ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں جاری سیاسی کشمکش کے دوران لمحہ بہ لمحہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین رانا مشہود ، سمیع اللہ خان ، میاں نصیر اور دیگر اراکین نے وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد اسمبلی میں جمع کرائی ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک پر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت 126 ارکان کے دستخط اور اجلاس بلانے کی ریکوزیشن پر 119 ارکان کے دستخط ہیں۔ سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ قانونی ضابطے اور اسمبلی قواعد پر مکمل عمل ہوگا، عدم اعتماد کی تحریک پر قانون کے مطابق کارروائی ہو گی ۔ عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اسمبلی تحلیل نہیں کر سکیں گے اور سپیکر پرویز الٰہی 14دن میں اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔
پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجہ ریاض نے ٹوئٹ کیا کہ ’’یہ لو ہماری طرف سے ایک اور سرپرائز ، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی گئی ، ابھی اور بہت سارے سرپرائز ہیں‘‘۔ تین دن سے کراچی میں ہوں ، اے پی این ایس کے اجلاس سے فراغت کے بعد دوستوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے، وسیب کی طرح کراچی میں بھی درجہ حرارت 40تک پہنچا ہوا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اسلام آباد بنا ہوا ہے، سندھ کی قیادت بھی اسلام آباد پہنچی ہوئی ہے، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔
تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ اسمبلی نے کرنا ہے مگر حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے جتھے اسلام آباد منگوائے ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو عمران خان فیصلہ نہیں مانے گا اور اس کے جتھے سڑکوں پر آئیں گے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو اپوزیشن نہیں مانے گی اور اس کے جتھے سڑکوں پر آئیں گے ۔ یہ صورت حال غیر جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہے۔ ملک کے حالات پہلے بھی ٹھیک نہیں ہیں، مہنگائی ، بیروزگاری سے ہر شخص پریشان ہے، دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ بھی ابھی جاری ہے، افغانستان کی صورتحال سب کے سامنے ہے، افغانستان کے حالات و واقعات سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔
افغانستان کے عدم استحکام ،بھوک اور غربت سے خانہ جنگی کا خطرہ ہے، خدانخواستہ افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو بہت بڑے نقصان کا خطرہ اس بنا پر بھی ہے کہ اب طالبان کے پاس امریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید ہتھیار ہیں، ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو تصادم سے ہر صورت گریز کرنا چاہئے اور جمہوری تبدیلی لانی چاہئے، حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان سے گریز کرنا چاہئے، جمہوری نظام چلتے رہنا چاہئے ، جمہوریت کا پہیہ پٹڑی سے اترا تو یہ بہت بڑی بد قسمتی ہو گی کہ جمہوریت ہزار خرابیوں کے باوجود بہتر ہے اور آمریت کی ہزار خوبیوں کو ختم کرنے کیلئے ایک لفظ آمریت کافی ہے۔
کراچی میں وزیر اعظم کے خطاب کو توجہ سے سنا گیا، تبصرے بھی خوب ہوئے، سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ دو گھنٹے کے خطاب میں گالیوں کے سوا کچھ نہ تھا، سرپرائز کا بہت چرچا کیا گیا مگر سرپرائز تو نہ دے سکے بھٹو کی تعریف پر مجبور ہوئے، اس پر پیپلز پارٹی کے امتیاز ملک نے کہا کہ بھٹو کی عظمت اور خود داری کو خراج تحسین پیش کر کے عمران خان نے تسلیم کیا کہ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی بھٹو کی درست تھی۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان جب بر سراقتدار آئے تو انہوں نے پاک چین تعلقات اور سی پیک منصوبے سے بے اعتنائی برتی اور امریکہ کی طرف جھکائو کیا مگر اب ان کو بھٹو یاد آ رہا ہے تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بھٹو اور ان میں بہت بڑا فرق ہے۔
کراچی میں شب و روز مصروفیت ہے ہر جگہ موجودہ سیاسی صورتحال موضوع بحث ہے گزشتہ شب پاکستان سرائیکی قومی اتحاد کے سینئر وائس چیئرمین حاجی رب نواز ملک نے اپنی رہائش گاہ پر عشائیے کا اہتمام کیا، سرائیکی رہنما قاسم لاشاری ، اکرم خان چانڈیہ ، سانول احسان ، آصف ملک و دیگر نے شرکت کی ۔ حاجی رب نواز ملک نے کہا کہ عمران خان ساڑھے تین سال کہاں رہے، ان کو اب صوبہ کیوں یاد آیا ہے، دراصل وہ عدم اعتماد تحریک سے گھبرا کر جنوبی پنجاب صوبہ بل کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب منظور نہیں، وسیب کی شناخت اور اس کی مکمل حدود پر مشتمل صوبہ ہونا چاہئے۔
وسیب سے تعلق رکھنے والے علامہ محمد حنیف قادری نے لیاری میں دینی مدرسے کے سنگ بنیاد کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلایا۔ اس موقع پر علامہ صاحب کے صاحبزادے نے انگریزی ، ارود، عربی اور سرائیکی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مدرسہ جدید علوم سے آراستہ ہوگا اور اس میں او لیول اور اے لیول کی تعلیم بھی ہو گی ۔ میں نے اپنے خطاب میں کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ مدارس کے طلبہ کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے، سائنس پڑھائی جائے، مدراس کے طلبہ ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان بنیں ، مدارس کے طلبہ کا بھی حق ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مقابلے کے امتحانوں میں شریک ہوں۔ اے سی ، ڈی سی ، کمشنر ، سیکرٹری اور محکموں کے سربراہ بنیں ، فوج میں کمیشن حاصل کریں اور جنرل کے عہدے تک پہنچیں۔
میں نے یہ بھی کہا کہ مدارس کے طلبہ کو علم پڑھایا جائے ، فرقہ وارانہ نصاب کے چکروں سے نکالا جائے ، مدارس کے طلبہ کو فارن سروسز بھی حاصل کرنی چاہئیں اور اپنے علم اور تعلیم کو اس قدر وسعت دینی چاہئے کہ وہ بھی نوبل انعام حاصل کر سکیں۔ سرائیکستان صوبہ محاذ کے مرکزی رہنما کرنل (ر) عبدالجبار عباسی سے ملاقات اہمیت کی حامل تھی،کرنل صاحب نے کہا کہ موجودہ حکومت نے صوبے کا وعدہ پورا نہ کر کے ظلم کیا ، اب یہ منجدھارمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ، تمام سرائیکی جماعتوں کو ایک پیج پر آ جانا چاہئے اور آئندہ کے لائحہ عمل بارے سوچنا چاہئے۔ سینئر صحافی سعید خاور نے کہا کہ پچھلے دنوں جھگیوں میں آگے لگنے سے ایک ہی گھر کے پانچ بچے شہید ہوئے ان کا تعلق جمالدین والی صادق آباد سے تھا، صوبائی اور وفاقی حکومت اس مسئلے پر توجہ دے ۔ کراچی کے دوستوں نے کتابوں کے تحائف پیش کئے،خوشی ہوئی کی انحطاط کے اس دور میں بھی کتب شائع ہو رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر