نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پرندوں کو مرنے سے بچایا جائے(1)||ظہور دھریجہ

سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی چولستان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں مسافر پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پرندے سائبریا اور دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے امن کی تلاش میں آتے ہیں مگر افسوس کہ شکاری ان کے آنے سے پہلے ہی مورچہ زن ہو جاتے ہیں ۔

پرندوں کے حوالے سے پچھلے دنوں ایک فکر انگیز کالم اشرف شریف صاحب کا پڑھنے کو ملا، انہوں نے لکھا کہ ان دنوں ٹھنڈے علاقوں سے ہجرت کر کے بہت سے پرندے آئے ہیں، انہوں نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ ہم پرندوں کے ناموں سے بھی ناواقف ہیں ، اس سلسلہ میں انہوں نے پرندوں کے بارے میں کچھ کتابوں کا بھی ذکر کیااور یہ بھی کہا کہ پرندوں کے حوالے سے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے ۔
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی چولستان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں مسافر پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پرندے سائبریا اور دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے امن کی تلاش میں آتے ہیں مگر افسوس کہ شکاری ان کے آنے سے پہلے ہی مورچہ زن ہو جاتے ہیں ۔
سابقہ ادوار میں جتنے بھی حکمران آئے یا تو وہ خود شکاری تھے یا پھر مراعات یافتہ طبقے کو شکار کی سہولتیں دیکر مراعات حاصل کرتے رہے ۔ موجودہ حکومت تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آئی ہے ، حکومت پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرندوں کو شکار ہونے سے بچائے خصوصاً چولستان جو کہ پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔پرندے کائنات کا حسن ہیں، انسان کی بولی کی طرح پرندوں کی بولیاں بھی ہیں، سرائیکی شاعر اقبال سوکڑی نے ایک شعر شکاریوں کے بارے میں کہا ’’اوں نہ ڈٹھا جو پنچھی دی کیا بولی ہئی، اوندے ہتھ بندوق بندوق اچ گولی ہئی‘‘۔
یعنی شکاری نے یہ نہ دیکھا کہ پرندے کی کیا بولی ہے ، اس کے ہاتھ میں بندوق اور بندوق میں گولی تھی۔ اشرف شریف صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہوں یا وزیر اعظم ہمارے حکمران تحقیق اور علم کے نزدیک بھی نہیں جاتے ، اردو سائنس بورڈ واحد ادارہ تھا جو سائنسی موضوعات کی تفہیم اور اشاعت کا کام کر رہا تھا، پی ٹی آئی حکومت نے اسے کچھ دوسرے غیر فعال اداروں میں مدغم کر کے جانے کسی مینجمنٹ کی داد پائی ہے، وزیر تعلیم شفقت محمود خدا کی کرنی ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر بھی بن گئے ہیں ، وقت انکے پاس کبھی رہا نہیں ، وہ اپنے گائوں کی چڑیا تو سول سروس میں آنے سے پہلے ہی بھول گئے تھے ، اب ہم ان سے کیا امید لگائیں گے کہ کونج ، سرخ ٹوٹرو، تلیئر، بٹیر، ٹٹیری، مرغابی، مگھ ، سرخاب، لق لق، ہد ہد اور نیل کنٹھ بھی ہماری تعلیم ، تاریخ اور دھرتی کا حصہ ہیں۔
میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا تعلق ہمارے ضلع رحیم یار خان سے ہے، اور یہ بھی عرض کروں کہ وہ گجر فیملی سے ہیں ، عرب شیوخ کو سب سے پہلے شکار کی سہولتیں اس فیملی نے دی اس کے بعد چوہدری ہدایت اللہ عرب شکاریوں کو سہولتیں فراہم کرتے رہے اور اب یہ کام وراثتی طور پر چوہدری منیر ہدایت اللہ کے حصے میں آیا ہے۔
عرب مہمانوںنے شکار کے ذریعے چولستان اور وسیب کے دوسرے علاقوں کے حسن کو پامال کر کے رکھ دیا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ شکار کیلئے آتے ہیں ، دولت خرچ کرتے ہیںاور اس دولت کی ریل پیل سے بہت سے لوگوں کی معاشی مشکلات میں کمی آتی ہے لیکن ایسی دولت کا کیا فائدہ جو کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت اور خطے کے حسن کے خاتمے کا باعث بنے۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صدارت میں ہونے والے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بریفنگ میں بتایا گیا کہ سندھ کے صحافی ناظم جوکھیو کے قتل کے معاملہ میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے جام اویس ملوث ہیں ، بریفنگ میں بتایا گیا کہ جام اویس نے عرب شہزادوں شکاریوں کو شکار کی غرض سے بلایا ہوا تھا ، ایم پی اے کا گارڈ ناظم جوکھیو کو پکڑ کر زبردستی اندر لے گیا ، اس کی چیخوں کی آوازیں آئیں اور و ہ مرگیا، بریفنگ دیتے ہوئے سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ عرب شکاری صرف پرندوں کا شکار کرنے نہیں آتے بلکہ وہ ایسے ایسے برے کاموں میں ملوث ہیں جن کے بارے میں بتاتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے، اس موقع پر شیریں مزار ی نے کہا کہ ناظم جوکھیو کے قتل کی مدعی سٹیٹ بنے گی ۔
اس بارے میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ سٹیٹ کو وارث بننا چاہئے مگر اس سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ سٹیٹ شکار پر پابندی کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرائے اور یہ قانون ملکی و غیر ملکی شہریوں سب کیلئے ہونا چاہئے۔ تلور اور دوسرے پرندے سائبریا سے آتے ہیں ۔ سائبریا سے تھوڑا آگے جائیں تو دنیا کے معروف خطہ قطب شمالی آتا ہے جہاں چھ مہینے دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے یوں سائبریا اور قطب شمالی سے آنے والے تمام پرندوں کی اہمیت مسلمہ ہے مگر تلور اور باز خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، تلور کا گوشت عرب شیوخ کی مرغوب غذا ہے۔ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں تلور جونہی سائبریا سے چولستان کا رخ کرتے ہیں تو متحدہ عرب امارات سے شکاری پاکستان آ جاتے ہیں ، انکے ساتھ ایک فوج ظفر موج گاڑیوں کے کانوائے کے ساتھ موجود ہوتی ہے ۔
ان کی آمد کے ساتھ ہی سرائیکی وسیب کے چولستان میں چرند پرند کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے۔ اس پر وسیب اس قدر صدمے کا شکار ہے کہ وہ رونا بھی چاہتا ہے تو رو نہیں سکتا، ایک صدمہ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا ہے ۔ دوسرا شکاریوں نے چولستان کے قدرتی حسن کو برباد کر دیا ہے ۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ سردی کے اس موسم میں سرائیکی وسیب آنے والے پرندوں تلور، باز، کونج اور مرغابی وغیرہ کو انگریزی میں Migrated Birds جبکہ اردو میں مسافر یا مہاجر پرندے سرائیکی میں ان پرندوں کو ’’ پناہ گیر پکھی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو مشکل ہے کہ پناہ کی غرض سے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً چولستان میں آنے و الے پرندوں سے سرائیکی وسیب کی روایات سے بر عکس سلوک ہو رہا ہے۔ یہ مہمان پرندے معصوم ہی نہیں دلنواز بھی ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ ان مہمانوں کو سرائیکی وسیب میں موت نہیں حیات ملتی ہے ۔ پیار، محبت اور انس ملتا تھا ، شاید انہی پرندوں کے بارے میں عظیم سرائیکی شاعر خواجہ فریدؒ نے کہا تھا: پکھی پردیسی اُبھے سردے۔ ڈو ڈینھ دے خلقائیں (جاری ہے)

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author