گزشتہ کچھ دنوں سے جمعیت علما اسلام کے امیر سے زیادہ پاکستان میں مزاحمتی سیاست کے نمونہ بننے والے مولانا فضل الرحمن کے بارے میں یہ تاثر ابھر چلا ہے کہ وہ پگھل رہے ہیں وہ اسلام آباد پہنچنے کے تین دن بعد ہی وزیراعظم سے استعفے لینے کے عزم سے پیچھے ہٹ گئے ہیں وہ ڈی چوک بھی نہیں جارہے۔ پہلے اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے دودن کا وقت دیا کہ وزیراعظم استعفے دیں ورنہ ان کے اگلے لائحہ عمل کے لئے تیار رہیں۔ سب کو انتظارتھا کہ مولانا صاحب جن کے انداز سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ ضرور ریاست میں کوئی ان کے ساتھ ملا ہوا ہے اوروہ کسی صورت وزیراعظم کا استعفے لئے بغیرواپس نہیں جائیں گے اوران کے موقف میں نرمی کی بجائے ایسی سختی آرہی تھی جس سے لگ رہا تھا کہ وہ یا تواپنا ہدف حاصل کرلیں گے یا خود کو بھی فنا کرجائیں گے، یہ دوسری بات تھی کہ مولانا اوران کے طرز سیاست کو سمجھنے والے ایسا نہیں سجھ رہے تھے۔
اگر کسی کو یاد ہو تو قریبا تمام بڑی پارٹیوں نے مولانا سے درخواست کی تھی کہ احتجاج کا عمل اکتوبر کے آخر کی بجائے نومبر میں شروع کیا جائے لیکن وہ نہیں مانے اوراعلان کیا کہ وہ جارہے ہیں جس نے آنا ہے آجائے ورنہ وہ اکیلے ہی کافی ہیں اوروہ چل پڑے۔اوریہ وہ وقت تھا جب سب کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ مولانا جو اپنے پتے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اورکسی کو اپنا شریک راز نہیں کررہے ضروران کے پاس ایسا کچھ ہے جو انہیں کامیاب کردے گا یہی وہ اشارے تھے جن سے احتجاج میں شامل تمام جماعتیں بلیک میل ہوئیں۔ دوسری جس چیز نے ان سب جماعتوں کو مولانا کے پیچھے نیت باندھنے پر مجبورکیا وہ انکا فوج کے کردار اورلائحہ عمل کے بارے میں مضبوط موقف تھا۔ کسی اورکو تو شبہ ہو نا ہو کم ازکم مجھے تو یہ تاثر ملا تھا کہ مولانا صاحب جو اتنے اعتماد کے ساتھ پوری دنیا سے بھڑ بیٹھے ہیں وہ حکومت کو شکست دینے کے معاملے پر ضرور کسی اہم شخصیت یا گروپ کی پشت پناہی رکھتے ہیں جو اتنا ہی مضبوط ہے جتنا عمران خان کے ساتھ کھڑی قوت ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ازخود ہی اندازے لگانے شروع کردیے کہ وہ جو قوت ہے اس میں سے پوری آدھی آدھی عمران خان اورمولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہے یا اس شرح میں فرق ہے۔
مجھ جیسے ناسمجھ اوربغیر کسی سورس کے اس قسم کی باتوں کو ذہن میں پالنے والے اگر ایسا سوچتے تو بھی کوئی بات تھی لیکن یہ اچانک پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کو کیا ہوگیا وہ جو ہر قدم پھونک پھونک کررکھ رہے تھے وہ کیوں ایسے اچانک میدان میں کودپڑے اور حیرانگی تو اس وقت ہوئی جب بلاول بھٹو زرداری نے اشارہ نہیں بلکہ کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ دھرنے میں بھی جاسکتے ہیں ہاں بس ایک شرط رکھی تھی کہ پارٹی کی کورکمیٹی منظوری دے دے بس۔
مولانا کی جانب سے دھرنے اورڈی چوک میں نہ جانے کی بات کی ابھی بازگشت سنائی ہی دے رہی تھی کہ وفاقی وزرا اورٹی وی پرحکومتی کہانی کو سپورٹ کرنے والوں نے اچانک مولانا صاحب کے لئے ڈیزل کی بجائے فضل الرحمن کا لفظ استعمال کیا اوران کے لہجے میں ایک خاص قسم کی وضح داری امڈ آئی۔
حکومت کی جانب سے اعلان بھی سامنے آیا کہ وہ مولانا کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرنا چاہتی تھی یعنی اس سے پہلے ہونے والے مذاکرات سنجیدہ تو نہیں تھے کم ازکم، ایسے میں بچوں کو بھی سمجھ آگئی کہ ایک طرف مولانا کی طرف سے اگلے لائحہ عمل کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس بلانا، حکومت کی جانب سے سنجیدہ مذاکرات کرنا اورساتھ ہی مولانا کے لئے استعمال ہونے والے برے القابات کا استعمال بند ہونا ظاہر کررہا تھا کہ نہ صرف مولانا پگھل رہے ہیں بلکہ دوسری طرف بھی بہت کچھ پگھل رہا ہے۔
لیکن ان تمام باتوں سے آگے کا ایک معاملہ اوربھی تھا کہ وہ مفتی کفایت اللہ جنہیں حکومت نے گرفتارکرلیا تھا وہ ایک ٹاک شو میں کہتے پائے گئے کہ حکومت اگر بات کو کسی مناسب سمت میں بڑھانا چاہتی ہے تو کم ازکم وزیراعظم عمران خان مولانا فضل الرحمن کے لئے لفظ ڈیزل کے استعمال پرمعافی ہی مانگ لیں تو بھی یہ ایک مناسب پیش رفت ہوگی۔
یہ سب سنتے اوردیکھتے کچھ تصویریں بھی سوشل میڈیا پرنظرسے گذرتی رہیں جن میں تحریک لبیک پاکستان کے خادم حسین رضوی کی تصویر سب میں نمایاں تھی جس کے ساتھ ہی لکھا ہوا تھا کہ ریاست سے ٹکرانے سے گریز کریں ورنہ اس قسم کے نتائج کے لئے خود کو تیاررکھیں۔
کوئی احمق ہی ہوگا جو مولانا فضل الرحمن اورخادم حسین رضوی کے مابین موازنہ کرے لیکن کم ازکم یہ تو ماننا پڑے گا کہ جب ریاست بخوشی یا کسی ضرورت کے تحت رضوی صاحب جیسے لوگوں کا یہ حال کرسکتی ہے تو مولانا صاحب کے ساتھ توکچھ بھی کرسکتی ہے۔
ایسے وقت میں جب مولانا کے پیچھے کھڑے لوگوں میں سندھ حکومت کے مالک بلاول بھٹو زرداری اورمریم نواز شریف کی گرفتاری کے معاملے پرپریشان مسلم لیگ ن بھی شامل ہوں۔ ایسے میں اگر مولانا کو یہ بات سمجھ آگئی کہ وہ اکیلے ہی کیوں کچھ بھگتے تو یہ شاید ان کے حق میں بہتر ہو۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سارا معاملہ ایک بڑی ریاستی شخصیت کو ملنے والی ایکسٹینشن کا ہے اورمولانا جو آرہے ہیں وہ اس ایکسٹینشن کے مخالف لوگوں کے نمائندے ہیں جبکہ دوسری طرف اس شخصیت کو مزید تین سال کام کرنے کی اجازت دینے کے خواہشمندلوگوں سے تھا۔ بات جو بھی ہو لیکن ایک بات یہ بھی ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اس سارے کھیل کا فائدہ اس سے باہر رہنے والے سراج الحق جیسی قوتوں کو ہوسکتا ہے جو کچھ نہ کرکے فائدے میں رہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر