گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی تہزیب صدیوں پرانی ہے جس نے بہت اعلی فراست اور شجاعت سے بھرپور لیڈر ۔دانشور ۔مصنف ۔شاعر ۔صنعتکار ۔سفیر۔وزیر اور کاریگر پیدا کیےجنہوں نے ساری دنیا میں نام پیدا کیا۔
شیرشاہ سوری کا خاندان بھی کلاچی کے علاقہ روڑی اور ٹکواڑہ میں پھلا پھولا اور کچھ لوگ بعد میں جونپور ہندوستان چلے گیے۔ مجھے شیرشاہ سوری کی تاریخ بیان نہیں کرنی ایک واقعہ بتانا ہے۔
ظہیرالدین بابر نے قبائلی سرداروں کا کھانا کیا اور آخر میں سویٹ کے طور پر حلوہ پیش کیا گیا۔ محفل میں ایک نوجوان سردار نے میان سے تلوار نکالی اور تلوار کی نوک سے حلوہ کھانے لگا۔ بابر یہ سین دیکھ کر ششدر رہ گیا۔اس نے ویٹر کو بلایا اور اسے اشارہ کر کے کہا اس سردار کو میرے پاس لاٶ۔ یہ اشارہ دیکھ کر وہ نوجوان بھاگ گیا اور ویٹر کے ہاتھ نہیں آیا ۔ویٹر نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ نوجوان سردار بھاگ کر غائب ہو گیا ہے۔بادشاہ نے اسی وقت اپنے وزیروں کو کہا کہ اس نوجوانوں میں بیباکی اور اعتماد اتنا زیادہ ہے کہ یہ بادشاہ بن سکتا ہے اور میری بادشاہی کو اس سے خطرہ ہے اس لیے چاہا کہ اس کی گردن اتار دوں۔
یہ نوجوان شیرشاہ سوری تھا جس نے صرف پانچ سال حکومت کی اور ہندوستان میں پانچ سو سال کے برابر تعمیراتی کام کر دیے۔سوری نے تقریبا” پونے چھ سو سال پہلے 1500 میل لمبی سڑک تعمیر کرائ جو اس وقت کی CPEC تھی۔
آج ہمارا نوجوان اعتماد سے بھرپور ہے مگر اس کی توانائ کو مثبت سرگرمیوں میں چینالایز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دانشور سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچ بچار کریں ۔ساری دنیا کے پاس بوڑھے لوگوں کی کثرت ہے جبکہ پاکستان کا 65% نوجوان طبقہ ہے اس لیے دنیا خائف ہے اور پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر