محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فکشن کی تاریخ کے عظیم ترین ناولوں کی فہرست بنائی جائے تو اس میں سب سے نمایاں ٹالسٹائی کے دو ناول وار اینڈ پیس اور اینا کارینینا آئیں گے، ان کے ساتھ ہی دوستﺅفسکی کے دو عظیم ناول ” برادرز کراما زوف “ اور ”کرائم اینڈ پنشمنٹ “کھڑے ہیں۔پچھلی دو صدیوں میں دنیا بھر کے نامورادبی جرائد کے مدیران نے بے شمار سروے کرائے۔ عالمی شہرت یافتہ مصنفین اور نقادوں کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ تاریخ انسانی میں جتنے ناول لکھے گئے، ان میں ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس اور دوستﺅفسکی کا” برادرز کرامازوف “ سب سے بڑے ناول ہیں۔ بعض وار اینڈ پیس کو نمبر ون پر رکھتے ہیں، کسی کی پسند دوستﺅ فسکی کا ناول ہے مگر یہ سب متفق ہیں کہ وار اینڈ پیس جیسا ناول کبھی نہیں لکھا گیا۔
اردو زبان میں طویل عرصہ تک دونوں ان دونوں عظیم ناولوں کا ترجمہ نہیں ہوپایا۔ اس بڑے کام میں ہاتھ ڈالنا آسان نہیں تھا۔ ایک بڑی مشکل تو یہ ہے کہ دونوں ناول روسی میں لکھے گئے اور روسی سے اردو میں ترجمہ کرنے والے ناپید تھے۔ یہی طریقہ تھا کہ اس ناول کے روسی سے انگریزی میں ترجمہ کو اردو میں منتقل کیا جائے۔ یوں یہ ترجمہ در ترجمہ والی صورت بن جاتی ہے۔ ناول اتنے ضخیم اور مشکل ہیں کہ انہیں ترجمہ کرنا تو دور کی بات ہے پہلے اچھی طرح سمجھ لینا بھی ایک باقاعدہ کام ہے۔ ہمارے کئی معروف ادیبوں نے وار اینڈ پیس کا ترجمہ شروع کیا، مگر پھر ادھورا چھوڑ دیا۔ آخرکار اس ناول کو ایک باکمال مترجم مل گیا، جن کا نام شاہد حمید ہے۔ شاہد حمید دو سال پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر اپنی زندگی میں وہ یہ غیر معمولی کارنامہ انجام دے گئے۔ شاہد صاحب نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ لگا کر وار اینڈ پیس کا اردو ترجمہ کیا اور پھر دوستﺅ فسکی کا برادرزکراما زوف کا ترجمہ بھی کرامازوف برادران کے نام سے کر ڈالا۔ یوں تاریخ انسانی کے دونوں عظیم ناولوں کا ترجمہ شاہد حمید مرحوم کے کریڈٹ پر ہے۔ دونوں تراجم اتنے شاندار ہیں اور ان میں اتنی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا گیا ہے کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ کوئی احسان شناس ملک ہوتا، کوئی احسان شناس زبان ہوتی تو اس کارنامے پر شاہد حمید کو بڑا حکومتی ایوارڈ دیا جاتا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ستم ظریفی یہ کہ کسی ادبی حلقے نے اس کے لئے مہم بھی نہیں چلائی۔ شاہد حمید زندہ تھے تو خاکسار نے دو تین بار اپنے کالموں میں یہ مطالبہ کیا۔ ہر سال صدارتی ایوارڈز ملنے پر جو دکھی، افسردہ ، مایوسی میں لپٹا کالم لکھنا پڑتا ہے، اس میں بھی بار بار یہی کہا کہ شاہد حمید صاحب کو ان کی زندگی میں اعزاز مل جانا چاہیے ۔ نہیں مل سکا۔ اب بعد ازمرگ ہی سہی، یہ قرض اتار دینا چاہیے۔
شاہد حمید نے وار اینڈ پیس کا ترجمہ” جنگ اور امن “ کے نام سے کیا تھا، یہ پندرہ بیس سال پہلے ایک غیر معروف ناشر ادارے نے شائع کیا۔ پہلا ایڈیشن نکل گیا تو اگلے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ شاہد صاحب نے بڑی کوشش کی ، کئی پبلشرز سے بات کی، مگر کوئی اس ضخیم ناول کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ آخری برسوںمیں انہوں نے مسودہ اورحقوق لاہور کے مشہور کتاب خانہ ریڈنگز (اِلقا پبلشرز)کو سونپ دئیے، مگر کتاب چھپ نہیں سکی۔ اپنے آخری دنوں میں شاہد حمید صاحب کو اس پر بڑا قلق تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ایک اچھا کام یہ ہوا کہ بک کارنر، جہلم نے شاہد حمید صاحب کی کئی کتابیں چھاپ دیں۔ پچھلے سال انہی دنوں میں دوستﺅفسکی کا ناول کرامازوف برادران شائع ہوا۔کیا ہی خوبصورت انداز میں اسے چھاپا گیا ۔اس کے بعد شاہد حمید کے تراجم ایڈورڈ سعید کی کتاب مسئلہ فلسطین ، جوسٹین گارڈر کا ناول ”سوفی کی دنیا“ اور جین آسٹن کامشہور ناول Pride and Prejudiceبھی شائع کر دیے گئے۔
اس سال کا سب سے اہم ادبی واقعہ (پاکستانی تناظر میں)یہ ہوا کہ جنگ اور امن کا نیا ایڈیشن شائع ہوگیا ہے۔ بیس پچیس سال بعد یہ کتاب چھپی ہے۔ ریڈنگز لاہور کے ڈاکٹر ناصر اس پر تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی اور عمدگی سے اس ضخیم کتاب کو شائع کیا ہے۔ جنگ اور امن پہلے دو حصوں میں شائع ہوئی تھی۔ اب ریڈنگز نے اسے ایک ہی جلد میں چھاپا ہے، سترہ سو صفحات کے لگ بھگ کتاب بہت ضخیم ہے مگر اسکی جلد اتنی مضبوط ہے اور کاغذ عمدہ ہونے کے ساتھ ہلکا اور نفیس ہے کہ پڑھنے والا دقت محسوس نہیں کرتا۔ سچی بات ہے کہ پچھلے دو تین دن اس ناول کے شائع ہونے کی سرشاری میں گزرے ہیں۔ یہ کتاب میرے بستر کے سرہانے پڑی ہے، اسے ابھی باقاعدہ شروع نہیں کیا۔ اٹھا کر ورق گردانی کرتا ہوں، شاہد حمید صاحب کے ناول کی وضاحت کے لئے لکھے صفحات پڑھتا ہوں، کبھی ڈاکٹر سہیل احمد خان کا عالمانہ دیباچہ دیکھتا ہوں، کتاب کے مختلف حصوں پر نظر ڈال لی، آخر میں جو تفصیلی حاشیہ ہے ،اسے پڑھنے لگ جاتا ہوں۔اس ناول کی مختلف اصطلاحات اور ضروری باتوں کی وضاحت کے لئے شاہد حمید صاحب نے اسی بیاسی صفحے لکھے ہیں،یہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یقین جانئے فکشن کے کسی قاری کے لئے وار اینڈ پیس کے ساتھ گزرا وقت کسی حسین دوشیزہ سے ملاقات سے کم نہیں۔ آخری تخمینے میں یہ ناول کچھ زیادہ ہی پرلطف نکلے گا۔
وار اینڈ پیس پر میں بہت بار لکھ چکا ہوں، مختلف ادوار میں کئی کالم اس پرلکھے ، بہت سے دوستوں کو یہ ناول پڑھنے کا مشور ہ دیا۔ وار اینڈ پیس یا جنگ اور امن ایک طرح سے سمندر ہے۔ اس میں پیراکی کرنا بھی سمندرمیں تیرنے کے برابر ہے۔ اسے پڑھنا ایک شاندار تجربہ ہے۔ فکشن کے درجنوں ناول پڑھنے سے بہتر ہے کہ آدمی دل لگا کر ، پورے انہماک کے ساتھ وار اینڈ پیس (جنگ اور امن)کو پڑھ ڈالے۔ یہ البتہ یاد رہے کہ اس ناول کو پڑھنے کے لئے قاری کے پاس سٹیمنا اور ارتکاز کے ساتھ کچھ وقت بھی ہونا چاہیے۔ دراصل یہ ناول بہت پھیلا ہوا ہے، اس کے کئی سو کردار ہیں، تین سو کے قریبی روسی جبکہ دو ڈھائی سو فرانسیسی اور دیگر کردار ہیں۔ چند ایک گھرانوں کا تفصیلی ذکر ہے۔ شاہد حمید صاحب نے بڑی عرق ریزی سے قارئین کے لئے بڑے اچھے نوٹس بنائے ہیں۔ابتدا ہی میں اہم کرداروں کا ذکر ہے، یہاں کچھ وقت لگا کر نام یاد کر لینے چاہئیں یا ان کا تصور ذہن میں بٹھا لیا جائے۔ پھر آگے بڑھا جائے، ویسے آگے جا کر بھی آپ کو بار بار ان کرداروں کے تذکرہ والے ابتدائی صفحات کی طرف جھانکنا پڑ جاتا ہے۔
وار اینڈ پیس دراصل نیپولین کے روس پر حملہ کی روداد ہے۔ نیپولین کو اس حملے میںبہت بری ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے ماسکو فتح کر لیا تھا، مگر روسی افواج پیچھے ہٹ گئیں ۔ نیپولین کی فرانسیسی فوج اندر گھستی گئی اور پھرروس کے انتہائی سرد موسم نے انہیں تباہ کر ڈالا۔ نیپولین نے مجبوراًواپسی کی راہ لی، مگر ناسازگار موسم اور راستے میں قازق جنگجوﺅں کے چھاپہ مار حملوں نے برا حال کر دیا۔ فرانسیسی فوج کے ساٹھ ستر فیصد حصے کا صفایا ہوگیا۔ شاہد حمید صاحب نے ناول کی ابتدا میں ایک پورا باب اس تاریخی پس منظر پر دیا ہے جسے سمجھ لیا جائے تو ناول کا تمام تر تناظر واضح ہوجاتا ہے۔
طویل عرصے سے اس ناول کو عظیم ترین اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ مصنف نے اس میں کمال کر دکھایا ہے۔ کرداروں کی منظر کشی ایسی کہ قاری اپنے تصور میں خود کو اس ماحول میں پاتا ہے۔ روسی شہری تہذیب، زوال زدہ روسی جاگیردار معاشرے کی اندرونی صورتحال، فری میسن سوسائٹیوں کی چکربازیاں، محبت، دشمنی، غیر ضروری انا میں لڑے گئے ڈوئیل ، سرد موسم میں کئے شکار، جنگ کی تباہ کاری ، موت کی سیاہ رت اور پھر زمانہ امن میں بچے کھچے کرداروں کی زندگی …. یہ سب شاندار طریقے سے بیان کی گئی۔ اس کا مرکزی کردار پیتر،پرنس آندرے نکولائی، کاﺅنٹ نکولاس اور اس کی بہن کاﺅنٹس نتالیا یا نتاشا کے کردار کمال ہیں۔ نتاشا کا کردار میرے فیورٹ کرداروں میں سے ایک ہے، ایسا طاقتور نسائی کردار جس کے اندر محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے اور جو اپنے خاوند کے ساتھ بعد میں یوں جڑ جاتی ہے کہ قاری دنگ رہ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹالسٹائی نے یہ کردار اپنی سالی کو دیکھ کر اخذ کیا۔
روسی زبان کی بہت سی اپنی پیچیدگیاں اور نزاکتیں ہیں۔ شاہد حمید صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کوشش کر کے کسی حد تک روسی زبان سیکھی اور اس ترجمہ میں اپنی اسی معلومات کو بھی استعمال کیا۔ انہوں نے وار اینڈ پیس کے فارسی ترجمہ کو بھی پیش نظر رکھا، انگریزی کے کئی تراجم دیکھے اور ٹالسٹائی کے انگریزی تراجم میں جو غلطیاں اور خامیاں رہ گئیں، ان سب کا خیال رکھا۔ ایک طرح سے یہ ایک بڑا ریسرچ پراجیکٹ تھا، جسے کئی لوگوں کو مل کر کرنا چاہیے تھا، اردو کے ایک مترجم نے اکیلے یہ سب کر دکھایا۔ مارکیٹ میں اس ناول کے ایک دو ترجمے بھی موجود ہیں، مگر وہ سطحی مذاق سے کم نہیں۔ دراصل ان لوگوں نے شاہد حمید کے ترجمے کی اپنی دانست میں تسہیل کر کے کام چلایا۔ پڑھنے کے لائق شاہد حمید صاحب کا ترجمہ ہی ہے۔ خوش قسمتی سے اس کا نیا ایڈیشن دو عشروں بعد شائع ہوگیا ہے۔فکشن اور عالمی ادب سے دلچسپی رکھنے والے اس سے فائدہ اٹھائیں۔
نوٹ : ناول جنگ اور امن خریدنے کے لئے
Readings Lahore
0300 0450227
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر