ستمبر 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

عدالت نے سوال پوچھا تھا کیا ایگزیکٹو جج کیخلاف مواد اکٹھا کر سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ  ایگزیکٹو صدر کی منظوری کے بعد ہی مواد جمع کر سکتا ہے۔
اسلام آباد:صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کا دس رکنی لارجر بنچ کررہاہے جسکی سربراہی  جسٹس عمر عطا بندیال کررہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک  نے سماعت کے آغاز پر اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے سوال پوچھا تھا کیا ایگزیکٹو جج کیخلاف مواد اکٹھا کر سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ  ایگزیکٹو صدر کی منظوری کے بعد ہی مواد جمع کر سکتا ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کسی جج کیخلاف مواد جمع کرنے کا اختیار نہیں  ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا صدر کو اختیار ہے کہ مواد جمع کرنے کا حکم کسی بھی ادارے کو دے سکے؟
منیر اے ملک نے جواب دیا  صدر کے تمام اختیارات بھی قانون کے ہی تابع ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو اختیارات کا استعمال صدر کا کام نہیں۔
منیر اے ملک نے کہا کہ  صدر کو جج کیخلاف شکایت وزیر اعظم اور کابینہ بھی بھجوا سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کیا صدر وزیراعظم کی سفارش کے خلاف حکم دے سکتا ہے؟

جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم صدر کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر عمل سے روک سکتا ہے؟

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ججز کی تعیناتی اور برطرفی وفاق کا ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے پوچھا ایگزیکٹو کے اختیارات جمہوریت میں صدر کیسے استعمال کر سکتا ہے؟

جسٹس منیر اے ملک نے کہا کہ کابینہ کی منظور کے بغیر معاملہ صدر کو نہیں بھیجا جا سکتا۔ جج کے خلاف ملنے والے مواد پر صدر کی رائے قائم ہونا لازمی ہے,صدر مملکت کا کام صرف ڈاکخانہ والا نہیں،ہر قانون کی خلاف ورزی مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 کا اطلاق صرف اعلی عدلیہ کے ججز پر ہی نہیں ہوتا،آڈیٹر جنرل، ممبران الیکشن کمیشن کو بھی آرٹیکل 209 کے تحت ہی ہٹایا جاتا ہے۔ آرٹیکل 209 کی ایسی تشریح نہیں چاہتے کہ کسی کو عہدے سے ہٹایا ہی نہ جا سکے۔ کیاا آپ بھی نہیں چاہتے کہ جس کے خلاف ریفرنس ہو وہ بد نیتی کا الزام لگا کر سپریم کورٹ آ جائے؟

منیر اے ملک نے کہا ججز کو صرف بالوں سے پکڑنا اور گرفتار کرنا ہی تضحیک نہیں ہوتا، ججز اور انکے اہلخانہ کی جاسوسی اور نجی زندگی میں مداخلت بھی تضحیک ہے،جسٹس فائز عیسی کیس میں جج اور اہلخانہ کی تضحیک اور ہراساں کیا جانا ثابت کرنے کی کوشش کی، عدالت کو طے کرنا ہوگا ججز کے معاملے میں ایگزیکٹو کے کیا اختیارات ہیں،؟

جسٹس فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اصول وضع کرنے کا اختیار نہیں،آرٹیکل 248 کے تحت استثنی وزیراعظم کو ہے انکے اقدامات کو نہیں،وزیراعظم کے غیرقانونی احکامات چیلنج ہو سکتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا استثنی وزیراعظم اور وزراء کی ذاتی زندگی اور فوجداری جرائم پر نہیں ہوتا، کیا ججز کو حاصل استثنی وزیراعظم سے زیادہ مضبوط نہیں؟ججز کے کردار پر تو پارلیمان میں بھی بحث نہیں ہو سکتی۔

منیر اے ملک نے کہا  وزیراعظم غیر قانونی اقدام کرے گا تو آرٹیکل 248 کا استثنی دستیاب نہیں ہوگا،وحید ڈوگر کی شکایت صدر مملکت کے سامنے نہیں رکھی گئی،صدرمملکت سارے معاملے پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا صدر مملکت اور وزیر اعظم نے کہاں غیر آئینی اقدام کیا ہے نشاندہی کریں، درخواست میں عمومی باتیں بہت زیادہ ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا شہزاد اکبر نے اپنی طرف سے ساری انکواری کروائی، صدر مملکت نے تیار ریفرنس پر اپنی آزاد رائے نہیں بنائی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدرمملکت کے اقدام میں بدنیتی کی نشاندہی بھی کریں،صدر مملکت کی جانب سے اقدام میں بدنیتی پر مطمئن کریں،عدالتی نظیر سے نکل کر قانون کی خلاف ورزی کی نشاندہی کریں۔

منیر اے ملک نے کہا وزیر اعظم نے کابینہ کو بائی پاس کیا، وزیرا عظم نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے،مواد اکھٹا کرتے ہوئے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی، تحریک انصاف نے جسٹس قاضی فائز عیسی کو ہٹانے کی بات نظر ثانی درخواست میں کی۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا وہ نظرثانی کی درخواست واپس لے لی گئی تھی۔

منیر اے ملک نے کہا اس نظرثانی درخواست سے حکومت کا مائینڈ سیٹ پتا چلتا ہے۔

جسٹس عمر نے کہا عدالت کسی کے سٹیٹ آف مائینڈ کا کیسے جائزہ لے سکتی ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کیا وزیر اعظم نے ریفرنس پر اپنی سفارش نیک نیتی کے ساتھ دی،وزیر اعظم نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ کب سنبھالا؟ وزیر اعظم نے رواں سال گوشواروں میں زیر کفالت کا ذکر کرنا تھا۔

منیر اے ملک نے کہا وزیر قانون نے ریفرنس کی سمری کابینہ کے بجائے وزیر اعظم کو بھیجی، وزیر قانون نے شہزاد اکبر کو انکوائری کا اختیار دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا خفیہ ڈیٹا ایف بی آر سے لیا گیا۔ وزیر قانون ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی دهرنا کیس میں نظر ثانی کی درخواست زیر التوا ہے۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی شہزاد اکبر تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ریفرنس اختیارات کے بغیر تیار کیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کی ایڈوائس افتخار چوہدری کیس میں بھی تھی،افتخار چوہدری کیس میں بدنیتی وزیراعظم نہیں صدر کے اقدامات کو قرار دیا گیا۔

منیر اے ملک نے کہا اب وزیراعظم اکیلا کوئی سفارش نہیں کر سکتا، اختیار کابینہ کو منتقل ہو چکا،صدر کی ریفرنس پر آزادانہ رائے قائم ہونا لازمی ہے یا نہیں واضح نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا صدر صرف سفارش کا پابند ہے یا اسکا اپنا اطمینان ضروری ہے؟

منیر اے ملک نے کہا  ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار صرف حکومت کی سفارش پر استعمال نہیں ہو سکتا،قانون میں ایمرجنسی نافذ کرنے کیلئے صدر کا اطمینان ضروری ہے ۔ وزیراعظم کا عہدہ پارٹی اور سیاست سے بالاتر ہوتا ہے،صدر مملکت قوم کی وحدت کی علامت ہوتا ہے،وزیراعظم اور کابینہ کسی فیصلے پر خوش نہ ہوکر بھی جج کیخلاف سفارش کر سکتے ہیں،صدر کی رائے ہی ایگزیکٹو اور عدلیہ کو آمنے سامنے آنے سے روک سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہایہ بھی ہو سکتا ہے صدر کو کسی جج سے ذاتی عناد ہو؟

منیر اے ملک نے کہا صدر کو ذاتی عناد ہو تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا سپریم کورٹ کا دروازہ ہر صورت میں ہی کھلا ہوتا ہے،آپکو نہیں لگتا سارا اختیار صرف صدر کے پاس ہونا زیادہ خطرناک ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا صدر اپنے طور پر ریفرنس کی کارروائی شروع کر سکتا ہے

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ صدر کو ازخود کارروائی کا اختیار نہیں شکایت ملنا لازمی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپکے مطابق جج سے ذاتی عناد ہو بھی تو صدر کچھ نہیں کر سکتا؟

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ صرف آرٹیکل 58/2 کا اختیار صدر براہ راست استعمال کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر کسی ادارے کے پاس جج سے متعلق کوئی معلومات ہوتو وہ  کیسے کارروائی کرے گا؟

منیر اے ملک نے کہا ادارے کے قوانین کو مدنظر رکھنے کے ساتھ اسکو اجازت لینا بھی ضروری ہوگی۔ کل مزید دلائل جج کے تقرری اور ہٹائے جانے کے طریقہ کار پر دوں گا۔

یہ بھی پڑھیے: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

منیر اے ملک کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ۔

About The Author