نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیا سال اور معاشی استحکام ؟||ظہور دھریجہ

معاشی استحکام کیلئے زراعت پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ زرعی انڈسٹری کو وجود میں لانے کی ضرورت ہے اور 2022ء کو صنعتی منصوبوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ سی پیک کے رکے ہوئے صنعتی منصوبوں کو پھر سے بحال اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وقت بتائے گا کہ میٹرو ٹرین بہتر ہے یا صحت کارڈ ۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست مدینہ کے سامنے ایشین ٹائیگر کی کوئی حیثیت نہیں ۔ وزیر اعظم کی باتیں درست اور بجا ،مگر صرف باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے ۔
ریاست مدینہ کے امیر المومنین حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ دریائے فرأت کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کیلئے بھی جواب دہ ہوں۔ مگر پاکستان میں معاشی صورتحال نہایت ہی کمزور ہے ۔ غربت اور بے روزگاری نے غریب کا جینا محال کر دیا ہے ۔ اوپر سے آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگائی کے بم گرائے جا رہے ہیں ۔ حال ہی میں آنے والے منی بجٹ سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا ۔
اسٹیٹ بینک کو خود مختاری تو دی گئی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ سال 2021ء کے ابتدائی 9ماہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 7فیصد پر ہی رکھا ، بعد میں 9.75فیصد تک پہنچا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود بڑھائے جانے سے کاروبار مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ۔ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے ۔ عمران خان حکومت کی مدت پوری ہونے والی ہے ۔ باتوں کی بجائے عملی طور پر معاشی استحکام کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔
گزشتہ برسوں کی معاشی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے ۔ نئے سال میں حکومتی دعوے الگ مگر معاشی ماہرین کے مطابق سال2021ء ملک میں بیروزگاری کا تناسب 5.1فیصد پہنچنے کا امکان ہے ۔بے روزگاروں کی فوج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سال2018ء میں پاکستان کی کل لیبر فورس کی تعداد تقریباً6کروڑ 55لاکھ جبکہ اس وقت بیروزگاری کا تناسب 5.8فیصد تھا۔ ادارہ شماریات کے مطابق کورونا وبا سے قبل ملک میں برسر روزگار افراد کی تعداد تقریباً5کروڑ 57لاکھ تھی یوں 2019ء میں پاکستان میں تقریباً 1کروڑ افراد بیروزگار تھے ۔
تاہم کورونا وباء کے باعث لگنے والے لاک ڈائون سے بیروزگاری میں مزید22 فیصد اضافہ ہوا جس سے برسر روزگار افراد کی تعداد کم ہو کر 3کروڑ 50لاکھ کو پہنچ گئی ۔کورونا پوری دنیا میں آیا مگر پاکستان میں اس کا اثر تباہ کن ہوا۔ گزشتہ سال کے معاشی عدم استحکام کو استحکام میں بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی ممکن نہیں کہ لاک ڈائون کے دوران 37 فیصد یعنی تقریباً2کروڑ 6لاکھ افراد بے روزگار ہوئے جبکہ 12فیصد یعنی تقریباً70لاکھ افراد کو تنخواہوں میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا ۔ کورونا لاک ڈائون نے سب سے زیادہ روزانہ اجرات سے منسلک افراد کا نقصان کیا ۔
ساتھ ہی بیروزگاری کا سامنا کرنے والے 74فیصد افراد کا تعلق ان فارمل سیکٹر سے تھا ۔ لاک ڈائون میں نرمی کے باعث روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور ادارہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق ملک کے تقریباً 5 کروڑ 25 لاکھ افراد کو روزگار میسر ہے۔ سرائیکی وسیب میں بے روزگاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے کہ وسیب میں کوئی انڈسٹریل سٹیٹ نہیں ہے ۔بنیادی طور پرسرائیکی وسیب زرعی ریجن ہے ، کھاد کے بحران نے کاشتکاروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ حکومت فوری طور پر کھاد کے بحران پر قابو پائے ۔ زرعی ادویات میں ملاوٹ اور پانی چوری جیسے مسائل کو حل کرے۔ عالمی سطح پر بھی معیشت کی بحالی کیلئے کوششوں کی ضرورت ہے۔ نئے سال کی آمد پر ترقی یافتہ ممالک نے آتش بازی کرکے نئے سال کا جشن منایا ۔
ترقی یافتہ ممالک کا جشن دراصل غریب ممالک کے خون پسینے کی کمائی کا جشن ہے ۔ معاشی استحکام کیلئے برآمدات اور درآمدات میں توازن ضروری ہے ۔ تحریک انصاف کے تین سال سے زائد کے دور اقتدار کا موازنہ کیا جائے تو ملک کا بجٹ خسارہ 1ہزار891ارب روپے سے 81فیصد بڑھ چکاہے ۔ یوں حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد بجٹ خسارے میں 1 ہزار 529ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو کہ تباہ معاشی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ بھی دیکھئے کہ مالی سال 2022ء کیلئے حکومت کی جانب سے 5ہزار829ارب روپے کے ٹیکس آمدن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے روال مالی سال2022ء تا نومبر میں 2ہزار 314ارب روپے کا نیٹ ریونیو حاصل کیا ہے جو کہ اس عرصہ کے مقرر کردہ ہدف 2ہزار16ارب روپے سے 298ارب روپے زائد ہے ۔یہ تمام صورتحال اس بات کی شہادت ہے کہ گزشتہ سال بھی معیشت عدم استحکام کا شکار رہی جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نئے سال میں معاشی استحکام کی طرف توجہ دیتی ہے یا پھر معاشی استحکام سوالیہ نشان رہے گا۔
معاشی استحکام کیلئے زراعت پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ زرعی انڈسٹری کو وجود میں لانے کی ضرورت ہے اور 2022ء کو صنعتی منصوبوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ سی پیک کے رکے ہوئے صنعتی منصوبوں کو پھر سے بحال اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم مسئلہ روزگار ہے ہمارے وزراء کرام مہنگائی کے حوالے سے دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بیروزگاروں کو بھی الائونس ملتا ہے ۔ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔پوری دنیا نئے سال کا جشن منا رہی ہے مگر پاکستان میں پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے نئے سال کا تحفہ دیا گیا ہے ۔ آخر میں نئے سال کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی نے امید افزا ایک خوبصورت دعائیہ نظم کہی جو کہ ہر دل کی آواز ہے : خدا کرے میری ارض پاک پر اُترے وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author