نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ماہواری والا جن!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

یقین مانیے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ شرم و حیا کے پردے سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ تو نہیں، جو بقول اکبر الہ آبادی مردوں کی عقل پہ پڑا کرتا ہے۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں ایسی باتیں وہی کر سکتے ہیں، جن کا سفر الٹے پاؤں طے ہو رہا ہو۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” میرے اندر ایک شعلہ بھڑکتا ہے، جو الاؤ میں بدل جاتا ہے، جی چاہتا سب کو جلا کر راکھ کر دوں۔ اس قدر غصہ آتا ہے کہ خدا کی پناہ!

ہر کوئی برا لگتا ہے، ہر کسی سے الجھن محسوس ہوتی ہے، کسی کا لمس اچھا نہیں لگتا۔ ہر کسی سے لڑ پڑتی ہوں، چیختی ہوں، بچوں کو مارتی ہوں، شوہر سے تلخ ہوتی ہوں اور اس کے بعد رونے بیٹھ جاتی ہوں۔

مجھے لگتا ہے کہ میں کوئی کام نہیں کر سکتی، کسی کو میری ضرورت نہیں، بس مجھے مر جانا چاہیے، اب قبر ہی مجھے سکون دے سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چاروں طرف اندھیرا ہے، کہیں کوئی امید نہیں، بستر سے اٹھ نہیں پاتی۔ مایوسی گھیر لیتی ہے، سوچتی رہتی ہوں، کیا ہے یہ سب اور کس لئے؟ خود کشی کرنے کو جی چاہتا ہے“

وہ مریضہ بلکتے ہوئے مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھیں،

”ڈاکٹر صاحبہ، ایسا ہر ماہ ہوتا ہے۔ میرا جسم پھول جاتا ہے، انگلیوں میں انگوٹھیاں تنگ پڑ جاتی ہیں، چھاتی میں شدید اکڑاؤ آ جاتا ہے، نیند مشکل سے آتی ہے، ساری ساری رات جاگتی ہوں۔ میٹھی چیزیں پاگلوں کی طرح ٹھونستی ہوں، بیٹھے بیٹھے روتی ہوں۔ شوہر اگر دلاسا دینے کی کوشش کریں تو مجھے ان کی تسلی جھوٹی لگتی ہے، ان کی موجودگی بری لگتی ہے۔ بتائیے میں کیا کروں؟“

وہ چالیس برس کی خوش شکل خاتون انتہائی پریشان حالت میں ہمارے سامنے بیٹھی تھیں۔ ان کے مطابق ان کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔

”یہ تکالیف کب محسوس کرتی ہیں آپ؟“
ہم نے پوچھا،

”ماہواری کی تاریخ سے ہفتہ دس دن پہلے تک میں ٹھیک ہوتی ہوں پھر سب بدل جاتا ہے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی جاتی ہے، تکلیف بڑھتی جاتی ہے“ وہ پژمردگی سے بولیں،

”پھر ماہواری کے دوران کیسا محسوس کرتی ہیں آپ؟“

”ماہواری آتے ہی یکا یک میں بہتر ہونا شروع ہو جاتی ہوں جیسے کوئی جادو کی چھڑی سے ہر بات بدل کر رکھ دے۔ ماہواری ختم ہوتے ہوتے طبعیت ایسی ہشاش بشاش ہوتی ہے کہ مجھے خود یقین نہیں آتا۔ سہمے ہوئے بچے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں، شوہر کا قرب اچھا لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور ایسا ہر ماہ ہوتا ہے ڈاکٹر! ایسا کیوں ہے؟ میں بہت پریشان ہوں“

صاحب، یہ ہے وہ طوفان جو ہر مہینے کچھ عورتوں کو زومبی بنا دیتا ہے۔ طبعیت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی تو ہر عورت محسوس کرتی ہے اور ان تبدیلیوں کو پری مینسٹرول سیمپٹمز کہا جاتا ہے (PMS) ۔ دس فیصد خواتین میں یہ تکلیف شدت اختیار کرتے ہوئے انہیں ڈپریشن اور اینگزائٹی کی طرف لے جاتی ہیں، تب اسے پری مینسٹرول ڈسفورک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے ( PMDD) ۔

سمجھ لیجئیے کہ عورت کا جسم اور ماہواری ہارمونز کے پیچیدہ اور گنجلک نظام سے جڑا ہے۔ ہم نے ”اٹھائیس دن کی زندگی“ نامی مضمون میں تفصیل سے لکھا تھا کہ کن دنوں میں کون سا ہارمون بنتا ہے اور اس ہارمون کے زیر اثر کون سا کام انجام پاتا ہے۔ دماغ میں واقع گلینڈز سے نکلنے والے ہارمونز اور بقیہ جسم سے پیدا ہونے والے ہارمونز آپس میں آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے اس نظام کو چلاتے ہیں۔

لیکن کچھ خواتین میں ان ہارمونز کا غیر متوازن اثر ایک ایسے ہارمون پر پڑتا ہے جو انسانی جذبات اور موڈ کے لئے بہت اہم ہے۔ دماغ میں بننے والا یہ ہارمون سروٹینین کہلاتا ہے۔ سروٹینین نامی ہارمون کی کمی شدید ڈپریشن اور اینگزائٹی کا سبب بنتی ہے۔

سروٹینین کی کمی سے ہونے والی تکالیف کو محض جذبات و احساسات کے مدوجزر کا نام دے کر منہ نہیں پھیرا جا سکتا۔ ہارمونز کی کمی بیشی جسم کو واقعتاً بہت سی تکالیف کا شکار بناتی ہے۔

جان لیجیے کہ ماہواری محض رحم سے خون آنے کا نام نہیں۔ یہ ہیجانی ٹوٹ پھوٹ کا ایک ایسا طوفان ہے جو عورت کے جسم کو ہر ماہ اپنے گھیرے میں لے کر پٹخنیاں دیتا ہے۔ مرد چونکہ تبدیلیوں کے اس مدوجزر کا نشانہ نہیں بنتا اس لئے وہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکتا کہ گھر کی عورت کن مشکلات سے نبرد آزما ہے۔

صاحب، پی ایم ایس ہو یا پی ایم ڈی ڈی، دواؤں کے ہمراہ ساتھی کا محبت بھرا ہاتھ ہی سفر کو سہل بنا سکتا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author