ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی چاہتا ہے آج آپ سے باتیں کی جائیں۔ بہت سی ان کہی اور ان سنی ادھوری باتیں جو ابھی تک نہ آپ کہہ سکے نہ ہم۔
ایسا نہیں لگتا کیا کہ ہم اور آپ سمے کے بندھن میں بندھے ہیں۔ ہماری کھڑکی سے جو نیلے آسمان کا ٹکڑا نظر آتا ہے، کسی اجنبی سرزمین پہ اپنے آنگن میں بیٹھ کر وہی ٹکڑا شاید آپ دیکھتے ہوں۔ پروا کا وہ جھونکا جو کبھی ہلکے سے چھو کر فضاؤں میں کہیں گم ہو جاتا ہے، شاید کبھی بھٹکتے ہوئے آپ تک بھی پہنچ جاتا ہو۔ کبھی کبھی اپنے آپ سے بے خیالی میں کی گئی سرگوشیوں کی بازگشت شاید آپ تک بھی پہنچ جاتی ہو۔ یہ سمے کا بندھن بھی عجیب ہے، ہوتا ہے لیکن دکھتا نہیں، بس محسوس کیا جا سکتا ہے کہ درمیان میں موجود ڈور کا دوسرا سرا دور بہت دور کسی کو آپ سے باندھے ہوئے ہے۔
ہمیں علم نہیں کہ آپ کون ہیں، کہاں رہتے ہیں، کیا کرتے ہیں لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارا اور آپ کا تعلق ان الفاظ سے جڑا ہے جو ہم اپنے دل کی روشنائی سے لکھتے ہیں اور آپ اپنے دل کی آنکھ سے پڑھتے ہیں، پچھلے تین برس سے۔
جی آج تین برس ہو گئے ہمیں آپ سے ناتا جوڑے ہوئے۔ تین برس جو کبھی برہا کی راتوں کی طرح طویل محسوس ہوئے اور کبھی ان لمحوں کی طرح جو پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں۔
ان تین برسوں میں ہماری تو دنیا ہی بدل گئی۔ دل کی دنیا بھی اور باہر کی دنیا بھی۔ دل نے اپنا دروازہ کھول کر بہت کچھ آزاد کر دیا جو برسوں کی قید میں تھا اور باہر کی دنیا کو بہت سے دروازے بند کر کے ایک ایسی قید میں جانا پڑا جو انسان کی بقا کے لئے لازم ٹھہری۔
تنہائی کے سو سال لکھنے پہ تو ہم قادر نہیں کہ گارسیا جیسا قلم اپنے نصیب میں کہاں لیکن جی چاہتا ہے کہ کووڈ کی تنہائی کے دو برسوں کی داستان ضرور لکھی جائے۔ دیکھئے کب اترتی ہے قلم پہ؟
ان تین برسوں میں ہم نے بہت سے سوال معاشرے سے پوچھنے کی جسارت کی جو ہمارے خیال میں ہمیں ہی نہیں ہر ذی شعور کو اذیت دیتے تھے۔ جواب ملا یا نہیں، یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہ ضرور ہوا کہ بہت سے مہربان نہ صرف ساتھ آ کھڑے ہوئے بلکہ ہمارے احساس کی شدت کو سراہا بھی۔ یقین کیجئے ایسا لگا چلچلاتی دھوپ میں ابر کا چھوٹا سا ٹکڑا ہمیں اپنے سائے میں رکھنے کی کاوش میں خود زخمی ہوتا ہو۔
ہمیں خود علم نہیں کہ ہم نے اپنے اندر دفن شور مچاتے ہوئے الفاظ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ہم نہیں سمجھ سکے کہ وہ سب کچھ جو مدتوں سے احساس پہ ضرب لگاتا تھا وہ آتش فشاں پھٹ کر کیوں بہہ نکلا؟
شاید برسہا برس تک عورت کی بے زبانی اور بے بسی کا پتلی تماشا دیکھ کر ہم تھک گئے تھے۔ مداری کے ایک ہاتھ میں تھامی ڈگڈگی، دوسرے ہاتھ میں رسی سے بندھی ناچتی ہوئی بندریا اور حکم عدولی پہ چھڑی کی چھمک ہمارے اعصاب کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔
ڈگڈگی، رسی اور چھڑی کی مدد سے بندریا کو ناچ نچانے کی مداری کے پاس ڈھیروں تاویلات ہیں، ہر تاویل کا سبب اور تشریح ہے لیکن سچ پوچھئے تو سب ڈھونگ نظر آتا ہے۔ مداری سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا کبھی وہ رسی سے بندھ کر چھڑی کی چھمک پہ ڈگڈگی کے اشارے پر وہ سب کرتب دکھا سکتا ہے؟
دل اداس ہو جاتا تھا جب نظر آتا کہ اس سارے قضیے میں بندریا تو جانتی ہی نہیں کہ سر پہ چھت اور پیٹ کی روٹی کے عوض وہ کس تماشے کا حصہ ہے؟ اس کی آزادی اتنی ہی، جتنی مداری چاہے۔ کب رسی ڈھیلی کرنی ہے اور کب کسی جانی ہے، اس کا فیصلہ مداری کے ہاتھ۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ ہر طرف جاری اس کھیل میں ہم تماش بین بن کے اپنی راہ لیتے۔ اگر ایسا کرتے تو وہ ہم نہ ہوتے۔ کھیل ختم کروانا تو ہماری بساط سے بہت آگے کی بات تھی۔ سو سوچا کہ کم از کم آگہی کا ایک چھوٹا سا دیا ہی جلا دیا جائے۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ عورت کے جسم کو جن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس میں کچھ کمی ہو تو شاید کسی اور بات کا بھی مداوا ہو سکے۔
عورت کا جسم ایک ایسی ندی ہے جو فطرت کے ہاتھوں کبھی منہ زور بن جاتی ہے تو کبھی خشک ہو کر قحط سالی کا سبب بنتی ہے۔ جب تک اس جسم میں پوشیدہ رازوں کو عورت خود نہیں سمجھتی کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے استحصال کا دفاع کرتے ہوئے اپنی بقا کی جنگ لڑ سکے۔
عورت کا جسم ایسا نو گو ایریا ہے کہ اس کی زندگی کا ہم سفر بھی جہالت کی چادر میں ہی پناہ لیتا ہے۔ ہر ناگہانی کی بدصورتی یہ کہہ کر ڈھانپ دی جاتی ہے کہ صدیوں سے یہی چلن ہے۔ سو یہ دیکھ کر، سہ کر، اور سن کر ہمیں کہنا پڑا کہ تہذیبی سفر میں جب سب کچھ بدل سکتا ہے تو شرم و حیا کا کفن چاک کیوں نہیں ہو سکتا؟ گائنی فیمینزم ہی اس کا جواب دے سکتا ہے۔
اس تمنا میں ہمارے لکھے ہوئے اہلے گہلے الفاظ کسی کو زندگی کی حقیقت سے دور لگے اور کسی کو فحش، کسی کو چٹخارے دار اور کسی کو ہمارے اندر مچلتی ناتمام آرزوؤں کا نتیجہ۔
جو بھی کہہ لیجیے ہمیں تو یہ لگا کہ آپ سب نے اپنے اپنے آئینے میں ہمیں دیکھا۔ بہت سے خوبصورت اور قیمتی آئینوں کے بیچ اگر کسی کا آئینہ گرد آلود، شکستہ یا برسوں پرانا تھا تو ہمارا کیا قصور؟
ان تین برسوں نے ہمیں دو کتابوں کا تحفہ دیا۔ لفظ کی دنیا کے دیوتاؤں کے نزدیک وہ پڑھے اور سراہے جانے کے قابل ہیں یا نہیں، ہم یہ تو نہیں جانتے اور نہ ہی کسی دوڑ میں شامل ہونا ہمارا بنیادی مقصد ہے۔ ہم تو صرف یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتابیں ان بے زبان عورتوں کے لئے ایک دیے کی تھرتھراتی لو کی مانند ضرور ہیں جو اونچی اور بند دیواروں کے دوسری طرف امید بھری نظر سے دیکھتی رہتی ہیں کہ شاید قفس کے باہر کی دنیا کو کبھی ان کی موجودگی کا احساس ہو۔
ہم نے اپنے حصے کا دیا جلا دیا ہے!
تین برس تک اس دیے کو تند و تیز ہواؤں کے سامنے نہ بجھنے کی اس کوشش کے لئے ہمیں مبارک دیجئیے!
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر