نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ہسٹریکل حمل میں حرکت کون کر رہا تھا ؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

مہوش اور اس کی ماں کو قدرت کی اس ستم ظریفی سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ کس حد تک کیا ممکن ہے، سمجھا دیا گیا تھا۔ دونوں پژمردہ چہروں لئے تھکے تھکے قدم اٹھاتی ہوئی ہسپتال سے نکل گئی تھیں ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوبیس پچیس سالہ خوش لباس اور خوش شکل لڑکی مگر پھر بھی کچھ اور تھا جو ٹھٹھک کر اسے دیکھنے پہ مجبور کرتا تھا۔
وہ حاملہ عورتوں کے ساتھ ایک بینچ پر بیٹھی تھی۔ ساتھ میں ایک ادھیڑ عمر عورت، چادر اوڑھے، پریشانی سے ادھر ادھر دیکھتی ہوئی، وہ اپنی بیٹی کی باری کی منتظر تھی۔
کچھ دیر بعد دونوں ہمارے سامنے بیٹھی تھیں۔
“ڈاکٹر صاحب، چھٹا مہینہ چل رہا ہے لیکن ابھی بھی طبعیت گری گری سی رہتی ہے۔ کمر میں درد اس قدر کہ بعض دفعہ چل ہی نہیں سکتی”
“پہلا حمل؟” ہم نے پوچھا
“جی”
“شادی کو کتنا عرصہ ہوا؟”
“تین برس”
“حمل علاج سے ہوا یا بغیر علاج”
“جی دوا تو نہیں لی لیکن دعائیں بہت مانگیں” وہ سر جھکا کر بولی۔
“اچھا لیٹیے”
ماں اس ساری گفتگو میں خاموش رہی۔ حاملہ لڑکی کمر پہ ہاتھ رکھ کے اٹھی اور پردے کے پیچھے غائب ہو گئی۔
وہ کاؤچ پہ لیٹ چکی تھی ۔ پیٹ پھولا ہوا نظر تو آتا تھا لیکن کچھ کم… شاید بچہ کمزور ہے، ہم نے خود کلامی کی۔


پیٹ کے اوپر سے تھپتھپا کر بچہ محسوس کرنا ایک آرٹ تو ہے لیکن اہم بھی بہت ہے کہ ابتدائی معلومات یہیں اور اسی طریقے سے ملتی ہیں۔
ہم نے پیٹ کو آہستہ سے ہاتھ لگایا، نرم گرم سا۔
“ڈاکٹر صاحب آہستہ پلیز”
“مہوش، ابھی تو میں نے ہاتھ لگایا ہی ہے۔ تم لمبے سانس لو اور اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑو”
اسے تسلی دینے کے بعد ہم نے پیٹ کو مخصوص طریقے سے ٹٹولنا شروع کیا۔ ایک بار، دوسری بار، تیسری بار…..ہمارے ماتھے کی شکنیں بڑھتی جا رہی تھیں ۔
اب پیٹ دبا کر دیکھنے کی نوبت آ چکی تھی۔ دائیں، بائیں، اوپر نیچے، ہلکا، سخت ، ہر طرح سے۔
“مہوش، تم نے پہلے کسی ڈاکٹر سے چیک کروایا کیا؟”
“جی نہیں، پہلے ہر وقت متلی ہوتی رہتی تھی اس لئے کہیں گئی نہیں”
“الٹرا ساؤنڈ بھی نہیں کروایا؟”
“نہیں جی”
“اچھا چلو ابھی الٹراساؤنڈ کر کے دیکھ لیتے ہیں”
الٹراساؤنڈ کی مشین ہمارے گھور گھور کر دیکھنے کے باوجود کسی بھی قسم کے نقش سے خالی تھی۔
“ڈاکٹر صاحب مجھے بھی بچہ دکھائیں”
ہماری خاموشی کو مہوش نے توڑا۔
آخر کار ہم نے بولنے کا فیصلہ کر لیا،
“مہوش، مجھے افسوس ہے یہ کہتے ہوئے لیکن تم حاملہ نہیں ہو”
“کیا … کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” اس کی چیخ نما آواز آئی۔
“مہوش، یہی حقیقت ہے”
“نہیں آپ غلط بیانی کر رہی ہیں، میرے پیٹ میں بچہ ہے ۔ میں اس کی حرکت محسوس کر سکتی ہوں۔ دیکھئیے وہ ہل رہا ہے۔ دیکھئے ہاتھ رکھیے یہاں پہ” اس نے ہمارا ہاتھ تھام کر پیٹ پہ رکھا۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ چکا تھا۔
“مہوش، میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتی ہوں لیکن اصل میں کچھ ایسا ہی ہے”
“نہیں ڈاکٹر، آپ جھوٹ بول رہی ہیں …. “ وہ زور زور سے چلا رہی تھی” اماں دیکھیے یہ کیسے ہو سکتا ہے، ماہواری رکے چھ ماہ ہو گئے، مجھے متلی آنا شروع ہوئی، پھر پیٹ بڑا ہوا اور اب تو پیٹ میں بچہ ہاتھ پاؤں مار رہا ہے”
وہ کسی طور یہ ماننے پہ تیار نہیں تھی کہ پیٹ خالی ہے۔ اس کی ذہنی اذیت ہمیں تکلیف تو دے رہی تھی لیکن اس کے ساتھ کچھ اور بھی تھا جس کا کھوج لگانا ضروری تھی۔
اس کی ماں ڈبڈبائی آنکھوں سے چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔
“بی بی، آپ سے کچھ پوچھنا ہے”
“جی ڈاکٹر صاحب “
“کیا اس حمل سے پہلے اسے ماہواری باقاعدگی سے آتی تھی ؟ “
“جی…. وہ…. وہ” وہ جواب دیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
“ٹھیک ٹھیک بتائیں، یہ بہت اہم ہے”
“نہیں ڈاکٹر اسے ماہواری کبھی نہیں آئی” ماں سر جھکا کر بولی۔
“پھر اسے کیوں اصرار ہے کہ ماہواری رکے چھ ماہ ہو گئے؟” ہم نے پوچھا۔
“وہ جی میں نے ہی اسے سمجھایا تھا کہ ماہواری آنے کا جب کوئی پوچھے تو جھوٹ موٹ کہہ دیا کرو کہ آئی ہے… دیکھیں نا جی سسرال کا معاملہ ہے”
“پھر یہ حمل کی کہانی کیسے شروع ہو گئی؟”
“ نہیں علم جی لیکن سسرال والوں کا بہت دباؤ تھا تو مہوش نے شاید اس لئے کہہ دیا ہو … لیکن ڈاکٹر جی، یقین کیجیے اسے پچھلے چار ماہ متلی ہوتی رہی ہے اور اب دیکھیے پیٹ بھی بڑھ رہا ہے”
“دیکھو بی بی، مہوش بچہ پیدا نہیں کر سکتی کہ اس کے جسم میں تو رحم اور بیضہ دانی ہی نہیں ہے”
“وہ کیسے جی؟ ، ماہواری نہ آنا تو ہو سکتا ہے کہ کوئی مسئلہ ہو لیکن رحم اور بیضہ دانی نہ ہونا، کیسے ہو سکتا ہے یہ ؟ دیکھیں کتنی خوبصورت میری بیٹی ہے، دیکھیے چھاتی کے اُبھار بالکل عورتوں والے ہیں”
“دیکھو بی بی، آپ پہلے مہوش کو چپ کرواؤ ۔ حوصلہ دو اس کو ۔ ابھی اسے بہت سے تلخ مراحل سے گزرنا ہے”
جو بات ہم ان دونوں سے اس وقت کہہ نہ سکے تھے کہ پیٹ کو دبانے سے انتہائی نچلے حصے میں ہمیں دو غدود محسوس ہوئے تھے ۔
بیرونی اعضا کا معائنہ بھی ہم کر چکے تھے۔ ویجائنا کی لمبائی بہت چھوٹی تھی۔ اس میں رحم کے منہ ( cervix) کا کہیں سراغ نہیں ملتا تھا۔
مہوش ابھی بھی رو رو کے کہہ رہی تھی کہ بچہ پیٹ میں حرکت کر رہا ہے۔ وہ بار بار اپنی ماں کا ہاتھ پکڑتی اور پیٹ پہ رکھ دیتی، دیکھو ماں، یہ دیکھو، ابھی حرکت ہوئی یہاں، ابھی یہاں۔
ماں کی آنکھ میں آنسو تھے اور باقی سٹاف بھی دلگیر تھا ۔
مہوش pseudocyesis کا شکار تھی جسے ہسٹریکل حمل بھی کہا جاتا ہے۔
ایک ایسی صورت حال جس میں اگر کوئی انسان کسی چیز کی شدید خواہش کرے تو دماغ جسم میں ہارمونز کے ذریعے ایسی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جو اصل جیسی ہوتی ہے۔ متلی آنا، طبعیت نڈھال ہونا ، پیٹ بڑا ہونا اور بچے کی حرکت محسوس ہونا سب دماغ کا کھیل تھا جو وہ جسم کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا ۔
ہسٹریکل حمل اس معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ہوا تھا جہاں شادی کے بعد بچہ جننا ہی کامیاب شادی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ مہوش کو ماہواری نہ آنے کی آخر کیا وجہ تھی؟
اس پیچیدہ کیس کی یہ گتھی ہمیں سلجھانا تھی۔
سب ٹیسٹوں کا نتیجہ آ چکا تھا۔ افسوسناک خبر یہ تھی کہ وہ جنیاتی طور پہ ڈی ایس ڈی یا انٹر سیکس کی مریضہ تھی۔ (Androgen insensitivity syndrome – AIS) اسے ماں باپ کی طرف سے XY کروموسم ملا تھا۔ XY کے زیر اثر اس کے جسم میں خصیے بن چکے تھے۔ ان خصیوں نے ہارمون ٹیسٹوسٹیرون بھی بنایا تھا لیکن ٹیسٹوسٹیرون سے کام لینے والے مائیکروسکوپک سیلز میں کوئی کجی تھی جو وہ ٹیسٹوسٹیرون کو استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ اسی عمل سے ٹیسٹوسٹیرون بیرونی جنسی اعضا بناتا ہے اور پیٹ میں بننے والے خصیوں کو ان کی تھیلی تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔
ٹوٹی کہاں کمند کی مصداق خصیے تھیلی تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ بیرونی جنسی اعضا زنانہ شکل اختیار کر گئے تھے۔ کروموسومز مردانہ تھے۔ خصیے موجود تھے لیکن ناکارہ۔
رحم اور بیضہ دانی موجود نہیں تھی ویجائنا تو تھی لیکن ادھوری، بس چھاتی مکمل تھی اور بیرونی اعضا۔
مہوش اور اس کی ماں کو قدرت کی اس ستم ظریفی سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ کس حد تک کیا ممکن ہے، سمجھا دیا گیا تھا۔ دونوں پژمردہ چہروں لئے تھکے تھکے قدم اٹھاتی ہوئی ہسپتال سے نکل گئی تھیں ۔
اور پھر وہی ہوا تھا جو اکثر فائلز پہ لکھ کر فائلز بند کر دی جاتی ہیں یعنی قلم توڑ دیا جاتا ہے۔

(رئیس امروہوی نے کوئی نصف صدی پہلے حمل رجا کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ کہیں حافظے میں اٹک گئی۔ کیا pseudo Pregnancy  سے یہی مراد تھی۔ اللہ بہتر جانتا ہے یا ڈاکٹر طاہرہ کاظمی- ہم لوگ تو روہی کے صحرائی ٹیلے کی طرح علم اور بصیرت سے خالی مخلوق ہیں۔ و- مسعود)

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author