وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے ہم سوویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ کی ایک کہانی سنائیں گے۔ پھر ہم دوسری سرد جنگ کی کہانی سنائیں گے۔
پہلی سرد جنگ کے عروج میں جوہری ہتھیاروں سے لیس بارہ سے چوبیس امریکی B 52 بمبار دنیا کے تمام کونوں تک رسائی کے لیے مختلف راستوں پر چوبیس گھنٹے محو پرواز رہتے تاکہ کسی لمحے سوویت یونین جوہری حملے میں پہل کرے تو بروقت موثر ابتدائی جواب دیا جا سکے۔
سترہ جنوری انیس سو چھیاسٹھ کو ایسا ہی ایک B 52 طیارہ امریکی ساحلی ریاست شمالی کیرولائنا سے بحیرہ روم تک کے گشتی دائرے میں پرواز کر رہا تھا کہ اسے ری فیولنگ کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ امریکی فضائیہ کا ایک کے سی 135 آئیل ٹینکر جنوبی اسپین سے اڑا اور بی باون کو ری فیول کرنے کی کوشش میں ٹکرا گیا۔ دونوں طیارے آگ کا گولہ بن گئے۔ ری فیولنگ ٹینکر کا چار رکنی کریو کباب ہو گیا اور بی باون کے سات رکنی عملے میں سے چار پیرا شوٹنگ کر گئے۔ دونوں طیاروں کا ملبہ جنوبی اسپین کے ساحلی قصبے پلوماریز کے اردگرد بکھر گیا۔
طیاروں کے حادثات تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مگرمسئلہ یہ تھا کہ اس بی باون طیارے پر ایک ہائیڈروجن بم اور تین ایٹم بم لدے ہوئے تھے۔ تینوں ایٹم بم خشکی پر گرے۔ ایک سالم مل گیا۔ باقی دو کے چونکہ پیراشوٹ نہیں کھل سکے لہٰذا وہ بتدریج اترنے کے بجائے گرتے ہی زمین میں دھنس گئے۔ ان کا خول ٹوٹنے سے لگ بھگ سو ایکٹر کے رقبے میں سات سے دس کلو گرام پلوٹونیم بکھر گیا۔ چنانچہ اس علاقے کو خالی کرا کے ناکہ بندی کر دی گئی اور چوبیس گھنٹے کے اندر سات سو امریکی فوجیوں اور دفاعی ماہرین نے تینوں بم دریافت کر لیے۔
مسئلہ چوتھے بم کا تھا اور یہ ہائیڈروجن بم تھا جو سمندر میں جا گرا تھا اور دو ہزار آٹھ سو پچاس فٹ کی گہرائی میں بیٹھ گیا تھا۔ خدشہ تھا کہ آس پاس منڈلانے والے سوویت سراغ رساں جہاز کہیں اسے قبضے میں لینے کی کوشش نہ کریں۔ بیس سے زائد امریکی جنگی جہازوں اور آبدوزوں کو طلب کر لیا گیا اور چار ماہ کی تلاش کے بعد یہ بم بھی مل گیا۔
سمندر سے نکالے جانے والے اس بم کی تصاویر بھی مغربی اخبارات میں شایع کرائی گئیں تاکہ سوویت یونین ٹیکنالوجی میں امریکی سبقت کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو اور اسے جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کی امریکی صلاحیت کے بارے میں پروپیگنڈے کا تازہ ہتھیار میسر نہ آ جائے۔ اس آپریشن پر انیس سو چھیاسٹھ میں دس ملین ڈالر خرچ ہوئے۔
آج بھی پلوماریز قصبے کا سو ایکڑ کا ٹکڑا تابکاری کے سبب علاقہ ممنوعہ ہے اور امریکا نے اس کی مکمل صفائی کے لیے کوئی خاص تعاون نہیں کیا۔ البتہ دیگر ممکنہ متاثرہ علاقے کی تین تین انچ زمین کھود کر اس کی خاک کو ضرور ٹھکانے لگا دیا گیا۔
اسپین اور امریکا نے دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ علاقہ تابکاری سے پاک ہے اور اسپین میں امریکی سفیر بڈل ڈیوک کی پلوماریز کے ساحل پر نہانے کی تصاویر بھی شایع ہوئیں۔ مگر آج چھپن برس بعد بھی سیاح اس قصبے کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں اور یہاں کے کسانوں کو زرعی پیداوار کی فروخت میں مشکل پیش آتی ہے۔
انیس سو چوہتر میں امریکی ریاست ہوائی کے نزدیک ایک سوویت آبدوز حادثاتی طور پر ڈوب گئی۔ امریکی سی آئی اے نے اسے سرتوڑ کوششوں کے بعد سمندر کی تہہ سے نکال لیا تاکہ سوویت ٹیکنالوجی کا مطالعہ اور اس کا توڑ ہو سکے۔
پہلی سرد جنگ کا خاتمہ تو انیس سو نوے میں سوویت زوال کے ساتھ ہی ہو گیا۔ اب اکیسویں صدی کی سرد جنگ میں امریکا کا مد مقابل چین ہے۔
گزشتہ ہفتے (چوبیس جنوری) ایک ایف پینتیس طیارہ بحیرہ جنوبی چین میں امریکی طیارہ بردار جہاز کارل ونسنٹ کے عرشے سے اڑان بھرتے بھرتے سمندر میں جا گرا اور آٹھ ہزار فٹ گہرائی میں تہہ سے لگ گیا۔ یہ حادثہ اگرچہ بین الاقوامی سمندری حدود میں ہوا مگر مشکل یہ ہے کہ چین بحیرہ جنوبی کے پورے سمندر پر علاقائی دعویدار ہے۔
اس حادثے کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ ایف تھرٹی فائیو اس وقت امریکا فضائیہ اور بحریہ کا فخر ہے۔ ایک سو ملین ڈالر کی قیمت والا یہ لڑاکا طیارہ انیس سو کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دشمن کے ریڈار کی زد میں آئے بغیر پرواز کر سکتا ہے۔ ایف تھرٹی فائیو کو امریکی پیار سے اڑتا سپر کمپیوٹر کہتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کم از کم دو ہزار پچاس تک امریکی فضائی دفاع کی ریڑھ کی ہڈی بنا رہے گا۔
چینی وزیر خارجہ ڑاؤ لی جیان نے کہا ہے کہ انھیں اس حادثے سے کوئی دلچسپی نہیں مگر امریکیوں کو فکر ہے کہ تلاش کے آلات سے لیس امریکی بحریہ کے خصوصی جہازوں کو اس علاقے میں پہنچنے میں دس سے پندرہ دن لگ سکتے ہیں اور یہ مدت کسی بھی ”رسہ گیری“ کے لیے بہت ہے۔
حالانکہ امریکی بحریہ مئی دو ہزار انیس میں فلپینز کی بحری حدود میں ساڑھے اٹھارہ ہزار فٹ کی گہرائی سے ایک فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کا ڈھانچے نکال کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔
امریکیوں کو بظاہر یہ اطمینان بھی ہے کہ چین کے پاس اتنی سمندری گہرائی سے کوئی ڈھانچہ نکلنے کی مہارت یا ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ مگر اس مفروضے پر مکمل تکیہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بھلا کون حریف نہ چاہے گا کہ امریکا جس طیارے پر اس قدر اترا رہا ہے اس کے کل پرزے اور اعصابی نظام کے پوسٹ مارٹم کا کوئی بھی امکان ضائع ہو۔
انیس سو بہتر میں چین شمالی ساحلی علاقے میں ڈوبنے والی ایک برطانوی آبدوز پوسیڈون کا ڈھانچہ نکال چکا ہے، حالانکہ اس وقت چین اتنا ترقی یافتہ بھی نہیں تھا۔
اپریل دو ہزار ایک میں ایک امریکی EP 3 جاسوس طیارہ چینی حدود میں دوران پرواز چینی فضائیہ کے ایک طیارے سے ٹکرا کر ہنگامی طور پر صوبہ ہنان میں اتر گیا۔ اس حادثے میں چینی پائلٹ ہلاک ہو گیا۔ چین نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور پائلٹ کی موت پر شدید احتجاج کیا اور گیارہ دن بعد کی جانے والی تحریری امریکی معذرت کے بعد ہی جاسوس طیارے کے چوبیس رکنی عملے کو جانے کی اجازت دی۔ البتہ جاسوس طیارہ اگلے تین ماہ چینیوں کی تحویل میں رہا۔
امریکیوں کو کامل یقین ہے کہ مئی دو ہزار گیارہ میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے دوران ریڈار پر دکھائی نہ دینے والا جو امریکی ہیلی کاپٹر بن لادن کے کمپاؤنڈ میں اترتے ہوئے تباہ ہوا اس کے ڈھانچے پر چینی تحقیقی ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔
چنانچہ جب تک امریکی دفاعی نگینہ ایف تھرٹی فائیو سمندر سے نکال نہیں لیا جاتا۔ محکمہ دفاع کی نیند اڑی رہے گی۔
بشکریہ: ڈیلی ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر