نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

منی بجٹ اور شاکر شجاع آبادی کا مصرعہ||ظہور دھریجہ

دیکھا جائے تو یہ مصرعہ غریب عوام کی طرف سے حکمرانوں کو پیغام ہے کہ ہم سے ہماری حالت نہ پوچھو ہمارے چہرے پڑھ لو ۔ حکمرانوں نے ملک کے غریب عوام کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کے غریب عوام سے بھی وسیب کی محرومی اورصوبے کے قیام کا وعدہ کیا تھا

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے آفس میں نیشنل سکیورٹی پالیسی 2022-2026ء کے پبلک ورژن کے اجرء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے ملکی سکیورٹی متاثر اور عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے ۔ اگر معیشت ٹھیک نہ ہو تو خود کو زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔
آئی ایم ایف کے پاس مجبوری سے جانا پڑتاہے ۔ وزیر اعظم کی یہ بات اس کے برعکس ہے جب وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر خطاب کرتے تھے ۔ وزیر اعظم کی بے بسی کو دیکھ کر ایک حسرت دل سے ہوک بن کر اُبھرتی ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہوگا اور اپنے فیصلے خود کرے گا۔غریب عوام کی بے بسی کے عالم میں منی بجٹ اسمبلی سے تو پاس کرا لیا گیا ہے ،
سوال یہ ہے کہ کیا یہ غریب آدمی کیلئے قابلِ قبول ہے ۔نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت مہنگائی کا ایک سے ایک نیا تحفہ دیتی آ رہی ہے ۔ بجٹ کے بعد منی بجٹ بذاتِ خود سوالیہ نشان ہے۔ مگر یہ بھی دیکھئے کہ چند ہی دنوں میں دوسری مرتبہ اضافہ کیا گیا ہے اور پٹرول کی قیمت تین روپے مزید بڑھا دی گئی ہے ۔ اپوزیشن کی طرف سے مہنگائی کے نئے طوفان پر احتجاج ہو رہا ہے ،پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مہنگائی کے خلاف مزاحمت کریں گے ۔ مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ باتیں سب کرتے ہیں ۔ عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا کہ مہنگائی سیاستدانوں کا نہیں غریبوں کا مسئلہ ہے ۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ محض باتوں سے مسائل حل نہیں ہونگے ۔مہنگائی کے بم گرانے والی حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف کی دوسری شرائط ماننے کے ساتھ سٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کی شرط بھی مانگی گئی ہے ۔ سٹیٹ بینک کی خود مختاری اپنے ہی سٹیٹ کے حوالے سے ہے جبکہ وہ آئی ایم ایف کی غلام اور لونڈی بنا دی گئی ہے ۔
اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کو اس لئے نہیں ہٹایا جا رہا کہ وہ آئی ایم ایف کا ایجنٹ ہے ۔ حکومت کی طرف سے دیوارِ احساس اور احساس دستر خوان قائم کئے گئے ہیں ۔مگر یہ اقدامات نہ تو مہنگائی کے طوفان کو روک سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی مشکلات کم کر سکتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے کہا ہے کہ ماضی میں غریب اور کمزور طبقے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوا ۔ لوگوں کی مشکلات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ غربت اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے ۔ ایک سے ایک بحران ہر آئے روز جنم لے رہا ہے ۔
چینی ، آٹا اور اب کھاد کے بحران بارے میں کوئی سرائیکی وسیب سے آ کر پوچھے کہ سرائیکی وسیب بنیادی طور زرعی ریجن ہے ۔گندم افغانستان جا رہی ہے ۔کھاد بھی سمگل ہو رہی ہے۔ افغانستان سے ہمدردی اپنی جگہ مگر پاکستانیوں کو ان کے جرم کے بارے میں بتایا جائے ۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ منی بجٹ سے مہنگائی نہیں ہوگی ۔ عام آدمی پر فرق نہیں پڑے گا ،یہ لوگوں کو بے وقوف بنانے والی بات ہے ۔
وفاقی حکومت نے آج اتوار سے ادویات، ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال،سلائی مشین،درآمدی مصالحہ جات، گاڑیاں، دوائیں، موبائل فون، دو سو گرام سے زیادہ وزن کے حامل بچوں کے دودھ، ڈبے والی دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، مٹھائی پر دی جانیوالی سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی ہے اور ان اشیاء پر سترہ فیصد جنرل سیلز ٹیکس لاگو کردیا ہے۔ کون کہتا ہے کہ سیلز ٹیکس بڑھے گا تو اشیاء مہنگی نہیں ہونگی ۔
اربوں کے اثاثے رکھنے وا لوں کو کریانہ کی دکان پر جانا پڑے تو اُن کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو۔ ظلم تو یہ ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے مالیاتی بل2021 پر دستخط کے بعد منی بجٹ کا نفاذ کردیا گیا ہے جبکہ چینی پر رعایتی سیلز ٹیکس ختم کرکے سترہ فیصد جنرل سیلز ٹیکس کا اطلاق یکم دسمبر 2021 سے کیا گیا ہے اور باقی تمام اشیا پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرکے عائد کردہ سترہ فیصد جی ایس ٹی کا اطلاق آج سے کیا گیا ہے۔
ٹیکس کی زد میں آنے والی اشیاء کی فہرست پر غور کیا جائے تو اِن میں سامانِ تعش کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ چھوٹی دکانوں پر بریڈ،سویاں،نان،چپاتی،شیر مال، رسوں پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا مگر بیکریوں،ریسٹورنٹس، فوڈ چینز اور مٹھائی کی بڑی دکانوں پر ٹیکس ہوگا۔ اس کے علاوہ درآمدی نیوز پرنٹ، اخبارات، جرائد، کاسمیٹکس، کتابیں، سلائی مشین، امپورٹڈ زندہ جانور اور مرغی پر مزید ٹیکس لگے گا۔کپاس کے بیج، پولٹری سے متعلق مشینری، اسٹیشنری، سونا، چاندی بھی منی بجٹ کے بعد مہنگے ہوجائیں گے۔
منی بجٹ میں تقریباً 150اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھایاگیا ہے، موبائل فون پر ٹیکس 10سے بڑھا کر15فیصد کرکے7ارب روپے اضافی حاصل کیے جائیں گے۔ یہ تمام اقدامات مہنگائی کو بڑھانے والے ہیں ۔حکومت بجٹ کے بعد منی بجٹ لائی ہے تو منی بجٹ کے بعد ایک ریلیف بجٹ بھی لانا چاہیئے تاکہ غریبوں کو آسانی اور سہولت میسر آ سکے ۔مگر حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کہ کابینہ کے وزراء اپنی شکست کو بھی فاتحانہ انداز میں بیان کرنے کے عادی ہیں۔ مہنگائی کا طوفان لانے والے منی بجٹ کی منظوری کے بعد ایک طرف غریبوں کی آہ و فغاں جاری ہے دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سرائیکی زبان کے معروف شاعر شاکر شجاع آبادی کا مصرعہ ’’توں شاکر آپ سیانا ہیں ساڈے چہرے پڑھ حالات نہ پُچھ‘‘دہرایا ۔
دیکھا جائے تو یہ مصرعہ غریب عوام کی طرف سے حکمرانوں کو پیغام ہے کہ ہم سے ہماری حالت نہ پوچھو ہمارے چہرے پڑھ لو ۔ حکمرانوں نے ملک کے غریب عوام کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کے غریب عوام سے بھی وسیب کی محرومی اورصوبے کے قیام کا وعدہ کیا تھا ۔مگر چوتھا سال شروع ہے کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا ۔ شاکر شجاع آبادی ایک دوہڑہ حکمرانوں کی بے حسی کی نذر : بھلا خوشیاں کہیں کوں چک پیندن کوئی خوشی ٹھکرا پتہ لگ ویندے جیرھی چیخ پکار کوں پھند آہدیں اوہا توں چا بنا پتہ لگ ویندے جے روون اپنے وس ہوندے توں رو ڈکھلا پتہ لگ ویندے جیویں عمر نبھی ہے شاکر دی ہک منٹ نبھا پتہ لگ ویندے

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author