محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر کے سیاسی ہلچل تو مچاد ی ہے اور درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا ہے۔جس طرح ہائی پروفائل انداز میں اعلان کیا گیا اور پھر ملاقاتیں شروع ہوئیں، اس سے ایسا نہیں لگتا کہ یہ صرف بلف ہے۔ اپوزیشن دانستہ اس بات کو میڈیا اور سیاسی گپ شپ، ڈرائنگ روم تبصروں کا محور بنانا چاہتی ہے، اسی لئے کارڈز اس انداز میں کھیلے جار ہے ہیں۔
ایسا کرنے کے دو فائدے ہوتے ہیں، ایک تو اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں، اراکین اسمبلی اور کارکنوں کامورال بلند ہونے لگتا ہے، ان میں اعتماد آ جاتا اور کسی نے دائیں بائیں جھانکنے کا سوچ رکھا ہو تو وہ پھر سے اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔دوسرا فائدہ وہی کہ ہر جگہ، ہر فورم پر یہ ڈسکس ہو رہے ہیں، اتنا زیادہ اہم ہونا ہر ایک کو اچھا لگتا ہے۔ منفی نکتہ ایک ہی ہے کہ جب معاملہ ہائی پچ پر لے جایا جائے تو پھراسے پہلے والی لوپروفائل جگہ پر لانا مشکل ہوجاتا ہے، اس طرح کی ڈویلپمنٹس جاری رہیں تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپوزیشن کی اس سیاسی موو کا جائزہ لیا جائے تو چند ایک چیزیں واضح نظر آتی ہیں۔
اس پیش رفت میں آصف زرداری کا مرکزی کردار ہے۔ سندھ کا تجربہ کار گھاگ سیاستدان اچانک اپنی جگہ سے اٹھا اور دورہ پنجاب میں اس نے زوردار سیاسی ارتعاش پیدا کر دیا۔(زرداری صاحب کی سیاست پر الگ سے ایک بلاگ لکھنے کی ضرورت ہے۔) اس سے پہلے ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطوں کی افواہ نما خبریں چلتی رہیں، یہ کہ کچھ لوگ میاں نواز شریف سے لندن جا کر ملے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ معاملہ مگرعمومی طور پر ٹھنڈا ہی تھا۔ زرداری صاحب نے لاہور آ کرشہباز شریف سے ملاقات کی، کہا جاتا ہے کہ بڑے میاں صاحب بھی وڈیو کانفرنس پر موجود تھے۔ اس ملاقات نے گرما گرمی پیدا کر دی۔ زرداری صاحب بعد میں چودھری برادران سے ملے اور یوں شہباز شریف کی چودھریوں سے ملاقات کی راہ بھی ہموار کر ڈالی۔
اس وقت تو اسٹیبلشمنٹ اس موو کے پیچھے نظر نہیں آرہی۔ سردست وہ غیر جانبدار ہیں یا بے نیاز یا پھر دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن میں کتنا دم خم ہے، اپنے طور پر یہ کیا کچھ کر پاتے ہیں؟اسٹیبلشمنٹ اگر اس موو کے ساتھ ہوتی تو سب سے پہلے ایم کیو ایم کو خان صاحب سے شکوے پیدا ہوتے۔ پھر چودھریوں کو خیال آتا کہ مہنگائی بہت کر دی ہے حکومت نے، عوام تنگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی جہانگیر ترین گروپ بھی خم ٹھونک کر کھڑا ہوجاتا۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)والے ابھی کھٹی میٹھی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں، اشارہ ملا ہوتا تو ان کا ردعمل زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہوتا۔
اسٹیبلشمنٹ بعد میں اس کھیل میں شامل ہوگی یا نہیں، اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آ ج تک پاکستان میں کوئی بھی ان ہاؤس تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی اجازت یا تائید کے بغیر ہو نہیں پائی۔ اپوزیشن کے ایک حلقے کا بہرحال یہ مطالبہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ جن کا ایک مہذب سیاسی نام مقتدر قوتیں ہے، یہ غیر جانبدار ہوجائیں اور حکومت کو گرنے سے بچانے کا کام چھوڑ دیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار رہنے کا ایک ضمنی نقصان اپوزیشن کو بھی پہنچے گا۔ عمران خان سے خفا ایک معروف سیاستدان کا اس سیچوئشن پر کمنٹ تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت نہ کی تو تمام تر فائدہ حکومت کو پہنچے گا کہ اس کے پاس ہمیشہ مالی وسائل زیادہ ہوتے ہیں اور وہ ارکان اسمبلی کوخالی خولی وعدہ نہیں بلکہ فوری طور پر بہت کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔
مبصرین اس حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ تب پنجاب میں نواز شریف وزیراعلیٰ تھے، مرکز میں بی بی کی کمزور حکومت تھی، تب کی اسٹیبلشمنٹ بی بی کے سخت مخالف تھی، ایم کیو ایم بھی حکومت سے الگ ہوگئی تھی۔ پھر بھی بی بی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔ اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری کی صورت میں حکومت کے پاس چانسز ہوں گے کہ وہ اتحادیوں کو پرکشش آفرز دے کر یا ناراض ارکان کو منا کر کام چلا سکے۔
گجرات کے چودھری اس پورے منظرنامے میں بہت اہم ہوچکے ہیں۔ پنجاب میں تبدیلی ان کے بغیر لانا ممکن نہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی کامیاب اِن ہاؤس چینج کے لئے چودھری، پلس ترین گروپ کو آن بورڈ لینا بہت ضروری ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر کوئی یہ دیکھے گا کہ تبدیلی کی صورت میں اسے کیا فائدہ ہونا ہے؟ یہ بہت اہم بات ہے۔ چودھری بھی اچھی طرح ہر چیز کو کیلکولیٹ کریں گے، جہانگیر ترین بھی، پنجاب کا ہم خیال گروپ بھی جبکہ باقی اتحادی دھڑے بھی اپنے لئے بہتر بارگین لینے کی کوشش کریں گے، چاہے کہیں سے ملے۔
ایک اور بات ہے کہ چودھری، پیپلزپارٹی اور ترین گروپ کے ارکان اسمبلی فوری الیکشن نہیں چاہتے۔ کم از کم ایک سال مزید یہ اسمبلیوں میں رہ کر فوائد لینا چاہتے ہیں۔ اسمبلیاں تڑوانا اور فوری الیکشن کرانا صرف ن لیگ چاہتی ہے۔ یہ ن لیگ کو وارے کھاتا ہے۔ہ اسے لگتا ہے کہ الیکشن ابھی ہوا تو وہ آسانی سے پنجاب سے صفایا کر کے اگلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی اس کا فائدہ ہے، کیونکہ وہ خود باہر بیٹھے ہیں اور کے پی اسمبلی میں ان کی جماعت ان ہاؤس تبدیلی نہیں لا سکتی۔
چودھری پرویز الٰہی کوپنجاب اسمبلی کی باقی مدت کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا جائے تو وہ رضامند ہوسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ ن لیگ البتہ اس پر کئی بار سوچے گی، کیونکہ چودھریوں کو وزیراعلیٰ بنانے کا مقصد اگلے انتخابات میں انہیں زیادہ سپیس دینا ہے اور انہیں سپیس دینے کا مقصد ن لیگ کے اپنے حصے میں کمی ہے۔
ایک اور رکاوٹ بھی ہے کہ شریف خاندان اپنے وعدے پورے نہ کرنے کے حوالے سے خاصا بدنام ہے، ماضی میں پیپلزپارٹی بھی شکوہ کر چکی ہے کہ یہ وعدے کر کے مکر جاتے ہیں۔ چودھری بھی شریف فیملی کے وعدوں پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتے۔ ان سب کو خطرہ ہے کہ ایک بار پی ٹی آئی حکومت تبدیل ہوگئی تو اصل قوت ن لیگ کے ہاتھ میں آ جائے گی اور وہ کوئی حیلہ بہانہ کر کے اسمبلی تڑوا دے گی۔ اسی نکتہ پر لگتا ہے باقاعدہ ضمانتی مانگنے پڑیں گے اور ٹھوس یقین دہانیوں کے بعد ہی آخری وار کیا جا سکے گا۔
اتوار اور پیر کے روز مختلف صحافی دوستوں سے بات ہوتی رہی، جو پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ق لیگ کو باقاعدہ مانیٹر کرتے ہیں، ان کے پاس ان سائیڈ خبریں بھی ہوتی ہیں۔ یہ سب اس پر متفق ہیں کہ ابھی بہت کچھ ہوناباقی ہے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہونا بھی ایک ڈویلپمنٹ ہے، جس کے اثرات گہرے ہوسکتے ہیں، مگر ابھی ہانڈی چولہے پر چڑھائی نہیں گئی۔ ابھی سبزی کاٹی جا رہی، گوشت دھل رہا ہے۔
یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ ابھی تک نمبر ز پورے نہیں۔ جب تک اتحادی نہ ٹوٹیں مرکز میں حکومت کو خطرہ نہیں کیونکہ اٹھارویں ترمیم کی رو سے جو پی ٹی آئی رکن اسمبلی اپوزیشن کا ساتھ دے گا، وہ فوری نااہل ہوجائے گا۔ البتہ سیاسی اتحادی (ایم کیو ایم، ق لیگ، باپ، جی ڈے اے)جب چاہیں اپنا الگ لائحہ عمل بنا سکتے ہیں، ان پر کسی قسم کی آئینی پابندی نافذ نہیں ہوتی۔
سردست یہ پوزیشن ہے کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی طرف چل پڑی ہے، اعلان انہوں نے پہلے کیا اور ہوم ورک بعد میں شروع کر رہے ہیں حالانکہ اس کے برعکس ہوتا ہے کہ اچھی طرح ہوم ورک کر کے اچانک سرپرائز دیا جاتا ہے۔ بہرحال اپوزیشن کے لئے ابھی چیلنج ہیں، کئی منزلیں انہوں نے طے کرنی ہیں۔ حکومت کے پاس بھی آپشنز کھلی ہیں، اگر عمران خان سیاسی میچور رویے کا مظاہرہ کریں اور اپنے سیاسی وزرا (پرویز خٹک، فواد چودھری، شیخ رشید، شاہ محمود قریشی وغیرہ)کو فرنٹ پر لا کر استعمال کریں تو ان کو فائدہ ہوگا۔
اگر خان صاحب اپنی کسی موو یا ”اعلان“سے ”بھائی لوگوں“ کو اپنی ممکنہ غیر جانبداری تر ک کر کے اپنی حمایت پر تیار کر لیں تو پھر یہ میانداد کے شارجہ والے چھکے کے مترادف ہوگا۔ ایسا نہ ہوا تو گیم ففٹی ففٹی ہوگی۔ آصف زرداری جیسا شاطر سیاستدان اگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے جت جائے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر