نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کرپشن کی رام لیلائیں اور احتسابی ’’راگ‘‘ ||حیدر جاوید سید

اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اسد عمر جن دنوں وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے 200ارب ڈالر بیرون ملک پڑے ہیں، والی بات تو صرف سیاست تھی ، جلسوں اور بیانات میں کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت کا اس سے تعلق نہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم کے مشیر احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر کے مستعفی ہونے پر کیا لکھا جائے۔ کیا کچھ لکھنے کی ضرورت رہ گئی ہے۔ پچھلی سپہر سے ’’مجاہدین‘‘ کشتوں کےپشتے لگاتے چلے جارہے ہیں۔
برادر عزیز محمد حسن رضا نے ایک معاصر اخبار میں تفصیلی روداد لکھی ہے۔ مطالعہ کے شوقین تلاش کریں پڑھیں اور مرضی کے مفاہیم نکال لیں۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، محترمہ مریم نواز نے اپنی سزاوں کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر اپیل میں جسٹس (ر) قیوم ملک اور جسٹس راشد عزیز کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جس میں ان سابق جج صاحبان نے محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمن کے ٹیلیفون پر سزا دی تھی۔
آڈیو سکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد سپریم کورٹ نے یہ سزائیں ختم کرکے مقدمہ کی ازسرنو سماعت کا حکم دیا اور ججوں کو ’’رخصت‘‘ کردیا۔ اس فیصلے پر بھی سوالات تھے ان میں اہم سوال یہ تھا کہ جب منصفوں کی حکومت پروری ثابت ہوگئی تو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ضرورت کیوں رہی کیونکہ آڈیو سکینڈل سے ثابت ہوا کہ مقدمہ بھی ویسا ہی جعلی تھا جیسا فیصلہ۔
عدالت کے باہر جب مریم نواز سے جسٹس قیوم ملک کے فیصلے کو مثال کے طور پر پیش کرنے کی بابت سوال ہوا تو وہ برا مان گئیں، غصہ دباتے ہوئے بولیں مجھ سے صرف میرے کیس پر سوال کریں۔
صحافی نے کہا آپ نے جو نظیر پیش کی ہے اس پر سوال تو ہوگا، وہ گفتگو درمیان میں چھوڑ کر چلی گئیں۔
گزشتہ شب مرزا شہزاد اکبر کے حوالے سے ایک تحریر لکھنے بیٹھا تو فقیر راحموں نے یہ ساری باتیں یاد دلاتے ہوئے کہا
’’شاہ جی، کیا پتہ کل کلاں مرزا شہزاد اکبر بھی کسی کے سمدھی بن جائیں اس لئے بہتر ہوگا کوسنے سے اجتناب کرو‘‘۔
ہمزاد کا مشورہ سر آنکھوں پر ہم اس معاملے میں زیادہ باتیں کرنے کی بجائے بس دو سوال لکھنا چاہتے ہیں پہلا سوال یہ ہے کہ لندن میں ملک ریاض سے مرزا شہزاد اکبر کے کیا معاملات طے پائے تھے کہ برطانوی عدالت کے فیصلے سے ضبط کی گئی رقم کو سپریم کورٹ کے جرمانے میں شامل کرلیا گیا اس معاملے میں ضمنی سوال یہ ہے کہ رقم کی اس غیرقانونی ایڈجسٹمنٹ کے لئے کس نے کیا فائدہ لیا۔
نیز یہ کہ لندن میں جس پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ ملک ریاض کے معاملات کو عدالت نے غیرقانونی قرار دیا اس ڈیلر کے بارے میں ہونے والی تحقیقات کی پردہ پوشی کیوں کی گئی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ مرزا شہزاد اکبر بیگ کا دعویٰ تھا کہ سوئس بینکوں میں کرپشن کے 280ارب ڈالر موجود ہیں لیکن جب اس حوالے سے وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے دستاویزاتی ثبوت طلب کئے تو موصوف اپنے دعوے کو ثابت کیوں نہ کرسکے؟

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کے برادر خورد اور میاں محمد سومرو کے بھانجوں کے درمیان پراپرٹی کے تنازعہ میں وفاقی اداروں نے ان کے خاندان کو سپورٹ کیا۔
سوال یہ ہے کہ دوسروں کے احتساب کے دعویدار نے وزارت داخلہ کے ماتحت اداروں کو متنازعہ خاندانی معاملات میں استعمال کیوں کیا؟
گزشتہ تین برسوں کے دوران کرپشن اور احتساب کے شوروغل میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ حالت یہ ہے کہ مختلف افراد کی ضمانت پر رہائی کے فیصلوں میں عدالتوں نے جو لکھا اس نے نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھادیئے ہیں۔
خورشید شاہ کی ضمانت کا فیصلہ پڑھ لیجئے۔ عدالت نے کہا نیب ثابت نہیں کرسکا کہ جن افراد کو اس نے خورشید شاہ کی بے نامی جائیداد کا مالک قرار دیا ہے وہ جائیدادیں واقعتاً خورشید شاہ کی ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ بلندبانگ دعوئوں اور پریس کانفرنسوں میں پلندے لہرانے سے زیادہ وہ دستاویزات اہم ہوتی ہیں جو استغاثہ بطور ثبوت مقدمہ کا حصہ بنائے۔
خورشید شاہ کا معاملہ 500 ارب کی کرپشن سے شروع ہوا تھا چند کروڑ پر آکر رک گیا۔ سبکی کس کی ہوئی نیب اور نظامِ احتساب کی۔
شہزاد اکبر بھی لمبی لمی پریس کانفرنسیں کرتے تھے ان کی وجہ سے دو افراد یاد آئے، ایک ماضی کے نگران وزیر داخلہ میاں زاہد سرفراز اور دوسرے سیف الرحمن۔ وہ بھی لمبی لمبی چھوڑنے، معاف کیجئے گا کرپشن کی داستانیں سنانے کے ماہر تھے۔
ہم اگر کرپشن کے حوالے سے 1990ء سے آج تک کے 31برسوں کی ساری رقم جمع کریں اور پھر اس میں سے صرف 25فیصد وصول کرلیں تو وارے نیارے ہوسکتے ہیں۔ کیوں نہیں ہوئے وارے نیارے؟ اس کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ اعدادوشمار غلط تھے دوسری یہ کہ اصل خواہش مخالفین کو رگڑا لگانے کی تھی۔

دوست و احباب ناراض ہوتے ہیں جب ان سطور میں عرض کرتا ہوں کہ سیاستدانوں کی کرپشن کا ہوا کھڑا کرکے کچھ سکہ بند ڈاکوئوں کو بچانے کی مہم ہر دور میں چلائی جاتی ہے۔ کرپشن ہوئی ہے یہ سچ ہے لیکن یہ جھوٹ ہے کہ صرف سیاستدانوں نے کی۔
کسی نے کبھی دوہری شہریت رکھنے والے بیوروکریٹس اور دوسروں سے بھی پوچھا کہ آپ نے دوہری شہریت کیسے لی۔ بیرون ملک جائیدادوں کے ذرائع کیا ہیں۔ پیزوں کا کاروبار کیسے شروع کیا یہ اور اس سے ملتے جلتے نصف درجن سوالات ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے کسی سوال پر کھٹ سے حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے۔
ساعت بھر کے لئے پھر سانس لیجئے۔ میں اپنے دوستوں اور مجاہدین سے متفق نہیں ہوں کہ مرزا شہزاد اکبر کا استعفیٰ تبدیلی کا اشارہ ہے۔ یا یہ کہ وہ ’’کسی‘‘ کے بندے تھے۔ ’’ان‘‘ کے کہنے پر الگ ہوگئے۔
ہم پچھلے چالیس برسوں سے اس طرح کے کرداروں سے ملتے اور قصے کہانیاں سنتے چلے آرہے ہیں جب تک کراس دی بورڈ بلاامتیاز احتساب نہیں ہوگا پورا سچ سامنے نہیں آسکتا۔
آپ سوئس بینکوں میں پڑی 280 ارب ڈالر کی اس رقم پر بات کرلیجئے جو بقول شہزاد اکبر کے کرپشن کی کمائی ہے۔ ٹھوس شواہد درکار ہیں کیا وہ ہیں؟ ہوتے تو رسوائی مقدر نہ بنتی۔

اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اسد عمر جن دنوں وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے 200ارب ڈالر بیرون ملک پڑے ہیں، والی بات تو صرف سیاست تھی ، جلسوں اور بیانات میں کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت کا اس سے تعلق نہیں۔
اب جو لوگ 280ارب ڈالر کی کرپشن منی کا راگ الاپ رہے ہیں وہ 200ارب ڈالر اس میں سے منہا کر کے باقی کے 80ارب ڈالر بارے ثبوت لے آئیں۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حدیبیہ پیپر کی فائل پھینکتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کی دھمکی دی جاتی ہے۔ قانون دان کہتے ہیں اپیل میں تاخیر ہوگئی۔
کیا کبھی وقت گزرجانے کے بعد کسی کی بھی اپیل کی سماعت نہیں ہوئی؟
تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالئے ساری باتیں یاد آجائیں گی۔
اب چلتے چلتے ایک گرماگرم خبر وہ یہ کہ حکومت بجلی کے بلوں میں دی گئی سبسڈی میں کمی کے لئے پرانی سیلب ختم کرنے جارہی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ 20ارب روپے کی رقم بچانا مقصود ہے جو صارفین کو سبسڈی کی صورت میں دی جاتی تھی۔8روپے 95پیسے فی یونٹ قیمت بڑھانے کی ضرورت ہے (ضرورت یا آئی ایم ایف کا حکم؟) یہ رقم قسطوں میں بڑھائی جائے گی۔ 95پیسے فی یونٹ کا حالیہ اضافہ اس کا حصہ ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ مرزا شہزاد اکبر نے کرپشن کی تحقیقات پر اندرون ملک و بیرون ملک کتنی رقم خرچ کی ، کیا اس کا حساب کوئی بتلاسکتا ہے؟۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author