ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہولے سے کیمرہ رحم (بچے دانی) میں داخل ہوا، اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا گیا جیسے کوہ پیما کسی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہوں۔ ہماری بے چین آنکھ کسی کی تلاش میں تھی۔ ساتھ میں ہم یہ بھی سوچ رہے تھے کہ یہ ہے دنیا میں ہر آنے والے کا پہلا گھر، کسی تاریک اور پرسکون غار کی مانند، انسانی آنکھ سے اوجھل، گہرا اور پراسرار، جہاں آسانی سے کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔
یہ ہمارا آپریشن تھیٹر تھا۔
اور آپریشن ٹیبل پر محو خرام وہ مریضہ تھی جس کو ہم نے کچھ دن پہلے دیکھا تھا۔
پینتالیس چھیالیس سالہ وہ خاتون کلینک میں داخل ہوتے ہی کہنے لگیں،
” ایک ہفتہ تیز ہوتی ہے تو ایک ہفتہ کم، رکتی کبھی نہیں“
ہائیں، یہ کہاں کا ذکر ہے جہاں اس قدر بارش ہوتی ہے جو رکتی ہی نہیں۔ ہم نے ان کی بات سن کر سوچا،
”یقین کیجئیے ڈاکٹر صاحب، زندگی عذاب بن چکی ہے۔ متواتر پیڈ پہن پہن کر ٹانگوں میں ریشیز بن چکے ہیں، اٹھنا بیٹھنا محال ہے“
دیکھئے ہم تو ہر بات پہ چونک اٹھتے ہیں کہ شاید کوئی برکھا رت کی بات چلے یا کبھی کسی اجنبی دیس میں گزاری کچھ شاموں کا احوال لکھا جائے۔ مگر کیا کریں جب ہر روز دس میں سے سات عورتیں ماہواری کی تکلیف کے ساتھ ملیں جن میں بچیاں بھی ہوں اور ضعیفہ بھی، شادی شدہ بھی ہوں اور کنواریاں بھی، دادی نانی، پوتی نواسی اور بہو بیٹی سب ایک ہی تکلیف میں مبتلا ہوں تو ہم آپ کو کیسے کچھ اور سنائیں؟
سو ان خاتون کے ساتھ کچھ ایسا ہوا تھا کہ ماہواری پچھلے تین ماہ سے رک ہی نہیں رہی تھی۔ بلیڈنگ کبھی زیادہ ہو جاتی تھی اور کبھی کم۔ سو سراغ یہ لگانا تھا کہ ایسا کیوں تھا؟
الٹراساؤنڈ کرنے پہ رحم کی اندرونی جھلی بہت دبیز نظر آئی۔ ماہواری کے خون میں یہی جھلی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں نظر آتی ہے اور ماہواری کے اختتام پہ اسے الٹرا ساؤنڈ میں نظر نہیں آنا چاہیے کہ یہ مکمل طور پہ جھڑ چکی ہوتی ہے۔ اگلی ماہواری سے پہلے ہارمونز کے زیر اثر یہ پھر بنتی ہے اور ماہواری میں پھر جھڑ جاتی ہے۔
جھلی کا دبیز پن ہمیشہ ایک الارم کا کام دیتا ہے۔ رحم کے کینسر کی پہلی نشانی اس جھلی کا حجم بڑھ جانا اور ماہواری کا بے ترتیب ہونا ہے۔ اگر یہ علامات چالیس برس کی عمر سے پہلے ہوں تو پہلے دوائیں استعمال کروائی جاتی ہیں اور اگر افاقہ نہ ہو تو جھلی کی بائیوپسی کی جاتی ہے۔
لیکن چالیس برس کی عمر سے اوپر اگر الارم کی گھنٹی زیادہ اونچی نہ بھی ہو تب بھی لازم ہے کہ فوراً بائیوپسی کروائی جائے۔
جھلی کا حجم بڑھ جانے میں کبھی تو بے ترتیب ہارمونز کا ہاتھ ہوتا ہے اور کبھی جھلی ایسی رسولیوں کو بنانا شروع کر دیتی ہے جنہیں polyp کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ رسولیاں کینسر تو نہیں ہوتیں لیکن ان سے متواتر خون خارج ہوتا رہتا ہے اور ماہواری نہیں رکتی۔
جھلی کا صرف حجم زیادہ ہے یا اس میں رسولیاں بن چکی ہیں کا فیصلہ آپریشن تھیٹر میں ہوتا ہے۔ بے ہوشی دے کر ایک پتلی تار کے ساتھ لگا ہوا کیمرہ رحم میں ڈالا جاتا ہے جو رحم کے اندر کا منظر باہر ٹی وی سکرین پر دکھاتا ہے اور آپریشن تھیٹر کے اندر موجود سب ڈاکٹر اسے دیکھ سکتے ہیں۔ اس تار اور کیمرے کو Hysteroscope کہتے ہیں۔
مریضہ کو اس علاج کی تفصیل بتائی گئی تھی جس پر ان کے چہرے کی بدلتی ہوئی رنگت ہمیں تکلیف دیتی تھی۔ لیکن ہم انہیں یہ بتا کر حوصلہ دیتے تھے کہ ان کا الارم صحیح وقت پر بجا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انہوں نے الارم سن کر صحیح وقت پر ڈاکٹر کے پاس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپریشن والے دن وہ کافی نڈھال نظر آتی تھیں۔ بے ہوشی کے بعد ہم نے ہسٹرو سکوپ رحم میں ڈالی اور ٹی وی سکرین پر نظر جما دی جو ان راہوں کا منظر دکھا رہا تھا جہاں تک انسانی آنکھ براہ راست پہنچ نہیں سکتی تھی۔ کیمرہ رحم میں داخل ہوا، اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا گیا۔
یک دم انگور کے خوشے جیسی ایک شبیہ ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئی،
”ڈاکٹر یہ کیا ہے؟“ ہمارے ساتھ کھڑے تربیتی ڈاکٹر نے پوچھا،
ہم نے ٹی وی سکرین پر نظریں گاڑے ہاتھ میں پکڑے کیمرے کو اس خوشے کے چاروں طرف گھمایا تاکہ جواب دینے سے پہلے اچھی طرح جانچ لیں۔
”یہ polyp ہے“
اب ہم اپنے کیمرے کے سہارے رحم کے اندر گھوم رہے تھے۔ دائیں، بائیں، اوپر نیچے، آگے پیچھے۔
اور اسی میں ہمیں دو اور خوشے نظر آ گئے۔
”ارے بھئی یک نہ شد، تین شد“ ہم نے اپنے شاگرد کو اشارے سے دکھایا۔
اب جب رحم میں گھوم ہی رہے ہیں تو ان نالیوں کا سوراخ بھی دیکھ لیا جائے جو نطفے کو رحم تک پہنچاتی ہیں۔ لیجئیے نظر آ گیا کامن پن کے سرے جیسا سوراخ جہاں سے انسان اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔
اچھی طرح جانچ کے بعد ان تینوں پولپس polyps کو نکالا گیا۔ کیسے؟ یہ ذرا تکنیکی سی بات ہے سو آپ کو شاید مزا نہ آئے سو اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔
پولپس کو نکال کر ڈبے میں سیل بند کر کے لیبارٹری بھیجا جا چکا تھا۔ اب پیتھالوجسٹ کا کام شروع ہونے کو تھا کہ اصل میں یہ پولپس ہیں کیا؟
انیستھیزیسٹ مریضہ کو ہوش میں لا رہا تھا۔ چلیے جناب ہم دستانے اتار کر ایک کپ گرما گرم چائے پی لیں قبل اس کے کہ اگلا مریض ٹیبل پر لٹایا جائے اور ہم انسانی جسم کے کسی اور اسرار کی تلاش میں نکلیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر