حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ ہائوس اسلام آباد میں مقیم پی ٹی آئی کے 4ارکان قومی اسمبلی کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہے۔ دانشوری کا ’’ہَڑ‘‘ آیا ہوا ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی نے مزید ارکان اسمبلی کہیں چھپارکھے ہیں۔
حکمران جماعت کے چند ارکان محفوظ ہاتھوں میں ہیں والی بات چودھری پرویزالٰہی نے کی تھی۔ اب شیخ رشید کہہ رہے ہیں سندھ میں گورنر راج لگادیا جائے۔ درست بات یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے جس رکن قومی اسمبلی کو پارٹی پالیسی یا عمران خان سے اختلاف ہے وہ مستعفی ہوتا اور پسندیدہ پارٹی کے ٹکٹ پر حلقہ انتخاب کے رائے دہندگان سے دوبارہ رجوع کرتا۔ سیاست کا بنیادی اصول یہی ہے۔
چند ساعتوں کے لئے سانس لیجئے۔ کمپنی بہادر کے دبائو پر سیاسی جماعتوں سے لوگوں کو توڑ کر نئی پارٹی بنانا یا یوں کہہ لیجئے پہلے سے موجود ایک غیر موثر پارٹی میں ’’نئی روح‘‘ پھونکنا تبدیلی کی غلط شروعات تھی۔
اگلے مرحلے میں جہانگیر ترین کے جہاز میں ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنروں کی مدد سے بندے لاد کر بنی گالہ لے جانا بھی یکسر غلط تھا۔ 2018ء میں کمپنی بہادر نے وہی کیا جو 1988ء میں کیا تھا۔
اس ملک میں ہمیشہ سے طبقاتی جمہوریت کے اکھاڑ پچھاڑ میں پارٹیاں اور چہرے تبدیل ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی جب کمپنی بہادر یہ سمجھتی ہے کہ عوام نامی رعایا کے جذبات میں مسائل کی وجہ سے ہلکا پھلکا ’’ابال‘‘ آرہا ہے کچھ نہ کچھ ایسا ہونے لگتا ہے کہ لمبی جدوجہد کے لئے ہمت و حوصلہ پکڑتے لوگ تماشبین بن جاتے ہیں اور پھر تماشبینوں کی توانائی تحسین کی تالیوں اور اختلافات کے نعروں میں ماند پڑجاتی ہے۔
اصولی طور پر تو یہ عمران خان کے سوچنے کی باتیں تھیں کہ انہوں نے غیر منتخب وزیروں۔ پرنسپل سیکرٹری اور شیخ رشید کی ’’قابلیتوں‘‘ کی پیروی کرنی ہے یا رائے دہندگان سے کئے وعدوں کا پاس رکھنا ہے۔
معاف کیجئے گا آپ برا مناجائیں گے لیکن خان بھی اسی طبقاتی جمہوریت کا ہی ایک کردار ہے۔ خیر چھوڑیئے ہم یہ بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھارکھتے ہیں۔ فی الوقت دکھ اور طرح کے ہیں دوا اور طرح کی والا معاملہ ہے۔
ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہمارے سامنے آفتاب کو پھانسی چڑھایا گیا اور مہتاب کو سڑک پر اڑادیا گیا۔ باقی جو بچ رہے وہ خوف کا شکار ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یا طبقاتی جمہوریت کے منتخب ادارے ؟ معاف کیجے گا یہ چشمے کہیں اور ہیں۔ سبھی ان چشموں سے پیاس بجھانے کے شوقین ہیں۔
نصف صدی سے ساڑھے تیرا برس اوپر سے تو ہم دیکھتے آرہے ہیں۔ اصولی طور پر ہماری نسل کو کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم عوام کے حق حاکمیت کو منوانے میں ناکام رہے۔ ہاں یہ ضرور بتانا چاہیے کہ پیروں۔ مخدوموں، چودھریوں، جاگیرداروں، تمن داروں، صاحبزادوں، سرداروں اور خان بہادروں کی نئی نسل کے ساتھ ساتھ کھمبیوں کی طرح اگ آئے تاجر سیاستدانوں کی محبت میں گرفتار ہوکر ہمارے چاراور کے لوگوں نے بھی ہماری بات نہیں سنی۔
معاف کیجئے میں کسی انقلاب کا بھاشن نہیں لکھ رہا جو آپ پڑھیں گے ہمارے عصر کی حقیقت یہی ہے۔ آفتابوں اور مہتابوں سے محروم ہجوم کا مقدر یہی ہے۔ کمپنی بہادر کی پوجا کو ایمان کا حصہ بنائے لوگ ہوں یا شخصی تعصب میں گرفتار کسی سے بھی شکوہ فضول ہے۔
مکرر عرض کرتا ہوں جماعتوں کو توڑ کر کسی پسند کی جماعت میں روح پھونکنے سے وقتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ وقتی مفادات ہمیشہ بالادست طبقات کے ہوتے ہیں۔ رعایا کو عوام بنانا اور پھران کے مفادات کے لئے سوچنا اور عمل کرنا طویل المدتی کام ہے۔
جو شخص ٹکٹ خریدے کروڑوں روپے انتخابی اخراجات میں پھونکے وہ اپنے لئے سوچے گا یا ہمارے اور آپ کے لئے؟ یہ بنیادی سوال ہے اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ و سیاسیات کے طالب علم کو حیرت ہورہی ہے کہ شیخ رشید عمران خان کو گوربا چوف بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور عمران خان کو کوئی مشورہ دینے والا نہیں کہ جناب شیخ کا کیا ہے مانگے تانگے کی ایک نشست کے علاوہ۔
ہم اور آپ لاکھ اختلاف کریں پی ٹی آئی کی اٹھان کے نئے مرحلے میں سے کیڑے نکالیں کمپنی بہادر کے کردار کو کوسیں لیکن تحریک انصاف ایک حقیقت ہے آج کی حقیقت کل کیا ہوگا یہ کسی کو معلوم نہیں۔
دوسری بسوں، ٹرکوں اور ویگنوں کی سواریاں جب اس کے کنٹینر سے اتر جائیں گی تو پھر اصل واضح ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ماردو جلادو منہ کالا کردو جیسی سستی بڑکوں کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
تحریک انصاف میں سے بھی جس جس کو اپنی جماعت سے اختلاف ہے وہ فلور کراسنگ کی بجائے عوام سے رجوع کرے مثلاً اگر اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف کے 18سے 26 ارکان قومی اسمبلی پارٹی پالیسی سے الگ راستہ اپنارہے ہیں تو پھر انہیں مشورہ دے کر وہ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوجائیں۔ ہاں یہاں یہ سوال ضرور ہوگا کہ کیا یہ گھاٹے کا سودا تو نہیں ہوگا؟
ہمارے نسل کے جن لوگوں نے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات 1988ء کے جماعتی لیکن کمپنی بہادر کی مداخلت والے انتخابات کے ساتھ اگلے مراحل و ادوار میں کمپنی بہادر کی پھرتیاں کھلی آنکھوں سے دیکھیں انہیں سمجھ میں آرہا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ مسائل ہیں بلکہ گلے پڑے ہوئے ہیں ان کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔
کمپنی کا تجربہ اور تبدیلی کے 300ماہرین کی موجودگی کا دعویٰ دونوں کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ دبے دبے لفظوں میں نہیں لوگ بلند آواز سے کہنے لگے ہیں جنہیں چور بتایا جاتا تھا ان کے ادوار میں زندگی اتنی مشکل نہیں تھی جتنی اب ہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے وہ بھی ڈھیر نہیں ہوئے تھے۔
الزامات کی سیاست ،توتکار سے گالیوں میں تبدیل ہوئی یہ غیرسیاسی رویہ ہے۔
کمپنی بہادر اور آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے ساتھ اس صورتحال کی ذمہ دار وہ مصنوعی مڈل کلاس ہے جو اپنے سوا سب کو کم عقل، جاہل و کودن سمجھتی ہے اور خود اسے سیاست و نظام کا الف ہی معلوم نہیں بس لشکری سنڈیوں کی طرح ہے یہ ، رہی لوئر مڈل کلاس تو یہ پانچ سات قسم کے انقلابوں کی ایک ہی وقت میں دیوانی ہوتی ہے۔ اس دیوانگی کے باوجود یہ انقلاب برپا کرنے کے عمل میں شریک ہونے کی بجائے انقلاب کی راہ دیکھتی ہے ٹُک ٹُک۔
مذہبی ریاست و نظام بہر طور ایک نئے جبر کی بنیاد ہیں اس لئے یہ فقط انہیں ہی پسند ہیں جنہیں عبادتوں کی کثرت نے متبکر بنادیا ہے یا ’’تقویٰ‘‘ کے غرور نے ’’مہاجن‘‘۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے یہ کیا لکھ رہا ہوں۔ سچ یہی ہے کہ یہ دل کی باتیں آپ (قارئین) سے ہی کی جاسکتی ہیں۔ گھٹن بہت ہے۔ جنہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس ملک سے نظریاتی سیاست کو دیس نکالا دیا تھا حالت ان کی بھی اب بہت پتلی ہے۔
"سانپ سیڑھی کے کھیل” تحریک عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ نکلنا ہے وہ نکل کر رہے گا کم از کم میری معلومات کے مطابق ’’پارٹی از اوور‘‘۔ ضروری نہیں آپ مجھ سے اتفاق کریں۔ ہاں صرف للکارے مارنے گالیاں دینے، نام بگاڑنے، الزامات کی تکرار سے اپنی سیاست کا رزق چُننے کو اگر آپ کسی کامیابی کا ابتدائیہ سمجھتے ہیں تو خوشی سے سمجھتے رہیں۔
مجھ طالب علم کو اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آچکی تھی کہ یہ سارا دھوم دھڑکا عوامی جمہوریت کی راہ کھوٹی کرنے کے لیئے لگوایا گیا تھا۔
عوامی جمہوریت سے وہی طقبات خوفزدہ ہوتے ہیں جو جواب دہی کو توہین سمجھتے ہیں۔
مکرر عرض ہے کمپنی کے تعاون سے وکٹیں اڑانے کی بڑھکیں اور ترین کے جہاز میں لدے بندوں کو مجاہدِ تبدیلی قرار دینے والوں کو اب منہ بسورنے کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح اگر آج کہیں خریدوفروخت ہورہی ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ ہاں آپ اگر اس ساری صورتحال سے واقعی نالاں ہیں تو پھر یہ سوچئے گا ضرور کہ طبقاتی جمہوریت کا طوق کب تک گلے میں ڈال کر قسمت کو روتے رہنا ہے؟
اپنے ہاتھوں سے اپنی قسمت کیوں نہیں لکھتے۔ آخر کیوں کمپنیوں، آستانوں اور لشکروں کی محبت میں ضائع ہوئی نسلوں کے انجام سے عبرت حاصل نہیں کرتے؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر