نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماں بولی دن پر کچھ گپ شپ||محمد عامر خاکوانی

ماں بولی دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی مادری زبان سے محبت کرو، مگر دوسروں کی مادری زبانوں کو بے توقیر اور کم اہم نہ سمجھو اور نہ ہی ان کی شناخت چھیننے کے درپے ہو۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی شناخت اپنے انداز میں کرائے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سنا ہے ماں بولی کا دن گزرا ہے۔ میری مادری زبان سرائیکی ہے۔ ہم خاکوانی نسلاً پٹھان ہیں۔ افغان صوبہ ننگرہار کے علاقہ خگیان سے آئے تھے تو خوگانی یا خوگیانی کہلائے جو بعد میں بگڑ کر خاکوانی ہوگیا۔ خاکوانیوں کی خاصی تعداد احمد شاہ ابدالی کے ساتھ آئی تھی۔ ابدالی نے پٹھانوں کو ملتان کا حاکم بنا دیا۔ سدوزئی اور کچھ عرصے کے لئے خاکوانی بھی یہاں کے نواب رہے۔ آخری نواب مظفر خان سدوزئی سکھوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے تو ان کے ساتھ بہت سے خاکوانیوں نے بھی جانیں دیں، کئی وزرا بھی خاکوانی تھے۔

ہمارے گھروں میں البتہ پشتو کی جگہ سرائیکی ہی بولی جاتی رہی ہے۔کم از کم تین چار نسلوں سے تو یہی پوزیشن ہے۔ صرف خاکوانی ہی نہیں بلکہ سرائیکی وسیب میں پٹھانوں کے کئی قبیلے آباد ہیں۔ خاکوانی، ترین، سدوزئی، علیزئی، ملیزئی، باموزئی، بارک زئی، اسماعیل زئی، بابر وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر یہ لوگ ملتان، ضلع لودھراں (دنیا پور، کہروڑ، لودھراں)،میلسی، بہاولپور ڈویڑن، ڈی جی خان، بھکر، لیہ اور پھر ڈی آئی خان میں آباد ہیں۔

نسلاً یہ سب پٹھان ہیں، بہت سوں میں وہی رنگ روپ، قد کاٹھ اور مخصوص غصہ،ضد، انا وغیرہ جبکہ کچھ گھرانے مقامی شادیوں وغیرہ کی وجہ سے سانولش بلیک یا بلیکش سانولے ہوچکے ہیں۔ (نیوجرسی امریکہ میں مقیم ہمارے بہت پیارے دوست نے یہ اصطلاح وضع فرمائی تھی، ایک دن کہنے لگے کہ بعض ناہنجار لڑکے میرے رنگ کو سانولش بلیک قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ بلیکش سانولا ہے، یعنی زور کالے کے بجائے سانولے پر دیا جائے۔)

ہماری والدہ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا، وہ ترین پٹھان جبکہ والد احمد پورشرقیہ کے خاکوانی پٹھان تھے۔ خاکوانیوں اور ترینوں کی آپس میں بہت رشتے داریاں ہیں اور ایک دوسرے کے حوالے سے مذاق بھی چلتا رہتا ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ بلوچستان کے پشتون ترین اور سرائیکی ترین ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اگرچہ ان دونوں کا نسب چند پشت پیچھے جا کر آپس میں مل جاتا ہے۔

اپنی ماں سے میں نے ڈیرہ کا مخصوص سرائیکی لہجہ سنا اور کچھ مخصوص الفاظ جو ہم ریاست بہاولپور کے سرائیکی نہیں بولتے۔ جیسا کہ ڈیرے وال اردو لفظ ”پھر“کی جگہ سرائیکی لفظ وَت استعمال کرتے ہیں۔ ریاست بہاولپور میں وت کی جگہ وَل استعمال ہوتا ہے اور بہت سی جگہوں پر یہ برتا جاتا ہے۔ جیسے میں اتھاں گیاں ول وی کم نہیں تھیا(میں وہاں گیا، مگر پھر بھی کام نہیں ہوا)، تو قصہ سنڑیندا پیا ھویں ول کیا تھیا؟(تم جو قصہ سنا رہے تھے، اس میں پھر کیا ہوا؟)وغیرہ وغیرہ۔

ملتان، بہاولپور وغیرہ میں لفظ سائیں بہت استعمال ہوتا ہے، ہم لوگ ہر کسی کے ساتھ احتراماً یا ویسے ہی بات آگے بڑھانے کے لئے لفظ سائیں لگا دیتے ہیں، آئے وے سائیں، کیا حال ھِن سائیں، واہ سائیں واہ تساں خبر وی نہیں گِھدی وغیرہ وغیرہ۔ ڈیرے وال سائیں کی جگہ لفظ صاحب استعمال کرتے ہیں۔ کیا حال ھ صاحب، آئے وے صاحب، واہ صاحب واہ تساں فون دا جواب وی نہیں ڈتا وغیرہ وغیرہ۔

ہم لوگ مٹھڑیاں لفظ استعمال کرتے، ڈی آئی خان جا کر پتہ چلا کہ اسے گمبھیریاں کہتے ہیں۔اردو کی اروی اور ہمارے علاقے کی اربی ڈیرہ جا کر کچالو بن گئی تو حیرت ہوئی۔ سرائیکی زبان میں دودھ کو کھیر کہا جاتا ہے، جبکہ اردو کی کھیر سرائیکی میں کھیرنی کہلاتی ہے۔ اپر پنجاب سے لوگ سرائیکی وسیب جائیں تو یہ بات انہیں ابتدا میں سمجھ نہیں آتی۔ اداکار جاوید کوڈو نے ایک بار بتایا کہ بہاولپور سٹیج ڈرامہ چل رہا تھا، کسی اداکار نے کہا کہ منجھ (پنجابی کی مج اور اردو کی بھینس)دا کھیر پیتا کر۔ کوڈو ہنس پڑا کہ مج دودھ دیتی ہے، کھیر خود بناؤ گے تو بنے گی۔ پھر کسی نے سمجھایا کہ سرائیکی میں ددھ یا دودھ کو کھیر کہتے ہیں۔ ڈیرے وال گھروں میں دودھ فراہم کرنے والے کو کھیری کہتے، ہم بہاولپوری بچے یہ سن کر ہنستے، جواباً وہ ہمارا مذاق اڑاتے۔

ڈیرہ، بھکر کا سرائیکی لہجہ بڑا مزے دار ہے، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، کلپ وائرل ہوجاتے ہیں، وہاں کے لہجہ میں کامیڈی کے کئی کلپ وائرل ہوئے۔ اس میں بے ساختگی اور نیچرل شگفتگی ہے جس میں سلینگ کا خاصا تڑکا ہے۔ سرائیکی میں زیر کے ساتھ لفظ پِھٹ جانا کا استعمال دودھ خراب ہونے کے حوالے سے ہوتا ہے، کھیر کو کینی ابالا تے او پِھٹ گئے (دودھ کو نہیں ابالا گیا تو وہ پھٹ گیا یعنی خراب ہوگیا۔)ہمارے ڈیرے وال عزیز پِھٹ جانے کو گم ہوجانے کے حوالے سے بھی برتا کرتے۔ بچوں کو کہتے کہ باہر نہ جاؤپِھٹ جاؤ گے، جیسے”وُئے مانی آ باہروں نہ ونج پِھٹ ویسیں۔“یہ بات سن کر ایک بے ساختہ مسکراہٹ ہمارے لبوں پر آ جاتی، جسے آداب مہمانی میں چھپا جاتے۔ سرائیکی میں لفظ اوئے نہیں ہے بلکہ پیش کے ساتھ وُئے بولا جاتا ہے، وُئے گالھ دا سنڑ (او یار بات تو سن)۔

بہاولپور، ملتان کے سرائیکی لہجوں میں چیونٹی کو ”کویلی“ کہتے ہیں، چند سال پہلے ایک سرائیکی شاعری کی کتاب کویلی دی کاوڑ (چیونٹی کا غصہ)بھی دیکھی تھی۔ ڈیرے وال کویلی کو پپیلی کہتے اور ان کا اصرار ہوتا کہ یہی اصلی، نسلی لفظ ہے۔ ظاہر ہے ہم نے کہاں ماننا تھا۔ ہم پپیلی کے صوتی تاثر میں نقص نکالتے تو وہ کویلی پر منہ پھاڑ کر ہنسا کرتے۔ اردو کا گدھا اور پنجابی کا کھوتا بہاولپوری سرائیکی میں بھی کھوتا کہلایا مگر ڈیرہ اسماعیل خان والے اسے”کَھرکا“ کہتے۔

مجھے ڈیرہ میں تو یاد نہیں البتہ ڈی جی خان خاص کر تونسہ اور لیہ والے عورت کو تریمت کہتے ہیں۔ یہ میں نے اپنی پوری زندگی بہاولپور ملتان میں نہیں سنا تھا۔ ہمارے ہاں عورت کو رن کہا جاتا، بیوی زال جبکہ خاوند کے لئے ٹھیٹھ سرائیکی لفظ پے ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ کچھ سرائیکی الفاظ مخصوص سا?نڈ کے ساتھ بولے جاتے ہیں جیسے ڈہی، ڈاڈا وغیرہ۔ اسی طرح سرائیکی عورت جب پیار بھرے انداز میں لفظ پے بولتی ہے کہ میرا پے میکوں اے آکھ گے، تو اس کی مٹھاس دیدنی ہوتی ہے۔

میں ڈیرہ کا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہاں میرا اپنے ماموں کے گھر بہت وقت گزرا ہے اور اپنے کزنز، ان کے دوستوں، گھر کی خواتین سے یہی الفاظ سنے ہیں، ورنہ یہ الفاظ قریبی علاقوں ٹانک، بھکر، لیہ وغیرہ میں بھی ممکن ہے رائج ہوں گے۔ میں نے خیر لفظ کَھرکا سے یہ فائدہ اٹھایا کہ اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے جب یہ لفظ کہا تو انہوں نے قطعی مائنڈ نہیں کیا، چھوٹا عبداللہ ابھی تک اسے کوئی پیار بھرا نک نیم سمجھتا ہے۔یوں ہمارا غصہ نکل گیا اور بچے بھی ریلیکس رہے، ورنہ آج کل تووہ فوری مائنڈ کر جاتے ہیں اور ان کی عزت نفس وغیرہ خطرے میں پڑنے لگتی ہے۔

سرائیکی کے تین چار معروف لہجے ہیں، ریاستی (بہاولپور ڈویژن خاص کر بہاولپور، رحیم یار خان اضلاع)، ملتانی (ملتان، لودھراں،میلسی، وہاڑی وغیرہ)، ڈیروی (ڈیرہ غازی خان، راجن پور، تونسہ وغیرہ)جبکہ جھنگوی لہجہ میں شور کوٹ وغیرہ کے علاقے آتے ہیں، تاہم ان میں سے کچھ سرائیکی کہلانے کے بجائے جھنگوچی کہلانا پسند کرتے ہیں اور کم از کم میں ان کے اس حق کا احترام کرتا ہوں۔ ڈی آئی خان کا لہجہ ڈی جی خان سے خاصا مختلف ہے، بھکرکا بھی ملتا جلتا ہے۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ چند الفاظ کا فرق ہے یا پھر بات کو کہنے کا اسلوب مختلف۔ ہر جگہ نہایت آسانی سے ایک دوسرے کی بات سمجھی جاتی ہے اور نوے فیصد سرائیکی ذخیرہ الفاظ مشترک ہے۔

سرائیکی میں آگ کو بھاہ کہتے ہیں، یہ ملٹی پرپز لفظ ہے جو بے شمار جگہوں پر استعمال ہوتا ہے۔ چودھری شجاعت کا مٹی پا? سرائیکی میں ”بھاہ لا?“بن جائے گا۔ یہ کسی چیز سے جان چھڑانے کا اظہار بھی ہوسکتا ہے، بھاہ لا(آگ میں جھونکو)، دل میں بھانبھڑ جل رہے ہیں کا سرائیکی اظہار بنے گا، ”ہاں وچ بھاہ لگی پئی اے (دل میں آگ بھڑک رہی ہے)۔بات ختم کرنی ہو، زندگی میں موو آن کرنا ہو تو سادہ اظہارایک ہی جملے میں، ”بھا ئلا? تے ٹُری چلو۔“

اسی بھا کی طرح کا ایک اور غیر معمولی استعمال ہونے والا لفظ ”ھاں یا ہاں“ہے۔ سرائیکی میں دل کو ہاں کہتے ہیں۔ ہوندی گالھ میرے ہاں دے وِچ لگی اے (اس کی بات میرے دل میں پیوست ہوگئی)، میڈے ھاں کو کجھ تھیندا پے(میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے)۔ سرائیکی میں شدید بھوک کا اظہاریہ دلچسپ ہے، اس میں بھی لفظ ہاں استعمال ہوتا ہے، میڈا ھاں لڑھدا ویندے(یعنی بھوک سے انتڑیاں قل ھو واللہ پڑھ رہی ہیں، پیٹ چوہے دوڑرہے ہیں، دل ڈوبا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ)۔

ایک اور دلچسپ استعمال ہے میڈا ھاں نہ کھا (میرا دماغ نہ چاٹ، تنگ نہ کر وغیرہ)۔ سرائیکی ماؤں کا یہ پسندیدہ جملہ ہے، بچوں کو کہا کہ میڈا ہاں نہ کھاؤبہوں تھی گئی اے (اب مجھے مزید تنگ نہ کرو، بہت ہوچکا)۔ہمارا آٹھ سالہ برخوردار سرائیکی کا یہ لفظ نہایت سنجیدگی سے استعمال کرتے ہوئے اکثر اپنی ماں سے کہتا ہے، مما میں آپ کا ہاں کھاتا رہوں گایعنی میرا اس شرارت سے دستبردار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔

سرائیکی میں سالن کو بوڑ کہا جاتا ہے جبکہ ہانڈی کو کُنی یا اگر دیگچہ ہو تو اسے کُنہ بھی کہا جاتا ہے جیسے اج ساگ دا کنہ چڑھا پے (آج ساگ کا بڑا دیگچہ پکا رہے ہو)،چنیوٹی مشہور سالن کُنہ شائد یہیں سے بنا۔ ڈیرہ اسماعیل خان والے البتہ کُنی کی جگہ لفظ کٹوی استعمال کرتے، میں اج سویل نال کٹوی پکا گھدی ہائی(میں نے آج صبح سویرے ہی سالن پکا لیا تھا)۔چھری سرائیکی میں کاتی کہلاتی ہے۔ کلہاڑا کو کہاڑا اور سائیکل کو سیکل،سویر کو سویل کہا جاتا ہے۔گہرا دلدل نما کیچڑ سرائیکی میں گَپ جبکہ عام کیچڑ کو چکڑ کہا جاتا۔

لفظ ”بئی“سرائیکی میں مزید یا دوسری یا اور کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ایک گجراتی ڈاکٹر دوست نے بتایا کہ وہ نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ہاسٹل میس میں کھانا کھا رہا تھا، ویٹرنے آ کر پوچھا، ڈاکٹر صاحب بئی روٹی گھن آواں (اور روٹی لے آؤں)۔ ان ڈاکٹر صاحب کے بقول ان کے علاقہ میں بئی باسی چیز کو کہتے ہیں، انہوں نے تنک کر ویٹر کو کہا کہ نہیں تازہ روٹی۔ ویٹر غریب نے پھر دہرایا کہ بئی روٹی گھن آواں۔ ڈاکٹر صاحب اس پر برہم ہوگئے کہ یہ کم بخت مجھے باسی روٹی کیوں کھلانا چاہتا ہے۔ ساتھ والی میز پر بیٹھے مقامی ڈاکٹر نے مداخلت کر کے انہیں سمجھایا کہ ویٹر تازہ روٹی ہی لائے گا، مگر سرائیکی میں مزید کو بئی کہتے ہیں۔

سرائیکی زبان کی گرائمر اور شائد روٹس سندھی سے ملتی جلتی ہیں۔ سندھی اور سرائیکی میں بہت سے الفاظ اور اظہاریے مشترک ہیں، خاص کر سندھ سے متصل اضلاع رحیم یار خان وغیرہ میں۔ سندھی قوم پرست اور سرائیکی قوم پرست ایک دوسرے سے خاصے قریب ہیں، دونوں کو پنجابی اشرافیہ سے گلے شکوے ہیں۔ یہ اوربات کہ پنجابی اور سرائیکی زبان کی گرائمر مختلف ہے، مگر بہت سے الفاظ دونوں میں مشترک ہیں یا معمولی سے فرق کے ساتھ ملتے ہیں۔ وجہ فطری ہے کہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہیں، آنا جانا بہت ہے اور بے شمار جگہوں پر باہمی رشتے ناتے بھی ہوئے۔ سرائیکی میں پرندہ چیل زیر کے ساتھ ہِل کہلاتا ہے جبکہ پنجابی میں یہ اِل بن جائے گا۔ کہنی کو سرائیکی میں اِرک کہتے ہیں جبکہ پنجابی میں زبر کے ساتھ اَرک۔اسی طرح اور بھی خاصے لفظ اور اظہاریہ جملے ہیں۔

ہمارے پنجابی شاونسٹوں کی بے تدبیری اور تنگ نظری کی وجہ سے سرائیکی پنجابی زبانوں میں قربت پیدا ہونے کے بجائے کشیدگی اورفاصلہ ہی بڑھا۔ اگر پنجابی شاونسٹ کئی کروڑ لوگوں کی زبان کو الگ زبان تسلیم کر لیتے تو شائد ایسا نہ ہوتا۔ ان مٹھی بھر لوگوں کے ایسا کرنے سے انہیں فائدہ تو نہیں ہوا،کیونکہ ریاست آفیشل سطح پر سرائیکی کو الگ زبان تسلیم کر چکی ہے، اسی لئے مردم شماری فارم میں سرائیکی کا پنجابی سے الگ خانہ رکھا جاتا ہے۔ اس رویہ کی وجہ سے البتہ سرائیکی اور پنجابی زبانوں کے درمیان قربت بڑھنے کے امکانات کم ہوگئے۔ ایک بڑی وجہ سیاسی بھی ہے۔ تخت لاہور سے مراد پنجاب کی سیاسی، عسکری اشرافیہ ہے، ظاہر ہے دور دراز علاقوں کے لوگوں کو اس سے شکوے رہتے ہیں۔

ماں بولی دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی مادری زبان سے محبت کرو، مگر دوسروں کی مادری زبانوں کو بے توقیر اور کم اہم نہ سمجھو اور نہ ہی ان کی شناخت چھیننے کے درپے ہو۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی شناخت اپنے انداز میں کرائے۔ میں پٹھان ہونے کے باوجود خود کو سرائیکی کہلانا پسند کرتا ہوں، یہ میری چوائس ہے۔ اگر کوئی دوسرا ایسا نہیں چاہتا تو اس پر خفا ہونے کی کوئی تک نہیں۔ مجھے تو ماں بولی دن کا یہی مقصد سمجھ آتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author