آج بھی مسلم رجعت پرست طبقے میں وہ لوگ بھی جو اب اپنی عورتوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کو تو خلاف اسلام نہیں سمجھتے لیکن وہ مرد اور عورتوں کی مخلوط تعلیم کے سخت مخالف ہیں۔ چند مخصوص شعبوں میں انہیں ملازمت کا حق دیتے ہیں اور اکثر تو وہاں بھی ملازمت کرنے نہیں دیتے۔
عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ نور الحق قادری نے وزیراعظم پاکستان کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کو سرکاری طور پہ ” یوم حجاب” کے قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ صرف اس مطالبے تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے اس دن پورے ملک میں ہونے والے “عورت مارچ” ان میں کیے جانے والے مطالبات اور کتبوں پہ لکھے نعروں کو اسلام کے خلاف قرار دے ڈالا۔ ان کے خط میں کیے گئے مطالبے کی پاکستان کے ترقی پسند سیکولر،، لبرل ، لیفٹ اور روشن خیال اسلام پسندوں کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے جبکہ رجعت پسند، بنیاد پرسست اور مذہبی انتہا پسند مسلم سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی طرف سے اس خط کی بڑے پیمانے پہ تعریف کی جارہی ہے۔ بلکہ رجعت پرستوں کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان اپنے وفاقی وزیر کے مطالبے کی روشنی میں آٹھ مارچ کو “یوم حجاب” قرار دے ڈالے گی ۔
ہمارے نزدیک وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ نور الحق قادری کی جانب سے عورتوں کے عالمی دن کو سرکاری سطح پہ “یوم حجاب” قرار دینے کا مطالبہ بالکل درست نہیں ہے اور اس دن کے تاریخی پس منظر اور اسے منانے کے اغراض و مقاصد کے بالکل برخلاف ہے کیونکہ مسلم رجعت پسند، بنیاد پرست، انتہا پسند نہ صرف عورتوں کے عالمی دن منانے کو “غرب زدگی” قرار ددیتے رہے ہیں بلکہ وہ “یوم مزدور” منانے کو بھی غیر اسلامی اور مغرب پرستی قرار دیتے رہے ہیں۔
برصغیر میں جب مسلم روشن خیال، ترقی پسندوں نے مسلمان عورتوں کو جدید تعلیم دلانے کی تحریک شروع کی تو یہ مسلم رجعت پسند تھے جنھوں نے اس تحریک کی شدید مخالفت کی تھی ۔ ایک زمانہ تو وہ تھا یہ مسلم رجعت پرست طبقہ مسلمان مردوں کو جدید تعلیم دلانے کے سخت خلاف تھا اور اس نے اپنے تئیں غیر مذہبی علوم کی تعلیم کو مذہب مخالف خیال کرلیا اور یہاں تک کہ انگریزی زبان کی تدریس تک کو خلاف مذہب قرار دے ڈالا۔ برصغیر میں رجعت پرستوں نے مقامی رسوم و رواج یا عرب سے آنے والے برقعے یا حجاب کی شکل کو عین اسلامی تقاضا قرار دیا اور آج تک یہ رجعت پرست طبقہ عورتوں کو صرف سر پہ حجاب لینے کو بھی غیر اسلامی طریقہ کار پہ عمل پیرا قرار دیتا ہے۔ عورتوں پہ رجعت پسندوں کا مذہبی جبر اس قدر شدید تھا کہ سرسید احمد خان جو برصغیر کے مسلمان اشرافیہ کی جدید تعلیم کے حق میں میدان میں اترنے والے پہلے آدمی تھے بھی مسلمان اشرافیہ کی عورتوں کو جدید تعلیم دلانے کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے محمڈن کالج علی گڑھ سے پڑھے ہوئے ممتاز علی جیسے روشن خیال مسلمان عالم کی طرف سے خواتین کی جدید تعلیم و تربیت کے ادارے بنانے کی سخت مخالفت کی اور ان کے خواتین کے لیے شروع کیے جانےوالے رسالے کے اجرا کی بھی مخالفت کی۔
آج بھی مسلم رجعت پرست طبقے میں وہ لوگ بھی جو اب اپنی عورتوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کو تو خلاف اسلام نہیں سمجھتے لیکن وہ مرد اور عورتوں کی مخلوط تعلیم کے سخت مخالف ہیں۔ چند مخصوص شعبوں میں انہیں ملازمت کا حق دیتے ہیں اور اکثر تو وہاں بھی ملازمت کرنے نہیں دیتے۔ اور ان مذہبی رجعت پرستوں کو چند شعبوں سے ہٹ کر دیگر شعبوں میں کام کرنے والی خواتین غیر اسلامی فعل کی مرتکب لگتی ہیں۔ اور جو طالبان طرز کی سوچ رکھتے ہیں وہ عورتوں کو جدید کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت سرے سے نہیں دیتے اور اس کو سرکاری قانون بنانے کے درپے ہیں۔
مسلم رجعت پرست طبقہ اسلام کی تشریح غلام داری ، قبیل داری ، جاگیرداری اور ملوکیت کے دور کے سماجی ،معاشی اور سیاسی ،معاشی ڈھانچے کی روشنی میں کرتا ہے جو جدید سماج سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا اور یہ پچھلے ادوار کی پدرسریت کے زیر اثر عورتوں کو کمتر بناکر پیش کرتا ہے۔ خاندان کے مردوں کو عورتوں پہ تشدد کرنے ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کرنے اور اس سے انحراف کرنے والی عورتوں کے قتل کو جائز سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک عورت جیتا جاگتا فرد نہیں ہے بلکہ زر اور زمین کی طرح ایک مملوکہ جنس ہے جس سے وہ جیسے چاہے سلوک کرسکتا ہے۔
پاکستان کے مسلم رجعت پرست طبقے اور اس کی سرپرست ملائیت کو جدید دور میں عورتوں کے مسائل سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اسی لیے تو یہ عورتوں پہ گھریلو تشدد، ذہنی، جسمانی اور جنسی ہراسانی ، کام کی جگہ پہ ناسازگار ماحول ، غیرت کے نام پر قتل، سوارا، کارو کاری ، قرآن سے شادی، اونچی جات کی عورتوں سے نام نہاد نیچی عورتوں سے شادی کے خلاف متشدد رویوں ، زچگی کے دوران کام سے چھٹی نہ ملنے، اسقاط حمل کی اجازت ، ڈومیسٹک لیبر کرنے والی عورتوں کے لیبر رائٹس، کم عمری کی شادی ، کم سنی میں تبدیلی مذہب ، جبری تبدیلی مذہب ، تعلیم اور نوری کے مساوی مواقع کی عدم فراہمی ، صنفی بنیادوں پہ تنخواہوں کی ادائیگی میں امتیازی سلوک جیسے مسائل سے کچھ لین دینا نہیں ہے اور وہ کبھی ان مسائل کے گرد کمپین نہیں چلاتا اور نہ ہی اس حوالے سے ضروری قانون سازی کرنے پہ زور دیتا ہے۔ بلکہ پاکستان کی مذہبی سیاست کرنے والی جماعتیں پارلیمنٹ میں ایسے قوانین کی منظوری کے آڑے آتا ہے۔
رجعت پرست طبقے کی منافقت ہندوستان کی کچھ ریاستوں میں حجاب پہ پابندی کے معاملے پر بھی سامنے آئی ہے۔ یہ ہندوستان کی ریاستوں میں تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات پہ حجاب لینے پہ پابندی کی شدید مذمت کررہا ہے لیکن پاکستان میں یہ ہر عورت پہ حجاب لینے کی پابندی لگانے کا نہ صرف مطالبہ کرتا ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں یہ حجاب نہ لینے والی طالبات کو اس طبقے کے مذہبی غنڈے ہراساں کرتے ہیں اور طالبات پہ تیزاب پھینکنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔ ابھی فروری میں جماعت اسلامی سمیت کئی ایک مسلم مذہبی سیاسی جماعتوں کے طلباءونگ اور یوتھ تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں “ویلنٹائن ڈے” کے موقع پہ یوم حجاب منایا اور طلباءو طالبات کو ہراساں کیا گیا۔ یہی عناصر ہندوستان میں ہندوتوا کے بھگتوں کی ایسی حرکات کی مذمت کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جبر اور مذہب کی بنیاد پرستانہ تعبیر کے ریاستی نفاذ کا حامی طبقہ ہندوستان، فرانس وغیرہ میں ایسے جبر اور قانونی نفاذ کو اسلاموفوبیا قرار دے ڈالتا ہے اور تو اور اس صورت میں اسے پھر بنیادی انسانی حقوق کی یاد بھی آجاتی ہے۔
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر