وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس دو ہی ذریعے تھے۔ریڈیو اور اخبار۔ صبح ساڑھے چھ بجے ریڈیو پاکستان کے پانچ منٹ کے نیوز بلیٹن میں شاید پانچ خبریں تھیں۔ اور پانچویں یہ تھی۔
’سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج نصف شب کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی اور اب موسم کا احوال‘۔۔۔
ہمارے گھر کے ٹی وی اینٹنا پر دو جھنڈے پچھلے دو برس سے لگے لگے موسم کے ہاتھوں دھجیوں میں بدل چکے تھے۔ ایک نو ستارے والا پاکستان قومی اتحاد کا جھنڈا اور دوسرا پیپلز پارٹی کا جس پر اب صرف تلوار کا دستہ ہی پھڑ پھڑا رہا تھا۔ میری والدہ جنہوں نے پوری رات مصلحے پر گذار کر نفلی روزہ رکھا تھا خبری بلیٹن سننے کے بعد دھلے ہوئے کپڑے تار پر ڈالنے کے لیے اوپر گئیں اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے کی دھجی اتار کر نیچے لائیں اور اسے رومال میں تہہ کرکے اپنی الماری میں رکھ دیا۔ والد نے یہ سارا منظر ناشتہ کرتے ہوئے کن اکھیوں سے دیکھا مگر ناشتہ کرتے رہے۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر میں انسان نہیں ہیولے گھوم رہے ہیں۔ ویسے بھی اس دن کسی کے پاس کچھ کہنے کے لیے تھا ہی نہیں۔نہ حق میں نہ خلاف۔ ہاکر بھی خاموشی سے اخبار ڈال کے چلا گیا۔ دودھ والا روزانہ گھنٹی بجا کر پوچھتا تھا چھوٹے میاں آج کتنا دودھ دوں؟ آج اس نے گھنٹی ضرور بجائی لیکن برتن میں پوچھے بغیر دودھ ڈال کے سائیکل آگے بڑھا دی۔سامنے کے چوبارے میں ڈاکٹر بشیر صاحب علی الصبح ہارمونیم لے کر لگ بھگ ایک گھنٹہ بلا ناغہ ریاض کرتے تھے۔آج ان کے ہارمونیم کو بھی سانپ سونگھ گیا تھا۔
محلے میں صرف رفیق دھوبی ہی تھا جس کے ہاں چار پانچ اخبارات آتے تھے۔میں کالج سے واپسی پر ہمیشہ ایک آدھ گھنٹہ اخبارات چاٹنے کے بعد گھر میں داخل ہوتا تھا۔ آج کالج جانے کا قطعاً موڈ نہیں تھا چنانچہ رفیق دھوبی کی دکان پر پتھر کے بنچ پر بیٹھ گیا۔چار پانچ روبوٹ اخبار پڑھ رہے تھے۔سب کے چہرے سپاٹ بالکل رفیق دھوبی کے استری شدہ کپڑوں کی طرح۔ ایک اخبار (مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مساوات تھا یا صداقت یا پھر امن ) کے فرنٹ پیج پر صرف اخبار کی لوح تھی۔ باقی پیج خالی جس پر خون کے چھینٹے پڑے تھے۔کبھی کبھی فضا میں صرف رفیق کی آواز گونج جاتی تھی۔ہائے اللہ جی۔۔۔
جانے میں کب تک رفیق کی دکان پر بیٹھا رہا۔ دل و دماغ بالکل خالی و پرسکون۔۔اور پھر بازار کی طرف چل پڑا۔ لوگ آ رہے ہیں جا رہے ہیں مگر آواز غائب ۔۔۔کاروبار ، بھاؤ تاؤ ، لین دین ہورہا ہے مگر آوازیں غائب۔۔۔
جس دن بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ کے مولوی مشتاق نے پھانسی کی سزا سنائی تھی تو صفدر میڈیکل سٹور والے محی الدین صفدر نے مٹھائی بانٹی تھی۔ کچھ نے کھائی تھی کچھ نے لے کر پھینک دی تھی اور کچھ جھگڑ بھی پڑے تھے۔آج بھی محی الدین صفدر شو کیس کے پیچھے سٹول پر بیٹھے تھے۔ مجھے اشارے سے بلایا ’منڈیا اورے آ ۔۔۔۔پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔یار اے کی ہوگیا‘ ۔۔۔۔اور پھر انھوں نے اپنا ماتھا شو کیس پر رکھ دیا۔۔میں خاموشی سے باہر آگیا۔
والدہ نے مغرب کی اذان سن کر روزہ کھولا ۔کچھ دیر بعد والد نے ریڈیو پر سوئی گھما کر سیربین لگا دیا۔۔۔خبروں کے بعد سیربین کے روایتی میوزک کے بجائے بھٹو کی آواز نشر ہوئی اور پھر یہ آواز کم ہوتی چلی گئی اور پھر وقار احمد نے کہا آج یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ۔۔۔۔۔مگر اس دن شاید بی بی سی کو مغالطہ ہوا تھا۔
بہت برس بعد میں ایک روز گڑھی خدا بخش میں کھڑا تھا۔سرہانے کوئی لوح نہیں ۔کچھ اگربتیاں جل رہی تھیں۔ میں نے سنگی قبر پر پڑی پھولوں کی چادریں اٹھا کر انگریزی میں کندہ تحریر پڑھی۔
’ذوالفقار علی بھٹو ۔تاریخ ِ پیدائش پانچ جنوری انیس سو اٹھائیس۔تاریخِ شہادت چار اپریل انیس و اناسی۔ایک شاعر اور انقلابی۔۔۔‘
مزار کے صدر دروازے پر پھول فروش بیٹھا تھا ۔اس کے ساتھ ہی مزار کا جاروب کش بھی آلتی پالتی مارے ہوئے تھا۔ایک لڑکا اور لڑکی پھول خرید رہے تھے۔ کراچی سے آئے تھے۔ایک ہفتے بعد ان کی شادی ہونے والی تھی۔میں نے لڑکے سے پوچھا یہاں کیسے ؟
دونوں ایک ساتھ بول پڑے
سائیں سے اجازت لینے آئے ہیں۔
گذشتہ برس اسلام آباد کی فیصل مسجد دیکھنے گیا اور اس کے بیرونی احاطے میں ضیا الحق کے سنگِ مرمر کے مزار پر نظر پڑی۔لوحِ مزار پر لکھا تھا
صدرِ پاکستان ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیا الحق۔
نگرانِ مقبرہ : چوہدری محمد ارشد
تیار کردہ : الغنی انٹر پرائزز ( بلڈرز اینڈ کنٹریکٹر)۔
اس دن شاید میں پہلا یاتری تھا۔کیونکہ مزار پر تازہ پھول نہیں تھے۔
کیا کسی کو معلوم ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق کی قبریں کہاں ہیں۔ کوئی تو فاتحہ پڑھنے جاتا ہی ہوگا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر