عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجب حالات ہیں ایسے ایسے سرپرائز مل رہے جو کبھی دیکھے نہ سُنے۔۔۔ وہ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہ ہوا اور وہ نہیں ہو رہا جو پہلے ہوتا رہا۔ مثلاً ’ن‘ سے ’ش‘ نکلنا تھی یہاں ’ق‘ سے ’ش‘ برآمد ہو گئی۔ وزیراعظم کے جلسے میں سرپرائز نکلنا تھا وہاں جیب سے خط نکل آیا، خط میں کیا تھا کسی کو نہیں معلوم البتہ مجمعے کو کھلے عام آف دی ریکارڈ دکھانے کی پیشکش بھی ہو گئی۔
عجیب سرکس ہے کہ طوطے اُڑتے تھے یہاں طوطے سو گئے ہیں، چٹھیاں لانے والے کبوتر رومال میں گُم ہو گئے ہیں، شیر ناچ رہا ہے، گیدڑ بھاگ رہا ہے، تیر کمان میں ہے یا کمان تیر میں ہے۔۔۔ ہاتھ کس کے ہیں آستین کس کی ہے؟ گزشتہ چند ہفتوں سے اسلام آباد میں سیاسی ہیجان کم ہونے کو نہیں آ رہا اور بازی گری ایسی ہے کہ بازی گر بھی مات۔۔۔
سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں لیکن سیاسی سرکس میں مداری کے ہاتھ بھی کچھ نہ رہے تو جانور وہ اودھم مچاتے ہیں کہ خُدا کی پناہ۔ اب آپ دیکھ ہی لیجیے کہ آزاد کردہ سیاسی جماعتیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہ رہی ہیں لیکن سیاسی آیوڈین کی کمی ایسا ہونے نہیں دے رہی۔
پوچھ پوچھ کر قدم اٹھانے والوں کے قدم خود اُٹھنے کو تیار نہیں، اشاروں کے منتظر، نگاہیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں مگر فیصلے سے قاصر۔۔ عدم مداخلت اتنی جان لیوا ہو گی یہ کسی نے سوچا نہ تھا، یہاں تک بات آگئی ہے کہ سیاست میں عدم مداخلت کے قائل بھی شکوہ کُناں ہیں کہ آزادی ملی تو بقول شاعر
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے اب رہائی ملی تو مر جائیں گے
آزادی سیاسی پرندوں کو نصیب کیا ہوئی کہ پروں کے ہوتے ہوئے بھی پابند ہیں اور پنجرے میں ہی پھڑپھڑاتے پھر رہے ہیں۔ اطمینان مگر اس بات کا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی حد تک میچور ضرور ہو گئی ہیں۔
لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال میں جہاں حزب اختلاف اور اقتدار میں عددی برتری کی جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں جیت ہار کس کی یہ بحث ایک طرف۔۔ فقط موصول ہوئے خط اور خط میں چھپے بیانیے کو دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکمران جماعت کی جانب سے سویلین بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کے مقبول بیانیے کو اپنایا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ سرپرائزز کے اس موسم میں ریمنڈ ڈیوس کی آزادی کے پروانے کو موضوع بنا کر، پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والے شاہ محمود قریشی کو ایسی کیا سُوجھی کہ حکومت گرانے کے لیے بین الاقوامی سازش جلسے میں بے نقاب کروائی، وزیراعظم کو ’ثبوت کی فراہمی‘ کا وعدہ پورا کرنے کے بعد عوامی جلسے میں اس کا ٹریلر بھی چلا دیا۔
برس ہا برس سے نائب کپتانی کا خواب دیکھنے والے ملتان کے گدی نشین سمجھدار سیاستدان ’بے وجہ‘ آزاد سیاست کر رہے ہیں۔
دوسری طرف سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان محض بھٹو بننے کے چکر میں براہ راست عالمی سازش اور مقامی سہولت کاروں تک پہنچ گئے ہیں یا اس معاملے کو چند ماہ کے لیے انتخابات تک ٹوکری تلے دبا دیا جائے گا۔ بات نکلی ہے تو دور تلک جا سکتی ہے، غیر ملکی فنڈنگ کیس کا جواب ’خط‘ کیسے دے گا، آنے والے دنوں میں اس کا انتظار بھی کرنا پڑے گا۔
سرپرائز تو یہ بھی ہے کہ پنجاب کے چوہدری تقسیم ہو گئے ہیں۔
چوہدری پرویز الہٰی کا فیصلہ کسی وقتی غبار کا نتیجہ تھا یا لا ابالی پن۔۔۔ مگر یہ فیصلہ کیوں ہوا یہ جانتے ہوئے کہ نیوٹرل، نیوٹرل کیوں ہوئے اور تحریک انصاف کی مختلف گروپوں میں بٹی جماعت پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ دے پائے گی یا نہیں۔۔ وہ سرپرائز دینے پر تیار کیسے ہو گئے۔
چوہدری پرویز الہٰی پاور سینٹر میں طویل المدت سرمایہ کاری اور چوہدری شجاعت سیاسی سرمایہ کاری کو پیش نظر رکھ رہے ہیں۔ بہر حال تقسیم کی خبریں سچ ہیں یا نہیں تاہم سوالات جنم ضرور لے رہے ہیں۔
عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ تک سرپرائزز ملتے رہیں گے اور شاید ریزہ ریزہ ہوتی جماعت کو طاقت کا چُپکے چُپکے انجیکشن لگانے کا سرپرائز بھی ڈبے سے نکل آئے۔ بہرحال کوئی تو ہے جو نظام بستی چلا رہا ہے؟
سرپرائز تو یہ بھی ہے کہ نیوٹرل ہوئے دانشور اُنہی کو آنکھیں دکھا رہے ہیں جو نظریہ پاکستان کے محافظ اور حب الوطنی کے علمبردار ہیں۔ پھر یہ ایکس سروس مین اچانک کیسے نیوٹرل نہیں رہے اور سوشل میڈیا پر گھومتی کپتان کے حق میں ویڈیوز کس کا فیصلہ سنا رہی ہیں؟ سول ملٹری تعلقات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے یہ چند اشارے کچھ اور الجھن بڑھا رہے ہیں۔
حکومت کے منحرف اراکین، جمہوری وطن پارٹی اور اب باپ پارٹی کے سرپرائزز کے بعد اپوزیشن کی اعلانیہ تعداد 169 تک پہنچ چکی ہے جبکہ ایم کیو ایم کے منظر عام پر آنے والے مطالبات حکومتی دسترس سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ کچھ سرپرائزز ایسے ہیں جو ابھی باقی ہیں۔
عددی برتری کس کو ملتی ہے اور حکمرانی کا ہما کس کے سر بیٹھتا ہے اس کا فیصلہ اس ہفتے ہو جائے گا۔ فلم یہاں ختم ہو گی یا نئے سیکوئیل کی تیاری کے لیے کردار کچھ عرصہ غائب کر دیے جائیں گے۔۔ پردہ سکرین پر نظریں جمائے رکھیں۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر