ دراصل عمران خان خود معیشت کو بربادی کی راہ پر نہیں ڈال رہے تھے بلکہ ایک بیانیے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں تھے۔ جبکہ ہمارا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بھی کسی نہ کسی انداز میں اس بیانیے کو سچ بتانے کے عمل میں شامل تھا۔

عمران خان نے 2018 میں برسر اقتدار آنے کے بعد ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت کو کیسے بربادی کی راہ پر گامزن کیا، اس کی کہانی پھر سہی تاہم اتنا ضرور بتا دوں کہ گزشتہ پونے چار سال کے دوران میں نے وفاقی وزیر اسد عمر کو دوران پریس کانفرنس ایک سے زائد مرتبہ چیلنج کر کے کہا تھا کہ انہیں برباد شدہ معیشت ورثے میں نہیں ملی بلکہ انہوں نے معیشت کو اپنے ہاتھوں سے برباد کیا، اس پر وہ مجھے ٹی وی چینل پر مناظرے کا چیلنج دے کر خود ہی بھاگ گئے تھے۔

بلاشبہ کسی بھی ریاست کی نادیدہ قوتوں کے پاس بہت بڑی طاقت ہوتی ہے، وہ بیانیہ بنا سکتی ہیں، وہ کسی بیانیے کو غلط بھی ثابت کر سکتی ہیں، وہ حکومت کو گرا سکتی ہیں، ایک نئی حکومت لا سکتی ہیں، وہ سیاسی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر سکتی ہیں اور کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا جمع کر کے کنگ پارٹی کھڑی کر سکتی ہیں۔ مگر معیشت کی ڈائنامکس الگ ہوتی ہیں، خاص طور پر بائیس کروڑ لوگوں کے کسی ملک کی معیشت کو ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلایا جا سکتا۔ جہاں تک معیشت کی بات ہے تو ملکی معیشت کو اپنی مرضی سے برباد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اپنی مرضی سے دوبارہ کھڑا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ تعمیر میں نسلوں کا لہو شامل ہوتا ہے جبکہ تخریب کے لئے محض ایک خود کش بمبار درکار ہوتا۔

لہذا ملکی معیشت کی مکمل بربادی کے نتیجے میں یقین ہو چلا تھا کہ بیانیہ لانے والوں میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور اس امر پہ اتفاق ہو چکا ہے کہ اگر اب بھی ہٹ دھرمی سے کام لیا گیا تو نوبت ریاست کا شیرازہ بکھرنے تک پہنچ سکتی ہے، نتیجتاً طوعاً و کرہاً ہی سہی ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری ایک مرتبہ پھر عوام کو دینے کا فیصلہ ہوا۔ دراصل میرے یقین کی یہی وجہ تھی کہ سپریم کورٹ آئین کے مطابق اس مقدمے کا فیصلہ سنائے گی اور عمران خان کی حکومت کے تمام غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے گے (حالانکہ چند کرم فرماؤں نے میرے اوپر تنقید بھی کی کہ میں سپریم کورٹ کا ترجمان بننے کی کوشش کر رہا ہوں)، لیکن فیصلہ بتا رہا ہے کہ کون درست تھا اور کون محض ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔

About The Author