رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع راجن پور کے قدیمی شہر داجل کے بیچوں بیچ پچادھ کو جاتی بمشکل دو کلو میٹر سڑک ! کیچڑ سے لت پت شہ رگ یا پچھہتر سال سے چولے بدل بدل کر اقتدار کی لذتیں لوٹنے والوں کے چہرے پہ کالک کی گہری بد نما لکیر ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کا دوسرا بڑا شہر داجل کتنا قدیم اور اھم ھے اس کو کھوجنا تاریخ کے طالب علموں کا کام ھے۔ جتنا ھم جانتے ہیں وہ اس طرح ھے کہ پچھلے پچھہتر سال سے پچادھ کو جاتی یا پچادھ سے آتی آبادی داجل کے بیچوں بیچ دو کلومیٹر راستہ سے گذر کے اور اسی راستہ کے دائیں بائیں کے مکین اپنی تحصیل، اپنے ضلع، اپنے صوبہ اور اپنے ملک کو جس قدر مالیاتی خراج، لگان ، بیگار، چَٹی (جرمانہ) اور آمدن دے چکے ہیں کہ اس کا تو شمار شاید ممکن ھے مگر یہ سب آبادی صلے میں جس اذیت اور ذلت سے دو چار ھے اس کا کوئی حساب نہیں۔۔۔۔۔۔
ذرا اندازہ لگائیں تمن گورچانی کے قبائلی علاقے کے مکیں، رقبہ لُنڈان، کوٹلی جمال، ٹبی لُنڈان، سخی بور بخش، ٹھل سیرک، ٹھل جانن، ٹھل گانمن، ٹھل ہیرو، گنہیڑ، ٹھل عالم خان، ٹھل علی محمد، بستی بھورے خان، بیٹہ، ٹولہی، مڈ رندان، محمد پور ہانبھی، بستی لنجوانی، ھڑند، بستی پناہ علی، کالا کرینہہ، بستی نواب، بستی چنال، بستی گلابی، بستی حجانہ، ٹھل سیدخان، ٹھل وزیر خان ، بستی ہانبھی، حمزہ سلطان، بستی جسکانی، بستی جھانب، ٹبی سولگی، نوشہرہ ، بستی بدھ، بستی ملنہاس/منہاس، بستی ڈھانڈلہ، تل شمالی، چتر فقیر، کھوسہ اور کوٹھہ جندو سمیت پتہ نہیں کتنی اور آبادیوں کے لوگ جو بائیسویں صدیں میں انسان کہلانے کے سزاوار نہیں اور محض مردم شماری کے کاغذوں کا پیٹ بھرنے والے کیڑے مکوڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔
یہی انسان نما کیڑے مکوڑے پچھلے پچھہتر سال سے اسی دو کلومیٹر اجڑے، پجڑے، اکھڑے، گٹر کھلے، پانی پھیلے، سوماں بھرے کیچڑ سے اٹے راستے سے آنے جانے پہ مجبور ہیں۔ اور ایسا صرف بارشوں کے موسم میں نہیں بلکہ ہر وقت یہی سماں رہتا ھے ۔ اسی دو کلومیٹر ٹکڑے کے دائیں بائیں سبزیوں، پھلوں، مٹھائیوں، انسانی خوراک کے سودا سلف کی دکانیں ہیں جہاں سے لوگوں کو آلودگی سودا جات میں شامل ہو کر تُل کے پیسوں سے ملتی ھے۔ المیہ یہ ھے کہ اذیتوں اور ذلتوں کے تسلسل کا شکار اور انسانی حس سے بیزار لوگ اسے بازار کہتے ہیں ۔ اور یہاں کے تقریباً سارے ڈاکٹرز نے بھی اسی سڑک پہ بیٹھ کے بیماریوں اور دوائیوں کی آنکھ مچولی کی دکانیں سجا رکھی ہیں ۔ مردانہ اور زنانہ سرکاری سکول کے بچے اور بچیاں اسی ذلت سے گزر کے پڑھنے جاتی ہیں اور واپس اسی ذلت سے گزر کے گھر جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
یہاں سے لے کے پہاڑ تک کی پھیلی غیر انسانی آبادی کے اکثریتی ووٹ نسل در نسل حرام کی کمائی اور تھانے کچہریوں کے بل بوتے پر برطانوی سامراج کے گماشتہ اور اب امریکی سامراج کے دلال لغاریوں ، دریشکوں اور گورچانیوں کے حق میں جاتے ہیں۔ اور انہی کے پڑھائے ہوئے نصاب کی کتابوں کی روشنی میں یہی قاتل مسیحا منتخب نمائندے کہلاتے ہیں ۔ یہ سارے خبیث تفریح اور وقت گزاری کے طور پر ذلیل ہو کر مرنے والوں کے جنازوں میں، قل خوانیوں میں اور شادیوں میں شریک ہوتے ہیں مگر اپنی اس تفریح کا احسان جتلاتے ہیں۔ ان حرامخور سامراجی دلال سرداروں کے سہولت کار گماشتے انہی احسانات کی مالا جپتے رہتے ہیں کہ ایک نیا الیکشن سر پر آن پڑتا ھے ۔ کل کے اتحادی سردار آج کے حریف بن کر ایک دوسرے کو طے شدہ پروگرام کے تحت گالیاں دے کر نئے اتحاد کے نئے کرشموں کے بھاش دے کر منتخب ہونے کی مبارکبادیوں کو بے شرمی سے سمیٹ کر ایک اگلی خباثت کی پیش بندی تک رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ درست ھے کہ پچھہتر سالوں سے ان کا یہ گھن چکر اور ناٹک جاری ھے۔ مگر بقول کامریڈ ڈاکٹر لال خان ” محروموں، مظلوموں اور مجبوروں کی یہ سرشت ہوتی ھے کہ وہ ہر قسم کے دکھ، درد، تکلیف، اذیت اور ذلت میں بھی سوچنا ترک نہیں کرتے اور دشمنوں کی پہچان کے عمل کو ذہن میں رکھتے ہیں”۔ آج ضرورت اس امر کی ھے کہ غریبوں اور مظلوں کی اس سوچ اور پہچان کو نجات کی ایک راہ دکھلائی جائے۔ ایسی راہ جو ان سب کے متحد ہونے سے شروع ہو کر بالادست طبقے سے اپنے ایک ایک دکھ اور ایک زخم کا حساب لینے تک جاتی ھے ۔۔۔۔۔۔ اتحاد کی اس راہ پہ استقامت سے چلتے ہوئے منزل تک پہنچنے میں بھلے دیر ھے مگر اندھیر نہیں ۔۔۔۔
ساحر لدھیانوی نے تبھی تو کہا تھا کہ
پل بھر کا مہماں ھے اندھیرا
کس کے روکے رکا ھے سویرا ؟
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر