نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا 74 واں عرس||ظہور دھریجہ

آپ کی تبلیغ کا بنیادی مقصد انسان دوستی اور مخلوق خدا سے پیار تھا۔ 1915ء میں آپ کو حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے چاہنے والوں کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ وسیب کے ساتھ ساتھ آپ کے عقیدت مندوں اور اردادتمندوں میں پورے ہندوستان تک کے لوگ شامل تھے۔

ظہور دھریجہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم روحانی پیشواء حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا 74 واں سالانہ تین روزہ عرس مبارک 14 فروری آستانہ عالیہ گڑھی اختیار خان ، خان پور میں شروع ہو رہا ہے۔ عرس مبارک کی تقریبات میں ملک بھر سے زائرین اور مشائخ عظام شرکت کریں گے۔ عرس کی تقریبات کا اہتمام خواجہ محمد یار فریدی ٹرسٹ کی طرف سے ہوتا ہے۔
سجادہ نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کے عقیدت مندوں کثیر تعداد لاہور سے تعلق رکھتی ہے۔ گڑھی اختیار خان پہنچ چکی ہے اور انتظامات میں مصروف ہے۔ ملک کے معروف ادیب و ڈرامہ رائٹر اشفاق احمد بجا طور لکھتے ہیں حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا کلام پڑھتے ہی حیرانی ہوتی ہے کہ اس میں حضرت خواجہ فریدؒ کا لحن کہاں سے آگیا۔
ان کی ادائیگی کی گونج کدھر سے آگئی، ان کی سوچ کا ارتعاش کیسے شامل ہو گیا؟ بلا شبہ یہ مرشد کی اپنے مرید سے محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ آج کی نفسانفسی انتہاء پسندی عدم برداشت اور دہشت گردی کے دور میں حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کے سبق ’’ماراں کھادیں مار نہ آویں‘‘ کو پھر سے یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ وسیب کی سرزمین ذرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی ہے۔
اس خطے میں بڑے بڑے علماء ، اولیاء اور اصفیاء پیدا ہوئے۔ ان میں ایک نام حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ المعروف بل بل چمنستان رسالتؐ کا ہے۔ آپ کے حالات زندگی سے شناسائی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ 1300ھ بمطابق 1883ء خان پور کے نواحی قصبے گڑھی اختیار خان میں پیدا ہوئے۔ اپنے وقت کے چند علماء مولانا رحمت اللہ، مولانا محمد حیات اور مولانا تاج محمود سے دینی تعلیم حاصل کی اور تحصیل علم کے بعد اپنے مرشد حضور حضرت خواجہ فریدؒ کی پیروی میں رشدو ہدایت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
آپ کی تبلیغ کا بنیادی مقصد انسان دوستی اور مخلوق خدا سے پیار تھا۔ 1915ء میں آپ کو حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے چاہنے والوں کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ وسیب کے ساتھ ساتھ آپ کے عقیدت مندوں اور اردادتمندوں میں پورے ہندوستان تک کے لوگ شامل تھے۔
خصوصاً لاہور میں آپ کے عقیدت مند کثیر تعداد میں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق علامہ اقبالؒ بھی آپ سے متاثر تھے اور ایک مرتبہ علامہ نے حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ سے سرائیکی کلام سنا اور بہت گریہ فرمایا۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا وصال 14 رجب المرجب 1367ھ بمطابق مئی 1947ء لاہور میں ہوا۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کم سنی میں خواجہ فرید کے ہاں دست بیعت ہوئے۔ 1901ء میں خواجہ فرید کا وصال ہوا تو سلوک کی منزلیں خواجہ کے صاحبزادے خواجہ نازک کریم نے طے کرائیں۔ خواجہ محمد یار فریدیؒ کے دیوان میں جہاں اپنے مرشد خواجہ فرید کو انہوں نے خراج عقیدت پیش کیا ہے وہاں حضرت نازک کریم کی بھی بہت تعریف کی ہے۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ نے اپنے مرشد خواجہ فرید کے کلام کی شرح لکھنا شروع کی مگرزندگی نے وفا نہ کی اور یہ کام ادھورا رہ گیا میں سمجھتا ہوں کہ عارف کے کلام کی شرح ایک عارف ہی کر سکتا ہے۔
میری تجویز ہے کہ خواجہ محمد یار کی شرح شائع ہونی چاہئے۔ دربار خواجہ محمد یار فریدیؒ گڑھی اختیار خان کے سجادہ نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدیؒ دربار سے ملحق لائبریری کمپیوٹر اکیڈمی، کنونشن ہال، ڈسپنسری ہاسٹل اور پل کی تعمیر کے منصوبے پر تیزی سے کام کرا رہے ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اپنے والے عقیدت مندوں کی اعانت سے یہ عظیم الشان منصوبے تکمیل کے مراحل ہیں ان منصوبہ جات کے ساتھ طلباء و طالبات کیلئے الگ الگ ہائی سکول اور کالجز کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے، پس افتادہ سرائیکی خطے کیلئے یہ منصوبے کسی نعمت سے کم نہیں۔
خواجہ غلام قطب الدین فریدیؒ لائق صد تحسین ہیں کہ انہوں نے ضعیف الاعتقادیوں پر مشتمل آج کی فرسودہ اور جاہلانہ خانقاہی روایات سے بغاوت کرکے اسے علم پروری اور انسان دوستی کی طرف لے آئے۔ خواجہ غلام قطب الدین فریدی نے جہاں اتنا بڑا کام کیا ہے وہاں میری یہ بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ہونہار غریب طلبہ کیلئے ایک ایسی اکیڈمی ضرور بنائیں جو میٹرک و ایف ایس سی میں اچھے نمبر لینے والوں کو ڈاکٹرزانجینئرز اور کیڈٹس اور گریجویٹس کو سی سی ایس کی تیاری کرائے۔ میرے نانا حضور حضرت مولانا یار محمد دھریجہؒ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کے ہمعصر تھے۔ دیوبند مسلک رکھنے کے باوجود میرے نانا حضور مولانا کو سچا عاشق رسولؐ اور کامل ولی قرار دیتے تھے۔
ہماری عمر اتنی تو نہ تھی مگر ہم اپنے نانا حضور سے مولانا کے بارے باتیں توجہ سے سنتے اور خوش ہوتے۔ لیکن صحیح تعارف اس وقت ہوا جب ہم اپنے علاقے کے عظیم واعظ حضرت مولانا خورشید احمد فیضی کی تقریروں سے مستفید ہوئے۔ مولانا خورشید احمد فیض کو اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان کی دولت و افر مقدار میں عطا کی تھی اور وہ خطابت کے بے تاج بادشاہ تھے جب بولتے تو ہزاروں کے اجتماع میں مکمل سکوت طاری ہوتا۔ ان کا ہمیشہ خطاب سرائیکی میں ہوتا اور خطاب میں اردو فارسی کی بجائے ہمیشہ سرائیکی اشعار پڑھتے اور سب سے زیادہ اشعار خواجہ فرید اور خواجہ محمد یار فریدیؒ کے ہوتے، جب وہ ترنم سے شعر پڑھتے اور پھر اپنی پرسوز میٹھی آواز میں اس کی وضاحت کرتے تو سامعین پر اپنے اسلام سے عقیدت اور عشق و مستی کی ایسی کیفیت طاری کرتے کہ وہ بے خود ہو جاتے۔
اسی طرح ہر 27 رجب کو معراج شریف کے جلسہ میں وعظ خوش الحان عالم بے بدل حضرت مولانا عبدالشکور دین پوری ہمارے گائوں دھریجہ نگر تشریف لاتے، ان کو بھی خدا نے کیا ہی علم اور کیا ہی عرفان عطاء کیا تھا، بہت بڑے مقرر اور انسان دوست عالم تھے، دیوبندی مسلک کے باوجود ان کا خطاب صوفی شعراء کے اشعار سے مرصع ہوتا، آج پھر سے اسی طرح کی رواداری اور پیغام محبت کی ضرورت ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author