نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت،مکمل احوال

صدارتی ریفرنس پر عدالت نے وفاقی حکومت سمیت اپوزیشن جماعتوں کو نوٹس جاری کر رکھا ہے، گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلا کو تحریری معروضات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت  جاری ہے۔ 

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ  سماعت کررہاہے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منیب اختر بنچ کا حصہ ہوں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل بھی پانچ رکنی لارجر بنچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز ہی میں بینچ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے پر صوبوں کو نوٹس جاری کررہے ہیں ،خیبرپختونخوا اور سندھ کے ایڈووکیٹ جنرلزعدالت میں  موجود ہیں۔

اس کے بعدعدالت کے حکم پر اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے پوچھا سیاسی جماعتوں کو نوٹسز کیے تھے وہ آج موجود ہیں؟کیا صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹسز جاری کریں؟

اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کا حصہ ہیں،

عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹسز جاری کردیئے ۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست سے متعلق مقدمے میں عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے،کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں، قانون کسی کو ووٹنگ سے 48گھنٹے پہلے مہم ختم کرنے کا پابند کرتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں،معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔

جے یو آئی ف کے وکیل نے کہا درخواست میں واضح کیا ہے کہ قانون پر عمل کریں گے،ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں ، چیف جسٹس عمر عطابندیال  کی آبزرویشن  پر عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔

اٹارنی جنرل نے کہا جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ  ہی ختم ہو جائے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا جے یو آئی کا جلسہ تو عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہے؟

عدالت نے کہا ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی پیش رفت پر مطمئن ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا بار کی درخواست کو یہ عدالت اب صرف سندھ ہاوس پر حملے تک محدود رکھے گی،،سندھ حکومت کو اگر کوئی مسئلہ ہو تو عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل نےآئین کے آرٹیکل 63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر دلائل دیتے ہوئے کہا سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا کہا، اٹارنی جنرل کی جانب سے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ضمیر تنگ کررہا ہے تو مستعفی ہو جائیں،

اس پر چیف جسٹس نے کہا 1992کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں۔ آرٹیکل 63  اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آرٹیکل 63،62اے کو  الگ الگ نہیں پڑھا جاسکتا، عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی ہے ۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے مزید کہا آرٹیکل 17 اور 18 عام شہریوں کا آزادانہ ووٹ کا حق دیتا ہے،عام شہری اور رکن اسمبلی کےووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کیلئے قوانین الگ الگ ہیں،سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں،عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کی آبزرویشن دی،عدالت نے کہا مسلم لیگ بطور جماعت کام نہ کرتی تو پاکستان نہ بنتا، عدالت نے کہا مسلم لیگ کے ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو پاکستان نہ بن پاتا۔

سیاسی جماعتیں ادارے ہیں،ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا عدالتی فیصلے میں دی گی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا عوام کا مینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حثیت میں سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کے لیے ایوان میں قانون سازی کرتی ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ کہ پارٹی اراکین کو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا چار مواقع پر اراکین اسمبلی کے لیے پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے،پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے ارٹیکل  63اے لایا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا میں غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے، محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بننے کے لیے پارٹی صدر بننا پڑا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے،مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ٹکٹ لیتے وقت امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے،

چیف جسٹس نے کہا دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟ چیف جسٹس

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے، زیادہ تر جہموری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں،کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چئیر ہی چلتی رہے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا معاملہ صرف 63A کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی،انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال پر نہیں جاوں گا،یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑنا چاہیے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کہ کیا فلور کراسنگ کی اجازت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے، کیا اپ پارٹی لیڈر کو بادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کسی کو بادشاہ نہیں تو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہئے۔ مغرب کےبعض ممالک میں فلورکراسنگ کی اجازت ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہرمعاشرے کے اپنے ناسورہوتے ہیں،اٹارنی جنرل کیاسیاسی جماعتوں کےاندربحث ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا اس سے زیادہ بحث کیاہوگی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کرپارٹی پرتنقید ہورہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا  ہر رکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لے تو نظام کیسے چلے گا،

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا آرٹیکل 63(4) کے تحت ممبر شپ ختم ہونا نااہلی ہے، ارٹیکل 63(4) بہت واضح ہے،

اٹارنی جنرل نے کہا اصل سوال ہی ارٹیکل 63(4) واضح نہ ہونے کا ہے،خلاف آئین انحراف کرنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی، جو آئین میں نہیں لکھا اسے زبردستی نہیں پڑھا جاسکتا،ارٹیکل باسٹھ ون ایف کہتا ہے رکن اسمبلی کو ایماندار اور امین ہونا چاہیے،

جسٹس منیب اختر نے کہا آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا ہے ،پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے،سیاسی نظام کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے ضروری ہوتی ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کے لیے ارٹیکل 63 Aشامل کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے۔

جسٹس منیب نے کہا ایک تشریح تو یہ ہے انحراف کرنے والے کا ووٹ شمار نہ ہو

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کیا ڈی سیٹ ہونے تک ووٹ شمار ہو سکتا ہے؟اٹھارہوں ترمیم میں ووٹ شمار نہ کرنے کا کہیں ذکر نہیں ۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کسی کو ووٹ ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔

اٹارنی جنرل نے کہا یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں،

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا بلوچستان میں دونوں گُروپ باپ پارٹی کے دعویدار تھے، سب سے زیادہ باضمیر تو مستعفی ہونے والا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے،آرٹیکل 63A میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے۔

چیف جسٹس نے کہا آرٹیکل 63اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے،عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں۔ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہیئں،عدالت نے آرٹیکل کو 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے،

چیف جسٹس نے کہا جتنامرضی غصہ ہوپارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے،مغرب میں لوگ پارٹی کےاندرغصےکا اظہارکرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے  اس موقع پر کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ اور کتنا وقت لینگے؟

اٹارنی جنرل نے کہا میں مزید تین گھنٹے دلائل دونگا۔

چیف جسٹس نے کہا کل ھمارا ایک جج ریٹائر ہورہا ہے،کیا پیر تک سماعت ملتوی کریں،سب مشورہ دیں؟ ہم اس پر سماعت کل نماز جمعہ کے بعد کرینگے

فاروق ایچ نائیک نے کہا ممکن ہو تو پیر تک سماعت ملتوی کریں۔

رضا ربانی نے کہا میں یہ کہتا ہوں کہ یہ صدارتی ریفرنس ناقابل سماعت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ھم چاھتے تھے کہ آپ کو عدالتی معاون مقرر کرتے لیکن چونکہ اپ ایک پارٹی سے ہیں تو اس لئے مقرر نہیں کیا۔۔ھم یہاں سب کو سنیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کل جمعہ نماز کے بعد عدالت ایک گھنٹے تک کیس کی سماعت کریگی،

صدارتی ریفرنس پر عدالت نے وفاقی حکومت سمیت اپوزیشن جماعتوں کو نوٹس جاری کر رکھا ہے، گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلا کو تحریری معروضات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے واضح کیا تھا کہ صدارتی ریفرنس کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کاروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے تھے کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جاسکتا۔

عدالت نے قرار دیا کہ صدارتی ریفرنس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے جلد فیصلہ کیا جائے گا، جسٹس قاضی فائز عیسی لارجر بنچ میں سینئر ججز کو شامل نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ باراورجے یو آئی ف نے صدارتی ریفرنس پراپنے اپنے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے۔

سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں رکن قومی اسمبلی کے ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دے دیا۔ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کسی سیاسی جماعت کا حق نہیں ہے۔

کسی رکن کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جا سکتا، آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ڈائریکشن کیخلاف ووٹ ڈالنے پرکوئی نااہلی نہیں، جے یو آئی نے موقف اختیارکیا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے۔

سپریم کورٹ بارنے اپنے جواب میں کہا ہے کہ عوام اپنے منتحب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت چلاتے ہیں، آرٹیکل 63 کے تحت کسی بھی رکن کو ووٹ ڈالنے سے پہلے نہیں روکا جاسکتا۔ آرٹیکل 95 کے تحت ڈالا گیا ہر ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے۔ ہر رکن قومی اسمبلی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں خودمختار ہے۔ دوسری جانب جے یو آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا گیا ہے تحریک انصاف میں پارٹی الیکشن نہیں ہوئے۔ جماعت سلیکٹڈ عہدیدار چلا رہے ہیں، سلیکٹڈ عہدیدار آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی ہدایت نہیں کر سکتے۔

سپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا، لازمی نہیں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی ریفرنس پر رائے دی جائے۔ سپریم کورٹ نے پہلے رائے دی تو الیکشن کمیشن کا فورم غیر موثر ہو جائے گا۔ آرٹیکل 63 اے پہلے ہی غیر جمہوری ہے۔ ریفرنس سے لگتا ہے صدر وزیراعظم اور سپیکر ہمیشہ صادق اور امین ہیں اور رہیں گے۔

پارٹی کیخلاف ووٹ پر تاحیات نااہلی کمزور جمہوریت کو مزید کم تر کرے گی۔

جے یو آئی نے جواب جمع کرایا ہے کہ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے دائرے سے باہر ہے، صدارتی ریفرنس پارلیمنٹ کی بالا دستی کو ختم کرنے کے مترادف ہے، صدارتی ریفرنس بغیر رائے دیئے واپس کردیا جائے۔

About The Author