ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی سوانح عمری دختر مشرق میں لکھتی ہیں کہ "میں چھوٹے جیلر کے سامنے بے بس کھڑی تھی اور میرے ہاتھوں میں اپنے والد کے بچے کچھے سامان کی ایک چھوٹی سی پوٹلی تھی اور بس۔کولون شالیمار کے عطر کی خوشبو ان کے کپڑوں سے ابھی تک آرہی تھی۔میں نے ان کی قمیض کو اپنے ساتھ بھینچ لیا اور اچانک کیتھلین کینڈی یاد آگئی جس نے ریڈکلف میں اپنے والد کے قتل کے بعد اس کا لباس پہن لیا تھا۔سیاسی اصطلاحات میں ہمارے دونوں خاندانوں میں مماثلت پائی گئی تھی ۔اب ہم میں ایک نیا اور خوفناک رشتہ مشترک ہوگیا تھا ۔اس رات اور بعد میں بہت سی راتیں میں اپنے والد کو اپنے پاس محسوس کرنے کے لیئے ان کی قمیض اپنے تکیئے کے نیچے رکھ کر سوتی رہی۔
وقت گذرتا گیا بھٹو کی پنکی نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کی بہتری کے لیے ،غریب مزدور اور پسے ہوئے ہاری کی زندگیوں میں خوشیاں لانے کے لیے اپنی خوشیاں قربان کردیں ۔نازونعم میں پلی پنکی کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔پابند سلاسل کرنے والوں کو لگتا تھا کہ عیش و عشرت میں پلی یہ دھان پان سی لڑکی جلد ہی ہتھیار ڈال دے گی ۔مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ پنکی جب بھی کمزور پڑتی ہے تو اپنے والد کے لباس کو تکیئے کے نیچے رکھ کر سوتی ہے ۔کولون شالیمار کی خوشبو اس کے گرد ایک حفاظتی حصار کھینچ دیتی ہے اور وہ اپنے والد کی خوشبو کے دائرے میں محفوظ ہوجاتی ہے ۔
پنکی کے تکیئے کے نیچے رکھے والد کے لباس کے سبب پنکی کے خواب بھی جدوجہد سے بھرپور رہے اور وہ اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے جب 10اپریل 1986 کو لاہور ائیرپورٹ پر اتریں تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔بے نظٰر جب قافلے کے ساتھ جلسہ گاہ کو روانہ ہوئیں تو ان کو عوام کی محبت میں کولون شالیمار کی خوشبو محسوس ہوئی ۔ایک ایسی خوشبو جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کپڑوں سے آتی تھی وہی خوشبو بے نظیر بھٹو کے وجود میں رچ بس گئی ۔پنجاب کی والہانہ محبت سے سندھ دھرتی کی بیٹی کھلھلا اٹھی اور باآواز بلند نعرہ لگایا کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے ۔اور اس کا نعرہ گڑھی کے مکینوں نے بھی سنا اور سندھ دھرتی کے باسیوں سمیت پوری قوم نے سنا اور جواب میں پوری قوم نے نعرہ لگایا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر
مگر سیاست اتنی سہل نا تھی ۔ایک آمر کو یہ واپسی قبول نا تھی یہ نعرہ قبول نہ تھا عوام کی حکمرانی قبول نا تھی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔آمر کی کہانی اختتام پذیر ہوئی تو 1988 میں سلسلہ وہیں سے جڑا جہاں سے رکا تھا اور بھٹو کے دور حکومت کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت کا دور شروع ہوا۔مگر بنت ارض ایشیا کے لیئے سازشیں عروج پہ تھیں لشکر یزید کا ہرفرد ان سازشوں میں شریک تھا۔محترمہ کے لیے سیاسی سفر گویا کربلا سے شام تک کا سفر ثابت ہوا۔مگر وہ باحوصلہ رہیں اپنے والد کے لباس اور ان کی خوشبو کو سینے سے لگائے ہر مشکل گھڑی کا سامنا کیا۔ایک بار پھر اقتدار حاصل کیا مگر آمر کی باقیات نے پھر مدت پوری نا کرنے دی ۔
مشرف کے دور میں بے نظٰیر بھٹو ملک سے باہر چلی گئیں ۔اس بار جلاوطنی کا دورانیہ طویل ہوگیا۔دنیا بھر میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی اور آمریت کے خلاف ایک اخلاقی محاز جیت لیا۔بالآخر8 سالہ جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر 2007 میں بے نظٰیر بھٹو کی وطن واپسی ہوئی ۔ایک لیڈر اپنی عوام کی خاطر واپس لوٹی تو عوام کے لاکھوں کے اجتماع نے اپنی قائد کا کراچی میں بھرپور استقبال کیا۔سانحہ کارساز ہوا اور سینکڑوں جانثاران بے نظیر اپنی قائد کی حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے۔ کارساز میں ایک عظیم سانحہ رونما ہوگیا مگر بے نظٰیر بھٹو کے عزم و حوصلے کو پست نا کرسکا۔دو روز بعد زخمی کارکنوں کی عیادت کرنےکے لیے ہسپتال پہنچ گئیں۔
26 دسمبر کی رات کو محترمہ بے نظیر بھٹو اسلام آباد پہنچیں تو ان کو اطلاع دی گئی کہ آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج ان سے ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ملنےکا وقت دیااور یہ ملاقات رات کے ڈیڑھ بجے ہوئی۔ندیم تاج نے بی بی کو بتایا کہ کل ان پر خودکش حملہ ہوسکتا ہے اس لیئے وہ اپنے پروگرام محدود کردیں جس پر بی بی نے کہا کہ وہ اپنے پروگرام شیڈول کے مطابق کریں گے ۔27 دسمبر کے دن محترمہ اسلام آباد سرینا ہوٹل میں حامد کرزئی سے ملنے گئیں اور ڈیڑھ بجے بلاول ہاوس واپسی ہوئی ۔سہہ پہر کو پنڈٰی کےلیاقت باغ پہنچ کر ہزاروں کے مجمع سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے آدھے گھنٹہ تک خطاب کیا۔
جلسہ کا اختتام ہوا اور محترمہ واپسی کے لیے روانہ ہوئی جلسہ گاہ کے باہر کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے محترمہ جیسے ہی گاڑی سےباہر نکلیں تو ان پرحملہ ہوگیا۔پہلے فائرنگ ہوئی اور اس کے بعد خودکش حملہ ہوا۔محترمہ اس حملے میں شہید ہوگئیں ان کو ہسپتال لے جایا گیا تاہم ان کو بچانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں ۔سرکاری طورپر اعلان ہوا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئی ہیں ۔ایک قیامت تھی جو پیپلزپارٹی کے جیالوں کے سروں پر ٹوٹ پڑی تھی۔ملک کے طول و عرض میں ایک سوگ کی کیفیت چھاگئی ۔ہر آنکھ اشکبار تھی ہر چہرہ اداس تھا۔چاروں صوبوں کی زنجیر دہشت گردی کے اس واقعے میں ٹوٹ چکی تھی ۔اس کنیز کربلا کا سفر میں شام آچکی تھی ۔بھٹو کی لاڈلی کا سفر اختتام پذیر ہوا۔بھٹو خاندان کی شہادتوں میں ایک شہادت کا اضافہ ہوگیا۔سندھ کی سوندھی مٹی کو سندھ لایا گیا اور گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک کردیا گیا۔اپنے والد کے لباس کو تکیئے کے نیچے رکھ کر سونے والی پنکی کا اپنے والد سے جدائی کا عہد ختم ہوا۔بلاشبہ دختر مشرق جب اپنے والد سے ملی ہوگی تو سرخرو ہوکر ملی ہوگی۔
مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ