ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدم اعتماد کی تحریک پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی آئینی مدت ختم ہو گئی ، تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25مارچ کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ 25 مارچ کو بھی اجلاس مرحوم ایم این اے کے لیے دعائے مغفرت کے بعد ملتوی کردیا جائے گا اور اس روز بھی تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوگی۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اجلاس بلا کر جب تک چاہوں ملتوی کر دوں، سپیکر کی یہ بات درست نہیں ہے اور اسے حکومت کی طرف سے فرار کا راستہ اختیا رکرنے کا حربہ قرار دیا جائے گا۔اپوزیشن نے حکومت کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر قانونی کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔حکومت کو آئینی طور پر عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا چاہئے کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں نے اپنی قانونی حکمت عملی پر غور شروع کردیاہے ۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آئینی طور پر 14دن کے اندر اجلاس بلانے کی شق رکھی گئی ہے جو کہ سپیکر نے اجلاس بلا کر پوری کر دی ہے حالانکہ آئینی طور پر ریکوزیشن جمع ہونے کے بعد 14دن کے اندر اسمبلی اجلاس کی کارروائی ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میں آج جو لوگ شامل ہیں یہ دوسری جماعتوں سے آئے ، مخدوم شاہ محمود قریشی ، مخدوم خسرو بختیار، فواد چوہدری،شیخ رشید، عثمان بزدار سمیت دیگر لوگ تحریک انصاف کا حصہ نہ تھے۔
کچھ عرصہ کیلئے معروف سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی بھی ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے مگر ان کیخلاف آرٹیکل 63اے کی نہ کارروائی ہوئی نہ تشریح پوچھی گئی، اس کے باوجود حکومت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر دیا ہے ، صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے 4سوالوں کا جواب مانگا گیا،اگر پوچھے گئے سوالات کے مطابق نا اہل ہونا ہے تو پھر یہ قانون ان پر بھی لاگو ہوگا جو کل تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ عمران خان نے نیوٹرل کی مخالفت کی ہے مگر نیوٹرل والوں نے دوسرے فریق کی حمایت کی تو اس وقت رد عمل کیا ہوگا؟۔
عمران خان نے بھارتی خارجہ پالیسی کی تعریف کر کے گویا اپنی خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دیا تو سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان پر 50 ہزار روپے جرمانہ کیا، مگر یہ بھی دیکھئے کہ اگر یوسف رضا گیلانی کو 30 سیکنڈ کی سزا وزارت عظمیٰ سے برطرف کر سکتی ہے تو اس جرمانے کی بھی وضاحت آنی چاہئے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ پارٹی سے منحرف ہونے والے ارکان کی اولادوں کو لوگ رشتہ نہیں دیں گے جبکہ جو عمران خان کے ساتھ شامل ہوئے وہ بھی اسی طرح کے جرم کے سزاوار تھے، ان کو رشتے مل گئے ،
فواد چوہدری کہتے ہیں کہ منحرف ہونے والے پوری زندگی کیلئے نا اہل ہوں گے ، اس کلچر کو ختم ہونا چاہئے کہ عمران خان جب کسی دوسری جماعت کے لوگوں کو توڑ کر شامل کرتے تھے تو اس وقت کہا جاتا تھا کہ عمران خان نے فلاں کی پہلی وکٹ گرا دی ، دوسری وکٹ گرا دی ، کل جو کچھ دوسروں جماعتوں کے ساتھ ہو رہا تھا آج تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے تو اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہئے، یہ سب فصلی بٹیرے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو نسل در نسل اقتدار کے مراکز کا طواف کرتے آ رہے ہیں، جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح یہ اقتدار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، چڑھتے سورج کے پجاری یہ الفاظ ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ نظریاتی سیاست ؟ ان کے نزدیک یہ احمقانہ باتیں ہیں، اقتدار پرست جماعتوں کیلئے یہ احمقانہ بات ہو سکتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ الگ صوبے کیلئے نصف صدی سے جدوجہد ہو رہی ہے، بہت سی جماعتیں اس میدان میں ہیں جو بے لوث کام کر رہی ہیں اور سرائیکی رہنما یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کانٹوں کا سفر ہے اور یہ مسلسل اپوزیشن ہے ، کرسی ، عہدہ ، یا اقتدار کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ، یہ باری والا مسئلہ بھی نہیں کہ آج تحریک انصاف یا ن لیگ کی باری ہے تو کل ان کی باری ہو گی ، اس کے باوجود لوگ وسیب کی محرومی کے خاتمے ، وسیب کے حقوق ، صوبے کے قیام اور پاکستان کے استحکام کیلئے جدوجہد کر رہے ہیںتو اس کا نام نظریاتی سیاست ہے۔ جو مفادات کی سیاست کر رہے ہیں ان کے بارے میں کہنا چاہئے کہ وہ نظریاتی نہیں، مگر جو نظریاتی ہیں ان کو داد ملنی چاہئے ۔
گزشتہ روز ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسل میں سرائیکی ثقافتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے مشیر حنیف خان پتافی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سول سیکرٹریٹ کی صورت میں صوبے کی بنیاد رکھ دی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت صوبہ بنائے گی، تقریب کے میزبان ڈاکٹر احسان چنگوانی اور نعمان خان چنگوانی نے کہا کہ وسیب کے لوگ جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کو مسترد کرتے ہیں، وسیب کے لوگوں کو وعدے کے مطابق صوبہ دیا جائے۔ اس موقع پر میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ عمران خان صوبہ بنانے کے معاملے پر سنجیدہ نہیں، ساڑھے تین سالوں میں صوبہ کمیشن تو کیا صوبہ کمیٹی بھی نہیں بنائی جا سکی، تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو آغاز میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے کہا کہ تحریک انصاف صوبے کا بل اسمبلی میں لائے ہم حمایت کریں گے۔ اگر عمران خان مدبر سیاستدان ہوتے تو یہ کوئی بڑی قربانی نہیں تھی۔ اقتدار آج ہے کل نہیں مگر اس اقدام سے وفاق پاکستان کے توازن اور وسیب کے بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ حل ہو جاتا، تاریخ پاکستان میں عمران خان کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا، آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ اندھیرے اور سراب کے سوا کچھ نہیں ، وسیب کے لوگ ماتم کناں ہیں کہ عمران خان نے وسیب کے ساتھ وہ کام کیا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم ، تم کو بھی لے ڈوبیں گے ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر